کئی ادارے نادہند ہ ہیں،حکومت رقوم کی وصولی میں کیوں ناکام ہے،چیف جسٹس ،کے الیکٹرک کے بقایا جات وفاق نے ادا کرنے ہیں یا سندھ حکومت نے ؟عدالت نے سیکرٹری خزانہ کراچی بورڈ سے جواب مانگ لیا،آئندہ سماعت پر کھاتہ جات کی مکمل تفصیل طلب

جمعہ 22 اپریل 2016 09:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22اپریل۔2016ء) سپریم کورٹ نے کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے بقایا جات سے متعلق کیس میں سیکٹری خزانہ نے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سے متعلق معلومات اور کراچی واٹر بورڈ اینڈ سیوریج سے اس کے کھاتہ جات کی مکمل تفصیلات طلب کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت مئی کے پہلے ہفتہ تک ملتوی کر دی ۔جمعرات کے روز کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔

مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو کے الیکٹرک کے وکیل عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ کراچی واٹر بورڈ بلوں کی ادائیگی میں ناکام رہے عدالتی حکم پر پانچ ارب روپے جاری کئے گئے تاہم چھ ارب اب بھی بقایا ہیں حکم امتناعی کے بعد کراچی واٹر بورڈ نے ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا ۔

(جاری ہے)

واٹر بورڑ کے ذمہ ہر مہینے کا 60 سے 70 کروڑ روپے واجب الادا ہوتا ہے تاہم ادا نہیں کیا جاتا ۔

واٹر بورڈ خود کو اسٹرٹیجک ادارہ کہتا ہے انتظامیہ کا موقف ہے کہ بل حکومت ادا کرے گی ہمارے پاس واٹر بورڈ کی بھی بجلی کاٹنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ۔بجلی کاٹنے میں تو ہم پر تنقید ہوتی ہے بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث بجلی کی پیداوار میں مشکلات کا سامنا ہے اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کے الیکٹرک کی وجہ سے واٹر بورڈ کو بھی نقصان ہوتا ہے جس پر کے الیکٹرک کے وکیل کا کہنا تھا کہ واٹر بورڈ کا اپنا پمپنگ سسٹم پرانا ہے جس سے مسئلہ ہوتا ہے اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ بجلی کی بندش سے دھابیجی پمپنگ سسٹم سے پانی چلا یاجاتا ہے پھر تین دن کے بعد آتا ہے ڈپٹی اٹارنی جنرل رانا وقار پیش ہوئے تو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ان سے استفسار کیا کہ کیا کے الیکٹرک کے بقایا جات سندھ حکومت نے ادا کرنے ہیں یا وفاق نے اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ کے الیکٹرک پر وفاق کا 269 ارب روپے کا دعویٰ ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کے الیکٹرک کے بغیر بلوں کی ادائیگی کے بجلی سپلائی کر سکتی ہے اس مسئلہ کا حل جلد نکالا جائے اب تک اس مسئلے کو حل ہو جانا چاہئے تھا ۔

وفاقی اور سندھ حکومت سنجیدہ ہوتی تو یہ مسئلہ حل ہو جاتا ۔بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے بغیر بجلی کیسے دی جا سکتی ہے کیا موجودہ بل ادا کئے جا رہے ہیں اس پر کے الیکٹرک کے وکیل عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ ماہانہ بلوں کی ادائیگی کے لئے متعلقہ فریقین سے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں تاہم ادائیگیاں نہیں کی جا رہی اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ اس مسئلہ کو سیکرٹری خزانہ کے سامنے رکھا جائے گا بل وفاق نے ادا کرنا ہے یا صوبائی حکومت نے ۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کے الیکٹرک کے ذمہ وفاق کے پیسے بقایا ہیں تو ان کو وصول کیوں نہیں کیا جاتا ایسے کئی ادارے ہیں جن کے ذمہ وفاق کے پیسے ہیں وفاقی حکومت اپنی رقم واپس لینے میں کیوں ناکام ہے ۔ پی ٹی سی ایل کے ذمہ وفاق کے 800 ملین ڈالر ہیں اب تک وصول کیوں نہیں کئے گئے ۔ واٹر بورڈ اینڈ سیوریج کے وکیل مسکراتے ہوئے عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی مسکراہٹ جائز ہے لیکن پیسے بھی نہیں دیتے آپ ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ بجلی استعمال کرتے ہیں پیسے کیوں نہیں دیتے ۔ اس پر کے الیکٹرک کے وکیل نے کہا کہ بل ادا کرتے ہیں جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ اگر بل ادار کرتے ہیں تو پچھلے ماہ جو بل ادا کیا اس کی رسید جمع کرائیں ۔صرف بقایا جات پر حکم امتناعی ہے ماہانہ بل پر نہیں ۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ سیکرٹری خزانہ سے معلوم کر کے بتائیں کہ بل کس نے ادا کرنا ہے سندھ حکومت نے یا وفاق نے ۔ دریں اثناء فاضل عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد کے الیکٹرک کے بقایا جات اور ادائیگی سے متعلق سیکرٹری خزانہ اور کراچی بورڈ سے اس کے کھاتہ جات کی مکمل تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت مئی کے پہلے ہفتہ تک ملتوی کر دی ۔