پانامہ لیکس،سپریم کورٹ بار کی تجاویز ٹی او آرز میں شامل کی جائیں ورنہ تحریک چلائیں گے،وکلاء نے 15دن کی ڈیڈ لائن دیدی

سپریم کورٹ بار کے زیر اہتمام آل پاکستان وکلاء کنونشن،ٹی او آرز کمیٹی اور ممکنہ تحقیقاتی کمیشن میں وکلاء نمائندے کو بطور جج شامل کرنیکی تجاویز منظور اقوام متحدہ کنونشن کے تحت آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں ،آج کرپشن کے خلاف آواز بلند نہ کی تو ملک سے کرپشن کبھی ختم نہیں ہوگی،علی ظفر احتساب کاآغاز وزیراعظم سے ہونا چاہیے، وکلاء جمہوریت کے محافظ، جمہوری نظام ڈی ریل نہیں ہونے دینگے لیکن جمہوریت کرپشن کا لائسنس بھی نہیں،فروغ نسیم ہر ادارہ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے،طارق محمود جہانگیر ی ، پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ میں قانونی رٹ پٹیشن فائل کی جائے،رانا ضیاء عبدالرحمان و دیگر کا خطاب

اتوار 22 مئی 2016 11:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22 مئی۔2016ء ) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام آل پاکستان وکلاء کنونشن میں حکومت اور اپوزیشن کو پانامہ لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ بار کے قواعد و ضوابط کو تحقیقات کے لیے بنائے جانے والے ٹی او آرز میں شامل کرنے کے لیے پندرہ روز کی مہلت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پندرہ دن میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ٹی او آرز کو تحقیقاتی کمیشن کے لیے بنائے گئے ٹی اوآرز میں شامل کیا جائے ورنہ وکلاء تحریک چلائیں گے اور پھر دم دم مست قلندر ہو گا۔

ہفتہ کے روز منعقدہ کنونشن میں ملک بھر کی وکلاء ایسوسی ایشن کے صدور، جنرل سیکرٹریز اور نمائندوں نے شر کت کی ہے جبکہ کنونشن میں دیگر بار ایسوسی ایشن کے وکلاء سے بھی تجاویز لی گئی ہیں جن میں بعض وکلاء کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کی تجویز بھی دی گئی تاہم اسے منظور نہیں کہا گیا ، علاوہ ازیں کونشن میں پانامہ لیکس کے کمیشن کے قیام کے لیے ٹی او آرز طے کرنے والی کمیٹی میں وکلاء کے نمائندہ کو بھی شامل کرنے کی تجویز دی گئی جسے کثر ت رائے سے منظور کر لیا گیا ،اس کے علاوہ تحقیقات کے لیے بنائے جانے والے ممکنہ کمیشن میں بھی وکلاء کے نمائندے کو بطور جج شامل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ بعض وکلاء کی جانب سے یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کو اس معاملے سے دور رکھا جائے کیونکہ اگر معاملے میں عدلیہ پر انگلیاں اٹھی تو اس سے عدالتی نظام متاثر ہو گا ،چیف جسٹس کے بجائے سپریم کورٹ کے کسی دوسرے حاضر سروس جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا جائے، کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صدر سپریم کورٹ بار بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں ، پانامہ لیکس سے کرپشن کے خلاف ایک امید جاگی ہے امید کر رہے تھے کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر پانامہ لیکس کے مسئلہ کا حل نکالے گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا،انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت بنے کمیشنوں کی رپورٹ ہمیشہ غیر موثر رہی ہے ، حکومت اور اپوزیشن کوپانامہ لیکس معاملے کے حقائق سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے کیوں کے قوم کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ سچ جانے ، انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار نے پانامہ معاملہ کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز بنائے لیکن حکومت کی جانب سے ان ٹی او آرز کو مسترد کر دیا گیا ،لیکن حکومت کے ٹی او آرز کے تحت چیف جسٹس نے بھی کمیشن بنانے سے انکار کردیا ہے ،علی ظفر نے کہا کہ جب تک کرپشن کے خلاف قوانین کی موثر عمل داری نہیں ہوگی ملک سے کرپشن ختم نہیں ہو سکتی،ملک میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے کا یہ سنہری موقع ہے ،آج کرپشن کے خلاف آواز بلند نہ کی تو ملک سے کرپشن کبھی ختم نہیں ہوگی، صدر سپریم کورٹ بار کا کہنا تھا کہ کرپشن کے خاتمے کا سنہری موقع گنوا دیا تو ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک ہوگا، انکوائری کمیشن کی ناکامی کی وجہ اختیارات کی کمی ہے ، پانامہ لیکس کے معاملے پر سب سے پہلے احتساب کا عمل وزیر اعظم اور انکے خاندان سے شروع ہونا چاہیے جبکہ تحقیقاتی کمیشن کو مکمل با اختیار بنایا جائے اور اس کے لیے قانون سازی کی جائے۔

(جاری ہے)

