سندھ کا 8کھرب 69 ارب روپے کا بجٹ پیش

تنخواہ،پنشن میں اضافہ، تعلیم،صحت کیلئے رقم بڑھانے، 50 ہزار نئی ملازمتوں،کراچی کیلئے 10ارب کے خصوصی پیکج کااعلان آمدنی کاتخمینہ8کھرب 54ارب 50کروڑروپے جبک اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے آئندہ مالی سال میں بجٹ خسارہ 14ارب 61کروڑ 74لاکھ روپے ہوگا،سندھ حکومت نے مسلسل چھٹی مرتبہ خسارے کابجٹ پیش کیا ترقیاتی بجٹ میں 39فیصد اضافہ، 265 ارب روپے مختص، ترقیاتی بجٹ میں اضافے کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے،اسحاق ڈارکی طرح یہ نہیں کہوں گا کہ سب کچھ لٹادیا ،رقم توبادشاہت میں لٹائی جاتی ہے،مراد علی شاہ

اتوار 12 جون 2016 11:40

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12جون۔2016ء) حکومت سندھ نے مالی سال 2016-17ء کے لیے سندھ کا869ارب 11کروڑروپے سے زائد کاٹیکس فری بجٹ ہفتہ کوپیش کردیا ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبے کی مجموعی آمدنی کاتخمینہ8کھرب 54ارب 50کروڑروپے لگایاگیا ہے جبکہ آمدنی کے مقابلے میں اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے آئندہ مالی سال میں بجٹ خسارہ 14ارب 61کروڑ74لاکھ روپے ہوگا۔

سندھ حکومت نے مسلسل چھٹی مرتبہ خسارے کابجٹ پیش کیا ہے۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں50ہزار سرکاری ملازمتیں دینے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہو ں میں 10فیصداضافہ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا جبکہ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں50ارب روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ہفتہ کو اسپیکرسندھ اسمبلی آغاسراج درانی کی زیرصدارت بجٹ اجلاس کے دوران صوبائی وزیرخزانہ مراد علی شاہ نے سندھ کابجٹ پیش کیا،اس سے قبل سندھ کابینہ کے اجلاس میں نئے مالی سال 2016-17ء کے بجٹ کی منظوری دی گئی ۔

(جاری ہے)

بجٹ دستاویزکے مطابق مالی سال برائے 2016-17کے لیے صوبہ سندھ کا8کھرب 69ارب11کروڑ77لاکھ روپے مالیت کابجٹ ہے،آئندہ مالی سال میں وفاق سے صوبے کوقومی مالیاتی کمیشن کے تحت 493ارب 17کروڑ34لاکھ سے زائد روپے ملنے کاتخمینہ لگایاگیا ہے جبکہ رواں مالی سال 421ارب 30کروڑ روپے ملنا تھے لیکن رواں مالی سال نظر ثانی شدہ تخمینہ کے تحت 422ارب57کروڑ روپے موصو ل ہوئے اسی طرح تیل و گیس پررائلٹی اورسرچارج کی مد میں 54ارب66کروڑ78لاکھ روپے تخمینہ لگایاگیا ہے جورواں مالی سال کے60ارب 38کروڑ17لاکھ روپے نظر ثانی شدہ سے6ارب روپے کم ہے جبکہ آکڑائے وضلع ٹیکس کی متبادل ضلع کی مد میں 13ارب 25کروڑ84لاکھ روپے کی رقم وفاق سے ملنے کاتخمینہ لگایا گیا ۔

بجٹ دستاویزکے مطابق آئندہ مالی سال صوبائی محصولات (علاوہ خدمات پرجی ایس ٹی ) کی مد میں76ارب1کروڑ30لاکھ روپے ،خدمات پرجی ایس ٹی کی مد میں78ارب روپے اورغیرمحصولاتی آمدنی کی مد میں12ارب1کروڑ99لاکھ روپے محاصل وصول ہونے کاتخمینہ لگایا گیامذکورہ محصولات رواں مالی سال کے نظر ثانی شدہ تخمینہ133ارب62کروڑ98لاکھ روپے کے مقابلے 32ارب 40کروڑ 41لاکھ روپے زائد ہے جبکہ سرمایہ جاتی شعبے کی آمدنی کے تحت مقامی ادائیگیوں/قرضہ جات سے حاصل ہونے والی آمدنی کی مد میں 1ارب 72کروڑروپے ،عالمی بینک کے تعلیمی منصوبے کے تحت 3کروڑ90لاکھ روپے ملنے کاتخمینہ لگایاگیا۔

آئندہ مالی سال2016-17ء کے بجٹ میں غیرترقیاتی اخراجات کے تحت رواں مالیاتی اخراجات کاتخمینہ 572ارب 76کروڑ1لاکھ روپے اوررواں سرمایہ جاری اخراجات کاتخمینہ30ارب36کروڑ96لاکھ روپے لگایاگیا ۔بجٹ دستاویز کے مطابق ترقیاتی اخراجات کے تحت صوبائی اے ڈی پی بشمول ضلع اے ڈی پی کی مد میں 225ارب روپے ،غیرملکی امدد سے چلنے والے منصوبوں کے اخراجات کی مد میں28ارب 80کروڑ روپے اوردیگر وفاقی گرانٹس کی مد میں 12ارب 18کروڑ80لاکھ روپے اخراجات کاتخمینہ لگایاگیا۔

