پاکستانی لڑکی سے محبت :بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے مسلمان نوجوان کو ایجنٹ قرار دیکر 11سال قید کی سزا دلوائی،عدالت نے جاوید کو بے قصور قرار دیکر رہا کر دیا ،کراچی میں رشتہ داروں کی شادی پر گیا ،کزن سے پیار ہوگیا،فون پر بات ہوتی اور خطوط لکھا کرتے تھے،بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیکر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا،11 سال بعد رہائی کے بعد ”مبینہ“ سے رابطہ نہیں کیا ،ڈر لگتا ہے کہ کہیں پھر مجھے ایجنٹ قرار نہ دے دیں،جاوید کی آب بیتی

جمعرات 21 اپریل 2016 10:09

رام پور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21اپریل۔2016ء)پاکستانی لڑکی سے عشق کرنے والے بھارتی مسلمان نوجوان کو بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے پاکستانی ایجنٹ قرار دیکر 11 سال قیدکی سزا دلوائی ،عدالت نے بالاخر اس کی زندگی کے 11 ضائع ہونے کے بعد اسے بے قصور قرار دیتے ہوئے رہائی کر دیا ہے تاہم اس مسلمان نوجوان کا شکوہ ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں اس کی تباہی اور بربادی کی ذمہ دارہیں اسے ان حالات تک پہنچانے پر معاوضہ ادا کرنا چاہیے ۔

عدالت سے بری ہونے کے دو سالبعد جاوید نے اپنی محبت کی اس غیرمعمولی آپ بیتی کو بی بی سی سے شیئر کی ہے ۔ انہوں نے اپنے عشقیہ خطوط دکھائے اور بتایا کہ کیسے انھیں بھارتی خفیہ اداروں نے اغوا کر کے ان پر تشدد کیا اور جس پیار کے لیے وہ برسوں قید میں رہے بالآخر وہ بھی نہیں ملا۔

(جاری ہے)

33 سالہ جاوید نے بتایا کہ پاکستانی کزن مبینہ سے ان کی پہلی ملاقات 1999 میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ اپنی ماں کو لے کر کراچی گئے تھے۔

جب میں مبینہ سے ملا تو وہ مجھے بہت اچھی لگی اور مجھے ان سے پیار ہوگیا ،ہماری پہلی ملاقات خاندان کے ایک شادی میں ہوئی اس دوران مبینہ نے مجھ سے اپنی محبت کااظہار کیا جس کے بعد میں نے بھی اظہار محبت کیا،انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ کے ہمراہ کراچی میں ساڑھے تین ماہ قیام کیا اس دوران ہماری محبت پروان چڑھتی رہی،جاوید نے مزید بتایا کہ مبینہ گھر سے کالج جانے کا بہانہ کر کے نکلتیں اور پھر میں ان کو سفاری پارک لے جاتا جہاں ہم بیٹھتے اور خوب پیار و محبت کی باتیں کرتے یہ میری زندگی کے سنہری دن تھے،جاوید کا کہنا ہے بھارت واپسی کے بعد ٹی وی مکینک کا کام شروع کیا اور جو پیسے کماتاوہ پاکستان فوج کر کے خرچ کر دیتا،اس وقت موبائل فون نہیں تھے اس لیے میں ٹیلی فون بوتھ سے انہیں فون کیا کرتا تھا۔

یہ بہت مہنگا ہوتا تھا ان سے بات کرنے کے لیے اس وقت ایک منٹ کے لیے 62 روپے لگتے تھے،انہوں نے کہا کہ ایک سال بعد پھر پاکستان کا دورہ کیا ،اس دوران میرے اور مبینہ کے گھر والوں کی ہماری محبت کا علم ہو چکا تھا ،دونوں فیملی ہماری شادی کیلئے بھی رضا مند تھے ،مبینہ کے گھر والے چاہتے کہ میں کراچی آ جاؤں لیکن میرے گھر والوں کی خواہش تھی کہ مبینہ بھارت آ جائیں ،جاوید نے بتایا کہ مبینہ نے مجھے کہا کہ آپ بھارت واپس چلے جاؤ میں اپنے والدین کو راضی کرلوں گی ،دوسری بار پھر آنا اور مجھے ساتھ لے جانا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ اب میں دوبارہ کبھی واپس نہیں آپاوٴں گا اور اسے کبھی دوبارہ نہیں دیکھ پاوٴں گا،انہوں نے کہا کہ ہم فون پر رابطے میں رہے اور دونوں نے ایک دوسرے کو طویل خطوط بھی لکھے۔