علی ظفر نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن مخصوص مدت میں مرحلہ وار تحقیقات کرے جبکہ کمیشن کو اپنی رپورٹ پبلک کرنے کا بھی اختیار ہونا چاہئے۔جبکہ آل پاکستان بار ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین فروغ نسیم نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن معاملے کی تحقیقات کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں ،اگر سپریم کورٹ اور وکلاء تنظیمیوں نے اس معاملے پر چپ سادھ لی تو یہ معاملہ ختم ہو جائے گا،ملک میں احتساب سب کا ہونا چاہیے لیکن احتساب کا اغاز سب سے پہلے وزیراعظم سے ہونا چاہیے ، وکلاء ملک میں جمہوریت کے محافظ ہیں جمہوری نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے لیکن جمہوریت کرپشن کا لائسنس بھی نہیں ہے ، ملک میں جمہوریت ہو گی تو آئین کی بالادستی ہوگی ،پانامہ لیکس کی حقیقت کو سوائے رحمان ملک کے کسی بھی پارلیمنٹرین یا سٹیک ہولڈر نے جھٹلایا نہیں ،انہوں نے کہا کہ ٹی اوآر ز کے لیے بنائی گئی کمیٹی سے تحقیقات کے لیے سنجیدہ اقدامات کی امید نہیں ہے لیکن ہم کمیٹی کو اپنے ٹی او آر ز دیں گے ،وکلاء غیر جانبداری سے معاملے کو لے رہے ،پندرہ دن میں اگر حکومت اور اپوزیشن نے ہماری ٹی او آرز شامل نہیں کی تو ہم عوام کو اس معاملے میں شامل کریں گے اور پھر عدلیہ بحالی کی طرح کرپشن کیخلاف تحریک چلائیں گے ،اگر موثر کمیشن تشکیل نہیں دیا گیا تو سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس کا مطالبہ کریں گے ، اگر ازخود نوٹس بھی نہ لیا گیا تو ،آرٹیکل 184کے تحت پٹیشن دائر کرنے کا آپشن بھی موجود ہے ۔

فروغ نسیم نے کہا کہ ملک میں کرپشن سے نجات کا وقت آگیا ہے ،کسی قسم کی کرپشن برداشت نہیں کی جائے گی ،پانامہ لیکس کا معاملہ میگا کرپشن ہے اس میں قوم کو بتانا ہو گا کہ اربوں کھربوں روپے کی رقم کہاں سے آئی ،کیا یہ کرپشن کا پیشہ ہے ، کیا منی لانڈرنگ ہوئی ہے ، یا ٹیکس چوری ہے ، پانامہ لیکس کی حقیقت جاننا قوم کا بنیادی حق ہے ،کیوں کہ اس میں قومی دولت لوٹے جانے کا خدشہ ہے ،فروغ نسیم نے کہا کہ وکلاء پانامہ کے معاملے پر بزنس کمیونٹی کو فوکس نہیں کرتے کیوں کہ اس سے ایف آئی اور نیب کے بھتے لگ جائیں گے ،بیرونی ممالک کے سرمایہ کار وں کو ہمارے ملک کے عدالتی نظام پر اعتماد نہیں اس لیے وہ ہمارے ملک کے سرمایہ کاروں سے لین دین کے لیے انکو آف شور کمپنیوں کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ اگر کوئی گڑبڑ کرے تو اس کیخلاف بیرون ملک ہی کارروائی کی جا سکے ،انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس اور کرپشن کے معاملے پر وکلاء میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں ملک بھر کے وکلاء کرپشن کے خاتمے کے لیے متحد ہیں ۔

جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر طارق محمود جہانگیر ی نے کہا کہ ملک میں کرپشن کے باعث عوام کا عدلیہ سمیت اداروں سے اعتماد اٹھ رہا ہے ، کرپشن کا خاتمہ صرف وکلاء برادری ہی کر سکتی ،ملک میں ہر ادارہ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے ، عدلیہ میں بھی کرپشن ہے ، عدلیہ میں بھی بیویوں ، بھائیوں ، اور بھتیجوں کو جج لگایا جا رہا ہے ،عدالتی نظام اتنا کرپٹ ہو چکا ہے کہ کیس لگانے کے لیے بھی پیسے دینے پڑھتے ہیں ،ملک میں دوسروں کا احتساب کرنے سے پہلے عدلیہ کا احتساب ہونا چاہیے۔

لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر رانا ضیاء عبدالرحمان نے کہا کہ یہ ملک لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر لیا گیا ہے ، اس ملک کا خواب ایک وکیل نے دیکھا تھا اور اب کرپٹ حکمرانوں سے وکلاء ہی بچائیں گے ، پانامہ لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ میں قانونی رٹ پٹیشن فائل کی جائے ،ان ججوں میں سو موٹو لینے کی طاقت نہیں پہلے چیف جسٹس نے اس لیے سو موٹو لیے کیوں کہ اس کے پیچھے وکلاء برادری تھی ۔لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر ارشد جہانگیر شجاع ،لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر رانا ضیاء عبدالرحمان، قصور بار کے صدر چوہدری منیر،ملتان بار کے صدر عظیم الحق ،بلوچستان ہائی کورٹ کے سیکرٹری نصیب اللہ ترین ، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے نمائندہ جاوید سلیم سورش سمیت دیگر مقررین نے خطاب کیا ۔