سپریم کورٹ، 6000 قیدیوں کی رحم کی اپیلوں کیلئے لارجر بنچ کے قیام کی استدعا مسترد،درخواست گزار لارجر بنچ کے قیام کے لئے براہ راست چیف جسٹس سے رجوع کریں ،لارجر بنچ کی تشکیل صرف چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار ہے ، ہم مداخلت نہیں کر سکتے ، جسٹس اعجاز افضل خان ،سزائے موت کے قیدیوں کے مکمل اعدادو شمار پیش نہ کرنے پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی کی سرزنش

بدھ 23 مارچ 2016 09:51

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 23مارچ۔2016ء) سپریم کورٹ نے 6000 قیدیوں کی رحم کی اپیلوں کے حوالے سے درخواست نمٹاتے ہوئے درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ کی جانب سے لارجر بنچ کے قیام کی استدعا مسترد کر دی ہے اور درخواست گزار کو مشورہ دیا ہے کہ وہ لارجر بنچ کے قیام کے لئے براہ راست چیف جسٹس پاکستان سے رجوع کریں ۔ لارجر بنچ کی تشکیل صرف چیف جسٹس کی صوابدیدی اختیار ہے جس میں ہم مداخلت نہیں کر سکتے جبکہ دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے وفاقی حکومت کی جانب سے سزائے موت کے قیدیوں کے مکمل اعدادو شمار پیش نہ کرنے پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی کی سرزنش کی ہے اور کہا ہے کہ وہ صوبوں سے رابطہ کر کے بھی تو یہ اعداد و شمار اکٹھے کر سکتے تھے انہوں نے مکمل اعداد و شمار کیوں اکٹھے نہیں کئے ۔

(جاری ہے)

قتل کے ملزم کو سزائے موت اور عمر قید کی ایک جرم میں ایک ساتھ سزا نہیں دی جا سکتی جس سزائے موت کے قیدی نے عمر قید کے برابر سزا کاٹ لی ہو اس کو سزائے موت نہیں دی جائے گی ۔ پانچ رکنی لارجر بنچ نے فیصلہ دے رکھا ہے اور ہم عدالتی فیصلوں کے پابند ہیں پہلے ہی اس معاملے کو ایک لارجر بنچ جائزہ لے کر فیصلہ دے چکا ہے تو اب دوسرا لارجر بنچ کس طرح تشکیل دے سکتے ہیں جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی نے سزائے موت کے خلاف اپیلوں بارے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت داخلہ کے پاس 38 رحم کی اپیلیں زیر التواء ہیں جبکہ ایوان صدر میں زیر التواء اپیلوں کی تعداد 353 ہے اور 444 سزائے موت کے ملزمان کی رحم کی اپیلیں مسترد کی جا چکی ہیں یہ اعداد و شمار 2014 تک کے ہیں انہوں نے یہ رپورٹ منگل کے روز پیش کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا تاہم عدالت نے دوبارہ اس بارے رپورٹ طلب نہیں کی اور درخواست نمٹا دی ۔

وطن پارٹی کے ظفر اللہ پیش ہوئے اور عدالت کو 6000 رحم کی اپیلوں کے حوالے سے بتایا ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سزائے موت اور عمر قید میں ایک سزا دی جا سکتی ہے ۔ پانچ رکنی لارجر بنچ مقرر کیا گیا انہوں نے بہت سے کونسلوں کو سننے کے بعد عبدالمالک کیس کا ازسرنو جائزہ لیا سوال یہ ہے کہ اس طرح کے مقدمات سے کس طرح نمٹا جائے ۔ خالد کے مقدمے میں بین الاقوامی قوانین کا بھی جائزہ لیا گیا۔

آپ اس طرح کی درخواستیں کیوں دے رہے ہیں ۔ ظفر اللہ نے کہا کہ دو فیصلے کر چکے ہیں ۔ عدالت دلاور حسین کے مقدمے کے فیصلے کی پابند ہے یہ انسان ہیں کوئی سبزیاں نہیں ہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ کیا کوئی فیصلہ موجود ہے کہ جس پر لارجر بنچ قائم کیا گیا ہو جب پہلے ہی پانچ رکنی لارجر بنچ فیصلہ دے چکا ہے ہم پہلے سے دیئے گئے فیصلوں کے پابند ہیں ہم ان سے الگ فیصلہ نہیں دے سکتے ۔