لیکن میرے لئے مشکل یہ تھی اردو زبان بہت کم آتی تھی جس میں مبینہ انہیں خطوط لکھتی تھیں اس لیے خط پڑھوانے کے لیے مجھے اپنے قریبی دوست مقصود کی مدد لینا پڑتی تھی ،بس ایک دن میری اچانک دنیا ہی بدل گئی،جاوید نے آب بیتی سناتے ہوئے مزید بتایا کہ 10 اگست 2002 ہفتہ کے روز وہ اپنی دکان میں بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آیا اور ٹی وی درست کرنے کے لیے ساتھ چلنے کو کہا۔

وہ دکان سے کچھ ہی میٹر دور گئے ہوں گے کہ ایک کار آئی جس کا دروازہ کھلا اور بس انھیں اغوا کر لیا گیا۔اغواء کاروں نے میرا پرس، گھڑی اور دیگر چیزیں لے لیں۔ میرے پاس مبینہ کے دو خط بھی تھے اور وہ بھی انھوں نے لے لیے۔ انہوں نے کہا اگر میں چپ نہیں رہا تو وہ مجھے شوٹ کر دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے خاندان کو بھی اغوا کر لیا گیا ہے اور دوسری کار میں ان پر تشدد کیا جا رہا ہے،’میں رو رو کر، چیخ چلّا کر ان سے رحم کرنے کی گزارش کی کہ میں بے قصور ہوں ہم پر یہ تشدد نہ کرو لیکن انہوں نے ایک بات بھی نہ سنی، مجھے ایک کمرے میں لے جا کر تین روز تک اذیتیں دی گئیں،’انہوں نے مجھے بہت مارا۔

مجھے الٹا لٹکا دیتے اور میرا سر ایک پانی کے ٹب میں ڈبوتے تھے۔ یہ بہت تکلیف دہ تھا۔ جب میری یہ برداشت سے باہر ہوگیا تو میں نے ان سے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ وہ مجھے قتل کر دیں۔جاوید نے بتایا کہ مجھ پر پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا گیا اور پولیس نے دعوٰی کیا کہ وہ وزارت خارجہ اور دفاع کے خفیہ راز اسلام آباد کو پہنچاتے رہے ہیں،تین روز بعد انہیں رام پور دوبارہ واپس لایا گیا اور ان کے دوستوں مقصود، ممتاز میاں اور تاج محمد کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

چند روز بعد انہیں عدالت میں پیش کیا گیا اور صحافیوں کے سامنے خطرناک قسم کے دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا جنہوں نے بھارت کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی۔بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے مجھ پر الزام عائد کیا کہ میں کراچی جا کر آئی ایس آئی کے حکام سے ملاقات اور خفیہ راز پہنچانے کے لیے گیا تھا۔ ان پر پوٹا کے تحت مقدمہ چلا۔انہوں نے بتایا کہ قید تنہائی میں رکھا گیا اور بہت ایذائیں دی گئیں۔

وہ اپنے بہترین دوستوں سے جدا ہوگئے لیکن ان کے پیار کی یادیں ہی جیل کی ساتھی تھیں جن کے سہارے وہ اپنا وقت گزارتے، جیل میں دوسرے قیدیوں کو مبینہ کی کہانی سناتا تھا۔ کیسے مجھے پیار ہوا، اس کی عادتیں، کیسے وہ مجھے چڑاتی تھی۔ اس سے جیل میں مجھے بہت ہمت ملتی تھی۔،جاوید نے بتایا کہ میری رہائی کے لئے میرے والدین نے مقدمہ لڑاجس کے لیے انھیں اپنی زمین، جائیداد اور زیور تک فروخت کرنے پڑے۔

بالآخر 19 جنوری 2014 کو انہیں رہا کر دیا گا اور جج نے ان پر عائد تمام الزامات سے انہیں یہ کہہ کر بری کیا کہ ان کے خلاف ثبوت نہیں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ مبینہ کو اپنے ذہن سے تو نکالنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن دل سے نہیں نکال پائے۔میں اب بھی اس سے پیار کرتا ہوں لیکن کال کرنے سے ڈرتا ہوں۔ کیا ہوگا اگر وہ پھر میرے یا میرے خاندان کے پیچھے پڑ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے وہم وگمان بھی یہ نہیں تھا کہ انہیں اپنی ہی ایک پاکستانی رشتے دار سے محبت کرنے کا صلہ یہ ملے گا کہ دہشت گردی کے الزام میں انھیں ایذائیں دی جائیں گی اور ساڑھے گیارہ برس جیل کی سزا کاٹنی ہوگی۔

متعلقہ عنوان :