ملک میں کھڑپینچوں کی بھرمار ہے تاہم کوئی آئین اور قانون سے بالاتر نہیں،سپریم کورٹ، کھڑپینچی کیلئے عمر کی کوئی حد نہیں،ہر سطح پر ہوتے ہیں ، وکلاء اور ججوں میں بھی کھڑپینچ موجود ہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ،عدالت عظمیٰ نے قتل کے مجرمان کی عمر قید کی سزا پھانسی میں تبدیل کرنے کے کیس میں ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا،اپیل خارج

بدھ 27 اپریل 2016 09:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27اپریل۔2016ء ) سپریم کورٹ نے قتل کے مجرمان کی عمر قید کی سزا کو پھانسی میں تبدیل کرنے سے متعلق کیس میں ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرا رکھتے ہوئے دائر اپیل خارج کر دی جبکہ دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریماکس دیئے ہیں کہ ہرسطح پر کھڑپینچ ہوتے ہیں ججوں اور وکلاء میں بھی کھڑپینچ موجود ہیں ، ملک میں کھڑپینچوں کی بھرمار ہے لیکن کوئی کھڑپینچ آئین اور قانون سے بالاتر نہیں، قانون سب کے لیے برابر ہے ۔

(جاری ہے)

منگل کے روز کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق پرویز پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی ،مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو مجرمان عاقل شہزاد اور امیر محمد کے وکیل سردار عبدالرازق خان ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میر موکل عاقل شہزاد پر قتل کا الزام ہے جس وقت ان سے قتل کا واقعہ سرزد ہوا وہ نا بالغ تھے اور عمر سولہ سال تھی ، ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ نے عمر قید کی سزا سنا رکھی ہے ،مقدمہ میں مدعی کی جانب سے مجرم عاقل شہزاد کے چچا کو بھی نامزد کیا گیا انہیں بھی عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ، گواہوں اور شہادتوں سے ایسا ثابت نہیں ہوتا کہ دونوں نے ملکر قتل کیا ،ہمارے معاشرے میں یہ کلچر ہے کہ اگر کوئی چھوٹا بچہ جرم کر لے تو اس کے لواحقین کو بھی کیس میں ملوث کر لیا جا تا ، اس واقع پر سزائے موت بنتی ہی نہیں ،اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے معاشرے کا یہ بھی کلچر ہے کہ بچہ کسی سے لڑ جائے تو بڑے بدلا لینے پہنچ جاتے ہیں ،والدین کو اپنے بچوں کو سمجھانا چاہیے ، درخواست گزار مقتول شاہد خان کی والدہ کرم جان کے وکیل ذولفقار خالد ملکاء نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجرم عاقل شہزاد نے خود تسلیم کیا کہ اس نے اپنے چچا اور وکیل کے کہنے پر جرم قبول کیا ، اس نے بتایا کہ چچا اور وکیل نے کہا تم چھوٹے ہو بری ہو جاؤ گے ، جرم قبول کرلو ، مجرم امیر محمد علاقہ کا بڑا کھڑ پینچ ہے ، معذرت چاہتا ہوں کھڑ پینچ کا لفظ استعمال کیا ،اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کھڑ پینچ ہر جگہ ہوتے ہیں ملک میں کھڑ پینچوں کی بھر مار ہے لیکن کوئی کھڑ پینچ آئین اور قانون سے بالا تر نہیں ، قانون سب کے لیے برابر ہے اس پر جسٹس طارق پرویز نے ریمارکس دیئے کہ دیہاتوں میں کھڑپینچ بڑی عمر کے ہوتے ہیں ، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کھڑپینچی کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی ، کھڑ پینچ ہر سطح پر ہوتے ہیں بچوں میں بچے اور بڑوں میں بڑے یہاں تک کے وکلاء اور ججوں میں بھی کھڑپینچ موجود ہیں ، انہوں نے کہا زندگی اور موت کے فیصلوں میں عدالت مفروضوں کو بنیاد نہیں بنا سکتی ، سول اور فوجداری مقدمات میں فرق ہے ، مقدمے کے گواہوں پر شکوک ہیں انکی موجودگی کا جواز نظر نہیں آتا ،ایسا لگتا ہے گواہ بعد میں بنائے گئے ہیں ، دریں اثنا دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے درخواست گزار مقتول شاہد خان کی والدہ کی درخواست خارج کر دی اور ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ، واضح رہے کہ مجرم عاقل شہزاد نے تھانہ صدر اٹک کی حدود میں 2001میں شاہد خان کو چھری مار کر قتل کیا تھا جبکہ مدعی کی جانب سے اس کیس میں مجرم کے چچا امیر محمد کو بھی نامزد کیا گیا تھا ، 2009 میں ہائیکورٹ کی جانب سے مجرمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جس پر درخواست گزار کرم جان نے ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف 2010میں سپریم کورٹ مین اپیل دائر کی تھی ۔

متعلقہ عنوان :