پہلے پانچ رکنی لارجر بنچ کے فیصلے کو دوسرا پانچ رکنی لارجر بنچ کیسے سنے اور کس طرح سے آئین کے آرٹیکل (3 ) 184 کے تحت اس کی سماعت کی جا سکتی ہے ۔ظفر اللہ نے کہا کہ میں نے لارجر بنچ کے قیام کی استدعا کر رکھی ہے ۔ 6000 افراد کی زندگیوں کا معاملہ ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم عدالتی فیصلے کے پابند ہیں ہم لارجر بنچ قائم نہیں کر سکتے یہ کام چیف جسٹس کا ہے آپ نے اگر لارجر بنچ بنوانا ہے تو آپ چیف جسٹس سے رجوع کریں ۔

عبدالمالک کیس اب ہیلڈ ہو چکا ہے ہم اب کیا کر سکتے ہں یہ پانچ رکنی لارجر بنچ کی ضرورت ہے تو چیف جسٹس سے رجوع کریں ۔درخواست گزار نے کہا کہ ہم نے تو آپ کے ذریعے چیف جسٹس تک رسائی حاصل کرتا ہے آپ فیصلہ دے دیں تیسری بار آپ اس طرح کے مقدمے کی سماعت کر رہے ہیں آپ نے اس پرکوئی بات نہیں کی ہے ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ملزمان نے جب خود رابطہ نہیں کیا تو ہم ان کی سزا کیسے ختم کر دیں ۔

اگر کوئی ملزم 18 سال سے زائد کی سزا کاٹ لے تو ہم ا س کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی بلکہ اسے عمر قید کی سزا بھگتنا پڑے گی ۔ ایک شخص سیدھا فائر کر کے دوسرے کو مار دیتا ہے تو اس کی سزائے موت کیسے ختم کر دیں ہم حالات کو جانتے ہیں ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد بھٹی نے درخواست کی مخالفت کی درخواست گزار نے کہا کہ 18 ماہ میں حکومت نے کئے ۔ سزائے موت کے قیدیوں کو سزا دی ہے اب کیا صورت حال ہے ساجد بھٹی نے بتایا کہ انہوں نے رپورٹ فائل کی ہے کہ دسمبر 2014 تک 444 ملزمان کی معافی کی درخواستیں خارج کی گئی ہیں ۔

38 وزارت داخلہ کے پاس پنڈنگ اور صدر مملکت کے پاس 353 زیر التواء ہیں کل تعداد موجود نہیں ہے عدالت نے ان کو سرزنش کی کہ آپ نے تفصیل جمع کیوں نہیں کروائی صوبوں کا ڈیٹا کون لائے گا ۔کیا آپ صوبائی افسران کے رابطے میں نہیں ہوتے ۔ آپ افسران کو تقسیم کیوں کرتے ہیں تمام تر ڈیٹا لے کر آئیں ۔ ساجد بھٹی نے کہا کہ ایک ماہ دے دیں تفصیلات دے دیں گے ۔

عدالت نے کہا کہ ایک شخص جس کو سزائے موت دی گئی ہے اور ان کی سزا کو عمر قید میں کیسے بدلا جا سکتا ہے ۔ جس قیدی نے عمر جیل میں گزار دی اس کو دو سزائیں کیسے دی جا سکتی ہیں جس کی مخالفت آرٹیکل 13 میں کی گئی ہے درخواست گزار نے خالد اقبال اور دیگر کے مقدمات کے حوالے دیئے کہ فیصلوں سے معاملات واضح نہیں ہیں ۔ لارجر بنچ قائم کیا جائے ہمارا یہ کہنا ہے کہ لارجر بنچ کا قیام چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیار ہے۔ بعدازاں عدالت نے درخواست نمٹا دی ۔

متعلقہ عنوان :