این اے110 کیس:سپریم کورٹ کاگمشدہ ریکارڈتلاش کر کے ایک ہفتہ میں پیش کرنیکا حکم

الیکشن کے روز قیامت برپا ہوتی ہے،ریٹرننگ آفیسر کو کھانا ملتا ہے نہ ہی چائے، چیف جسٹس ریکارڈ کا گم ہونا پورے الیکشن کو مشکوک بنا سکتا ہے،یہ بہت آسان ہے کوئی بھی ریکارڈ غائب کر کے ری الیکشن کا مطالبہ کر سکتا ہے، انور ظہیر جمالی کے دوران کیس ریمارکس الیکشن کا دن اتنا پرسکون نہیں ہوتا جیسی یہ اے سی والی عدالت ہے، رپورٹ پر بھروسہ نہیں تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں،رپورٹ پر مکمل بھروسہ ہے ،پڑھنے کا حق آپ نے دیا ، چیف جسٹس اور بابر اعوان کے درمیان مکالمہ آئندہ انتخابات میں بھی یہی الیکشن کمیشن اور اور انتخابی نظام رہا تو تحر یک انصاف نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی،جہانگیر ترین کی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو

جمعرات 9 جون 2016 10:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9جون۔2016ء ) سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 110 کے 29 پولنگ اسٹیشنز کے گمشدہ ریکارڈ کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ہے۔قومی اسمبلی کے حلقے این اے 110 کے گمشدہ ریکارڈ سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ہوئی۔ سپریم کورٹ نے وزیر وفاع خواجہ آصف کے حلقہ این اے 110میں دوبارہ انتخابات کرانے سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن سے 29 پولنگ سٹیشنز کی گمشدگی اور نادرا سے شناختی کارڈ نمبروں پر وکیل کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات سے متعلق تفصیلی رپورٹ ایک ہفتہ میں طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ہفتہ تک ملتوی کر دی ۔

مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو عدالت نے سیکرٹری الیکشن کمیشن بابریعقوب سے استفسار کیا کہ بتاہا جائے29حلقوں کا ریکارڈ کہاں گیا جس پر سیکرٹری الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ احتمال ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں کا ریکارڈ دوسرے پولنگ سٹیشن کے تھیلوں کے ساتھ چلا گیا ، الیکشن کے وقت صرف پانچ پولنگ سٹیشن کے ریکارڈ کی گمشدگی کی اطلاع دی گئی ،اس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو بہت آسان کھیل ہو گیا ہے کہ کوئی بھی حلقے کا ریکارڈ گم کر کے ری الیکشن کا مطالبہ کرے گا،ریکارڈ کا گم ہونا پورے الیکشن کو مشکوک بنا سکتا ہے چیف جسٹس مزید ریمارکس دیئے کہ انتخابات کے دوران کوئی بھی چیز ترتیب سے انجام پاتا،انتخابات کے روز قیامت صغری برپا ہوتی ہے،ریٹرننگ آفیسر پریذائیڈنگ آفیسر کو کھانا ملتا ہے نہ چائے ملتی ہے ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر تحریک انصاف کے امیدوار عثمان ڈار کے وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ الیکشن کرپشن ملک میں ہونے والی کرپشن کی بنیاد ہے، 70سال میں الیکشن کمیشن کاایک افسر بھی گرفتار نہیں ہوا، الیکشن سے ایک روز قبل خواجہ آصف نے ریٹرننگ افسران کو اپنے گھر چائے پر مدعو کیا تھا، خواجہ آصف کی جانب سے ریٹرننگ افسران کو گھر پر چائے پر بلانے کا نوٹس لیا جائے۔

چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ ضرورت پڑی تو ریٹرننگ افسران کو چائے پر بلانے کی بھی رپورٹ طلب کریں گے۔ بابر اعوان نے موقف اختیار کیا کہ ملک میں کرپشن کا راستہ الیکشن کی کرپشن سے کھلتا ہے پانچ پولنگ اسٹیشن کا کاؤنٹر فائل سمیت ریکارڈ غائب ہے ، اس پر نادرا کے لیگل ڈائریکٹر نے موقف اختیار کیا کہ عدالتی حکم پر صرف انگوٹھوں کی تصدیق کی گئی ہے وقت دیا جائے رپورٹ میں موجود ابہام کی وضاحت کر دیں گے ۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور بابر اعوان کے درمیان مکالمہ ہوا، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کا دن اتنا پرسکون نہیں ہوتا جیسی یہ اے سی والی عدالت ہے، ایک ریٹرننگ افسر نے تو الیکشن ڈے کو قیامت صغریٰ کا نام دے دیا تھا، آپ کو رپورٹ پر بھروسہ نہیں تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں،اس پر بابر اعوان نے کہا کہ مجھے رپورٹ پڑنے کا حق آپ نے دیا ہے ،جس پرچیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رپورٹ پڑھنے کا حق آپ کو میں نے نہیں قانون نے دیا ہے، عدالت عظمیٰ نے عثمان ڈار کے وکیل ،الیکشن کمیشن کے سیکرٹری اور نادرا کے لیگل ڈائر یکٹر کو سننے کے بعد الیکشن کمیشن سے 29 پولنگ سٹیشنز کی گمشدگی اور نادرا سے شناختی کارڈ نمبروں پر وکیل کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات سے متعلق تفصیلی رپورٹ ایک ہفتہ یں طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ہفتہ تک ملتوی کر دی۔

جبکہ مقدمہ کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا کہ قوم کو یاد ہو گا کہ عمر ان خان نے ہسپتال میں بستر پر لیٹ کر چار حلقوں کے کھولنے کا مطالبہ کیا تھااور یہ حلقہ بھی انہیں چار حلقوں میں شامل ہے ،دھاندلی کی بنیاد ان چارحلقوں سے شروع ہوئی تھی ،تین حلقوں میں دھاندلی ثابت ہو گئی ہے اس میں ثابت ہو گی ،مقدمہ کی جب بھی پیشی ہوتی نئی نئی چیزیں سامنے آتی ہیں،کئی شناختی کارڈز میں صرف 6 اور 4 نمبرز لکھے ہوئے ہیں پاکستان کے الیکشن تحریک انصاف نے ہمیشہ چیلنج کیے ہیں، خواجہ آصف نے الیکشن سے پہلے پریزائڈنگ افسران کو چاہیے پر گھر بلایا ، یہ کوئی الیکشن تھا یا ہمارے ساتھ مذاق تھا ، اس الیکشن کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے، انہوں نے کہا کہ جب تک الیکشن صاف و شفاف نہیں ہوں گے ملک میں جمہوریت مضطوط نہیں ہو سکتی ، آئندہ انتخابات میں بھی یہی الیکشن کمیشن اور اور انتخابی نظام رہا تو تحر یک انصاف نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی، بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اس کیس سے زیادہ کہیں دھاندلی کی مثال نہیں ملے گی، جتنی بھی کرپشن ہے اس کا راستہ الیکشن کی کرپشن سے کھلتا ہے، یہ میگا دھاندلی کا کیس ہے،شناختی کارڈ کا نمبر ہی درست نہیں تو کیسے درست بول سکتے ہیں، الیکشن ہوگیا،وزارتیں مل گئیں لیکن اس کیس کی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں۔

یادرہے کہ2013کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 110سیالکوٹ 1سے مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف کامیا ب ہوئے تھے تاہم انکی کامیابی کو تحریک انصاف کے عثمان ڈار نے چیلنج کر رکھا ہے ۔