وزیر خزانہ مراد علی شاہ نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں اضافے کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے،اسحاق ڈارکی طرح یہ نہیں کہوں گا کہ سب کچھ لٹادیا ،رقم توبادشاہت میں لٹائی جاتی ہے۔نئے بجٹ میں ترقیاتی بجٹ پچھلے سال کی نسبت 39فیصد زیادہ ہے اور دیگر ذرائع سے امداد کے بعد کل ترقیاتی بجٹ 265 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں سڑکوں کیلئے بجٹ میں 45 فی صد اضافہ کر کے 3 ارب 19 کروڑ روپے کر دیا گیا، صوبائی حکومت نے سرکاری ملازمین اور پنشنز میں 10 فیصد اضافے کا اعلان کیساتھ مختلف گریڈز کیلئے مراعات کی تجویز دی ہے۔

کراچی کے انفراسٹرکچرپر10 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی سے صفورا چوک تک یونیورسٹی روڈ کی تعمیرکیلیے78 کروڑ روپے، حسن اسکوائرسے نیپا چورنگی تک یونیورسٹی روڈ کی تعمیرپر 77 کروڑ ، شاہین کمپلیکس کے قریب80 کروڑروپے کی لاگت سے بینظیرفلائی اوورتعمیرکرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ کراچی ڈویژن کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے 50 ارب 30 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے اور کراچی ڈویژن کے ترقیاتی پروگرام میں ضلعی ترقیاتی پروگرام بھی شامل کیا گیا ہے۔

شہید ملت روڈ سے شاہراہ قائدین تک طارق روڈ کی دوبارہ تعمیر کیلیے 55 کروڑ ،حب ریورروڈ کے بقیہ حصے کی تعمیر کیلیے 50 کروڑ ، ناتھاخان پل کے پاس یو ٹرن کی تعمیر کیلیے 141 ملین اور شاہراہ فیصل پر اسٹارگیٹ کے مقام پر 50 کروڑ روپے سے انڈر پاس تعمیر کیا جائیگا۔بجٹ میں سب سے زیادہ 28 فیصد خرچ محکمہ تعلیم کیلئے مختص کیا گیا ہے اور تعلیم کیلئے 160 ارب 70 کروڑ روپے مختص کیے جارہے ہیں۔

سپیشل ایجوکیشن کے لیے 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ 7 نئے ڈگری کالجز قائم کیے جائیں گے۔ سندھ کے تمام اضلاع میں25،25 کمپری ہینسواورانگلش میڈیم اسکولز قائم کیے جائیں گے۔ یو ایس ایڈ کے اشتراک سے 106 سٹیٹ آف آرٹ سکولز تعمیر کیے جارہے ہیں۔ جائیکاکے تعاون سے 12 اضلاع کے 58 پرائمری اسکولز کو اپ گریڈ کرکے ایلیمنٹری سکول بنایا جائے گا۔ سکولز کنسولیڈیشن گرانٹ کے لیے ایک ارب 80 کروڑ روپے ، طالبات کے وظائف کے لیے ایک ارب 50 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

260 انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن اکیڈمیز قائم کی جائیں گی۔سڑکوں کیلئے بجٹ میں 45 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے جبکہ2300 کلومیٹرسڑکوں کی مرمت اور26 سوکلومیٹرنئی سڑکیں تعمیر کی جائیں گی اور سڑکوں کی مرمت کے لیے 4ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سرکاری محکموں پرڈیسکو،کے ای، حیسکو، سیپکو کے بقایاجات کیلئے رقم مختص کی گئی ہے۔ محکمہ توانائی کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلیے 6 ارب 35 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ سندھ ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیج کمپنی قائم کردی گئی ہے۔

کے ڈی اے اسکیم 33 گرڈ اسٹیشن تعمیرکررہے ہیں اور کے الیکٹرک نے 100 میگا واٹ بجلی حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔سرکاری محکموں کے بجلی بلوں کی ادائیگی کیلئے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ سندھ میں توانائی منصوبوں کیلئے صرف 6 ارب 35 کروڑروپے مختص کیے گئے ہیں۔ محکمہ داخلہ کے لیے 82 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ شہید پولیس اہلکاروں کیلئے فی کس 50 لاکھ روپے رکھنے کی تجویز ہے۔

اگلے مالی سال میں 50 ہزار نوکریاں دی جائیں گی جن میں سے 20 ہزار محکمہ پولیس جبکہ 10 ہزارمحکمہ تعلیم میں بھرتیاں ہوں گی۔رواں سال صحت کے شعبے میں 35سونوکریاں دی جائیں گی۔ صحت کا بجٹ 14 فیصد اضافے سے 62 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جس میں شعبہ صحت کا ترقیاتی بجٹ 14 ارب روپے رکھا گیا ہے۔40 کروڑ 10لاکھ روپے اسپتالوں کی مرمت کیلیے رکھے گئے ہیں۔مالیاتی سال کی پہلی سہ ماہی میں پراپرٹی ٹیکس میں 5فیصد چھوٹ ، ماحولیاتی تحفظ کا بجٹ 3ارب سے گھٹا کر 45 کروڑ کرنے اور این آئی سی وی ڈی کے لیے ایک ارب 80 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

سماجی بہبود خصوصی تعلیم ،اسپورٹس ،اقلیتی امور میں ساڑھے 65فیصد اضافہ،آبپاشی کے نظام کیلئے 19 ارب روپے اور اقلیتوں کی امداد کیلئے بجٹ میں 200فیصد اضافہ کر کے رقم 3 کروڑ روپے کردی گئی ہے۔ سرکاری محکموں کے بجلی بلوں کی ادائیگی کیلئے 25 ارب روپے،آبپاشی کیلئے19 ارب جبکہ زرعی شعبے کا ترقیاتی بجٹ صرف 5 ارب 80 کروڑ رکھنے کی تجویز ہے۔

متعلقہ عنوان :