ڈی ایچ اے شہداء کے پلاٹ دوسرے شہریوں کو نہیں دے سکتی، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل، ڈی ایچ اے نے سوات آپریشن کے دوران دہشت گردی کا شکار ہونے والے پاک فوج کے شہداء کے اہلخانہ کیلئے زمین لیکر انہیں نظرانداز کر دیا،ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی سرکاری اراضی کو تجارتی مقاصد کیلئے استعمال اور عوام الناس کو بھی فروخت کر رہی تھی،چیئرمین نیب کو درخواست

بدھ 13 اپریل 2016 10:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 13اپریل۔2016ء)ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں خلاف قانون پلاٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لئے چیئرمین نیب کو درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ کوآپریٹو سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ڈی ایچ اے شہداء کے نام پر حاصل کی گئی زمین سے پلاٹ دوسرے دوسرے شہریوں کو فراہم نہیں کر سکتی۔سندھ حکومت نے ڈی ایچ اے کو جو زمین الاٹ کی اس پر عدالت عظمیٰ حکم امتناعی بھی جاری کر چکی ہے ۔

سندھ حکومت سے 14000 ہزار ایکڑ زمین حاصل کرنے کے لئے ڈی ایچ اے نے تحریری درخواست کی تھی کہ اس زمین سے سوات آپریشن کے دوران دہشت گردی کا شکار ہونے والے پاک فوج کے شہداء کے اہلخانہ کو پلاٹ الاٹ کئے جائیں گے مگر بعدازاں انہیں نظرانداز کر دیا گیا اور ڈی ایچ اے نے یہ پلاٹ اوپن مارکیٹ میں فروخت کئے ۔

(جاری ہے)

11 اپریل 2016 کو نیب کے چیئرمین چودھری قمر زمان کو لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو 7 اپریل 2016 کو ڈی ایچ اے کراچی کے خلاف ایک دوسری شکایت موصول ہوئی جو کہ کوآپریٹو سوسائٹیز ایکٹ 1925 کی خلاف ورزی سے متعلق تھی کہ اس نے پاک فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کی بہبود کے لئے اور سندھ حکومت سے شہداء کے خاندانوں کے لئے ریزرو پرائس پر اراضی حاصل کی ۔

تاہم سرکاری اراضی کو تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کر رہی تھی اور عوام الناس کو بھی فروخت کر رہی تھی ۔ مراسلے میں شکایات کنندہ کے کئی الزامات کا ذکر کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ڈیفنس آفیسرز ہاؤسنگ اتھارٹی کا قیام 9 اگست 1980 کو ایک صداتی حکم نامے کے ذریعے عمل میں لایا گیا اور اس نے ڈیفنس آفیسرز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی لمٹیڈ کراچی کی جگہ سنبھالی جو پاک فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ آفسران کی بہبود کے لئے قائم کی گئی تھی تاہم ڈی ایچ اے سٹی پروجیکٹ میں پلاٹس عوام الناس کو بھی پیش اور الاٹ کئے جا رہے ہیں جو 9 اگست 1980 کے صدارتی آرڈیننس کی سراسر خلاف ورزی ہے ایک دوسرے الزام میں کہا گیا ہے کہ پاک فوج کے حاضر اور ریٹائرڈ افسران اور شہداء کے خاندانوں کے لئے ڈی ایچ اے کو سندھ حکومت رعایتی قیمتوں پر 14000 ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی ۔

ڈی ایچ اے 500 گز کے دو تیار شدہ پلاٹوں کی شرح سے نجی اراضی خرید رہا ہے اور یہ سب کچھ ڈی ایچ اے سٹی کے نام پر ایک ایکڑ اراضی کی منتقلی پر ہو رہا ہے ایسے دو پلاٹوں کی مارکیٹ قیمت 7 ملین روپے ہے یعنی ڈی ایچ اے ایک ایکڑ 14 ملین روپے میں خرید رہا ہے ۔ 14000 ایکڑ کی مجموعی قیمت 196 ارب روپے ہے تاہم ڈی ایچ اے کو سندھ حکومت نے 14000 ایکڑ اراضی ایک لاکھ روپے فی ایکڑ میں منتقل کی ۔

جس کا ٹوٹل ریونیو 1.4 ارب روپے بنتا ہے کیونکہ ڈی ایچ اے تجارتی مقاصد کے لئے اراضی استعمال کر رہی ہے حکومت سندھ کو اپنی اراضی کی بقایا قیمت 194.6 ارب روپے حاصل کرنی چاہئے تیسرے الزام میں کہا گیا ہے کہ ڈی ایچ اے کراچی نے 18 دسمبر 2014 کو سندھ حکومت سے درخواست کی کہ سپر ہائی وے پر 1000 ایکڑ اراضی الاٹ کرے تاکہ آرمی جوانوں کے ورثاء کے لئے پلاٹس الاٹ کئے جا سکیں جنہوں نے سوات میں جام شہادت نوش کیا ۔

اراضی کے حوالے سے سیکرٹری کی جانب سے پیش کردہ سمری میں کہا گیا ہے کہ اس اراضی کی درخواست پاک فوج کے ان جوانوں کے ورثاء کے لئے کی گئی تھی جنہوں نے سوات میں دہشت گردی کے خلاف جام شہادت نوش کیا ۔ 1000 ایکڑ اراضی میں سے 523 ایکڑ منظور شدہ اراضی ڈی ایچ اے کو الاٹ نہیں ہونا تھی اور اس اراضی کو نیب کراچی اور وزیر اعلی سندھ نے منسوخ کر دیا تھا ۔

52.21 ایکڑ اراضی 27 نومبر 2012 کو ڈی ایچ اے کو الاٹ کی گئی اور 2015 میں غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کر دی گئی اس طرح 452 ایکڑ اراضی 2013 میں الاٹ کی گئی اور خاکی انٹرپرائز اور کمپنی کراچی رائزنگ بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے نام پر 2015 میں منسوخ کر دی گئی اور اس معاملے کو 2015 میں سپریم کورٹ رپورٹ کر دیا گیا اور کیس کے فیصلے تک اس پر مزید آگے نہیں بڑھا جا سکتا اخبارات میں آیا ہے کہ اراضی کی لاگت 154000000 روپے ہے تاہم بعض سیاسی قوتیں ڈی ایچ اے کے نام پر براہ راست الاٹمنٹ چاہتی ہیں یہ اراضی کم قیمت 100 ملین روپے کی لاگت سے حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کی سندھ حکومت نے مخالفت کی ہے اور یہ معاملہ جنوری 2016 سے التواء کا شکار ہے بعض وزراء اور فرنٹ مین بھی یہ الاٹمنٹ چاہتے ہیں اگرچہ سپریم کورٹ کی جانب سے اراضی کی ٹرانسفر یا فروخت پر حکم امتناعی موجود ہے ۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کہاہے کہ ان معاملات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ٹرانسپرنسی کو پاک فوج کی دیانت پر کوئی شک نہیں ہے تاہم یہ الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں اور نیب کی جانب سے فوری تفتیش کی ضرورت ہے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اگر الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو نیب کو کارروائی کی درخواست کی جاتی ہے اور ان تمام افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے جو اختیارات کے ناجائز استعمال اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں ۔

متعلقہ عنوان :