کلنٹن کے دورے کا مقصد نواز شریف کوپھانسی سے بچانا تھا،سابق وزیراعظم شوکت عزیزکا انکشاف

مشرف بے نظیر کو وزیراعظم بنا کرخود صدر بننا چاہتے تھے،چرڈ باوچر نے بتایا کہ پرویز مشرف اور بے نظیر دونوں نواز شریف کو وطن واپسی سے روکنا چاہتے تھے،نواز شریف کی واپسی کے معاملے میں میرا کوئی کردار نہیں تھا،سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں، سٹیل ملز کے فیصلے پر ان سے کوئی تلخی نہیں ہوئی،لال مسجد کے واقعہ پر کچھ نہیں کہنا چاہتا، اس بارے میں کمیشن کی رپورٹ ہے وہ پڑھ لی جائے، ڈرون حملوں کے بارے میں پتہ ہوتا تھا لیکن کہاں حملہ ہونا ہے کیوں ہوناہے اس کے بارے میں علم نہیں ہوتا تھا، ایمرجنسی کے معاملے پر مجھ سے مشورہ نہیں کیا گیا، نجی ٹی وی کو انٹرویو

جمعرات 9 جون 2016 10:11

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9جون۔2016ء)سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے انکشاف کیا ہے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے 2000 میں دورہ پاکستان کا مقصد نواز شریف کوپھانسی سے بچانا تھا، رچرڈ باوچر نے بتایا کہ پرویز مشرف اور بے نظیر دونوں نواز شریف کو وطن واپسی سے روکنا چاہتے تھے،نواز شریف کی واپسی کے معاملے میں میرا کوئی کردار نہیں تھا،امریکہ چاہتا تھا کہ مشرف صدر رہیں اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں،اس بات پر مشرف بھی راضی تھے، سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں، سٹیل ملز کے فیصلے پر ان سے کوئی تلخی نہیں ہوئی،لال مسجد کے واقعہ پر کچھ نہیں کہنا چاہتا، اس بارے میں کمیشن کی رپورٹ ہے وہ پڑھ لی جائے، ڈرون حملوں کے بارے میں پتہ ہوتا تھا لیکن کہاں حملہ ہونا ہے کیوں ہوناہے اس کے بارے میں علم نہیں ہوتا تھا، ایمرجنسی کے معاملے پر مجھ سے مشورہ نہیں کیا گیا۔

(جاری ہے)

ایک نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویومیں شوکت عزیز نے کہاکہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے مارچ 2000میں پاکستان کا دورہ اس لئے کیا تھا تا کہ وہ نواز شریف کو پھانسی سے بچا سکیں۔سعودی عرب اور امریکہ مل کر یہ کوشش کر رہے تھے۔ دونوں مل کر نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجناچاہتے تھے۔انھوں نے کہاکہ امریکہ اور سعودی عرب نے کہا کہ نواز شریف کو پھانسی نہ دی جائے ان کو باہر جانے دیا جائے۔

ہماری طرف سے جواب میں کہا گیا کہ تمام چیزیں قانون کے مطابق ہوگا۔ ہم کسی کی جان نہیں لینا چاہتے۔سابق لبنانی وزیراعظم رفیق حریری اور ان کے بیٹے سعد حریری کو پاکستان میں کاروبار کیلئے مدعو کیا۔ مشرف نے ان کو آنے کی اجازت دی۔بعد میں انہوں نے بھی نواز شریف کا جان بخشی کی اپیل کی۔اس بارے میں جب میری بھی رائے مانگی گئی تو میں نے بھی ان کی جان بخشی کی بات کی۔

انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کو سعودی عرب خصوصی طور پر بلایا گیا۔انہوں نے کہا کہ مجھے رچرڈ باوچر نے بتایا تھا کہ مشرف اور بے نظیر بھٹو چاہتے تھے کہ نواز شریف کو واپس نہ آنے دیا جائے۔شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی کے معاملے میں میرا کوئی کردار نہیں تھا۔امریکہ چاہتا تھا کہ مشرف صدر رہیں اور بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں۔اس بات پر مشرف بھی راضی تھے۔

شوکت عزیز نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی واپسی پر کے بعد ان کے جلوس پر کراچی میں حملے کی خبر پر مشرف اور میرے سمیت تما م لوگ سکتے میں آگئے تھے۔ہم لوگ اس وقت کھانے پر اکٹھے تھے۔انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی کے معاملے پر مجھ سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ مجھ سے ایڈوائس نہیں لی تھی نہ اس کی ضرورت تھی۔ایمرجنسی کے بعد 4نومبر کوجو پریس کانفرنس کی مجھے اب اس کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جلا وطنی کے بعد میری نواز شریف سے سعودی عرب میں اچانک ملاقات ہوئی جس کا میں نے مشرف کو بتا دیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سے اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ سٹیل ملز کے فیصلے پر ان سے کوئی تلخی نہیں ہوئی۔ ہم نے اس کے خلاف اپیل کی جو آج تک زیر سماعت ہے ۔ اس کا کوئی فیصلہ نہیں آسکا۔میں نے افتخار چودھری کی مشرف سے کوئی شکایت نہیں کی۔

شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ مجھے ان کی برطرفی کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ لال مسجد کے واقعہ پر کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس بارے میں کمیشن کی رپورٹ ہے وہ پڑھ لی جائے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کے بارے میں پتہ ہوتا تھا لیکن کہاں حملہ ہونا ہے کیوں ہوناہے اس کے بارے میں علم نہیں ہوتا تھا۔انہوں نے کہا کہ بھارت اور امریکہ کی نیو کلیئر ڈیل میں پاکستان بھی شامل ہو جاتا تو اس کے فوائد حاصل ہوتے۔امریکی صدر بش نے کہا کہ ابھی اس معاملے میں پاکستان کو رہنے دیں بعد میں دیکھ لیں گے۔شوکت عزیز نے کہا کہ مشرف نے مجھ سے الیکشن لڑنے کا نہیں کہا ۔میں خود الیکشن نہیں لڑنا چاہتا تھا۔میں نے ملک کو اپنے قیمتی آٹھ سال دیئے جس پر فخر ہے۔