سندھ اسمبلی ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان میں ہاتھا پائی اور دھکم پیل

جمعہ 17 جون 2016 10:18

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17جون۔2016ء ) سندھ اسمبلی میں جمعرات کو متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے رکن عظیم فاروقی اور پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر مکیش کمار چاولہ کے درمیان ہاتھاپائی ہو گئی ۔ ایوان کا ماحول کشیدہ ہونے پر اسمبلی کا اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کر دیا گیا ۔ یہ ہاتھا پائی اس وقت ہوئی ، جب بجٹ پر بحث کے دوران پیپلز پارٹی کی خاتون رکن شمیم ممتاز خطاب کر رہی تھیں ۔

شمیم ممتاز نے ایم کیو ایم کے اقلیتی رکن دیوان چند چاولہ کی تقریر کا جواب دیا ۔ دیوان چند چاولہ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ کشتیوں میں پیسے رکھ کر باہر لے جائے جاتے ہیں ۔ شمیم ممتاز نے اپنے جوابی خطاب میں کہا کہ منی لانڈرنگ والے کس منہ سے ہم پر الزام لگاتے ہیں ۔ ہمارے کسی رہنما اور کسی وزیر پر منی لانڈرنگ کا الزام نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

کشتیوں سے پیسہ لے جانے کا الزام تو لگایا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ پیسے کس کے بستر سے نکلے ۔

ایم کیو ایم کی نشستوں سے آواز آئی ” دبئی سے ، دبئی سے “ ۔ شمیم ممتاز نے کہا کہ اگر دبئی کی بات ہو گی تو پھر میں لندن کا نام بھی لوں گی ۔ ایم کیو ایم کے رکن عظیم فاورقی نے کہا کہ اگر کسی نے لندن کی بات کی تو پھر ہم بے نظیر بھٹو کو بھی شامل کریں گے ۔ اس پر ایوان کا ماحول کشیدہ ہو گیا ۔ صوبائی وزراء مکیش کمار چاولہ اور جام خان شورو اپنی نشستوں سے اٹھ کر اپوزیشن کی طرف آنے لگے ۔

اسی اثناء میں عظیم فاروقی بھی اپنی نشست سے اٹھ کر ان کی طرف بڑھے ۔ مکیش کمار چاولہ اور عظیم فاروقی کا آمنا سامنا ہوا ۔ انہوں نے غصے سے ایک دوسرے سے باتیں کیں ۔ اس کے بعد ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کی اور دھکے دیئے ۔ سرکاری اور اپوزیشن ارکان نے فوراً پہنچ کر بیچ بچاوٴ کرایا ۔ اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن ، ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد اور ایم کیو ایم کے دیگر ارکان کے ساتھ ساتھ سینئر وزیر سید مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے ارکان نے دونوں کے مابین بیچ بچاوٴ کرایا اور صلح کراکے ان کو دوبارہ گلے ملایا ۔

لیکن اس سے پہلے ایوان کا ماحول کشیدہ دیکھ کر اجلاس کی صدارت کرنے والے چیئرمین سید مراد علی شاہ نے اجلاس جمعہ کی صبح تک ملتوی کر دیا ۔ جمعرات کو بجٹ پر تیسرے دن بھی بحث جاری رہی ۔ اس میں متعدد ارکان نے حصہ لیا ۔ ایم کیو ایم کے اقلیتی رکن دیوان چند چاولہ نے بجٹ کی کتاب سر پر رکھ کر انتہائی جذباتی تقریر کی اور کہا کہ سندھ کو ایٹم بم کے بغیر تباہ کر دیا گیا ہے ۔

سندھ کے عوام کا پیسہ صرف سندھ اسمبلی میں نظر آتا ہے۔ بڑی بڑی مرسڈیز ایوان کے باہر کھڑی نظر آتی ہیں۔ غریب سندھی سائیکل خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔انہوں نے کہاکہ مندروں کو اضافی پیسے دینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن یہاں تو شمشان گھاٹ کے پیسے بھی کھا لئے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے پاگل کہتے ہیں مگر یاد رکھیں سندھ کا لانچوں میں لے جایا گیا پیسہ واپس آئے گا ۔

وہ دن دور نہیں جب عوام نہ کھپے نہ کھپے ایسے حکمران نہ کھپے کا نعرہ لگائیں گے ۔ دیوان چند چاولہ کا مائیک بند کر دیاگیا اور ان سے کہا گیا کہ ان کا وقت پورا ہو گیا ہے لیکن اپوزیشن ارکان نے شور شرابہ کیا اور کہاکہ دیوان چند چاولہ کو بات کرنے دی جائے ۔ ایم کیو ایم کے محمد راشد خلجی نے کہا کہ حیدر آباد میں یونیورسٹی قائم کرکے وہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا جائے ۔

حیدر آباد کا ماسٹر پلان بنایا جائے ، جس طرح وہاں بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی جا رہی ہے ، اس سے سنگین ماحولیاتی اور بلدیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ سندھ حکومت حیدر آباد کو نظر انداز کر رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن سیمی سومرو نے کہا کہ پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے ، جس نے عوام کی خدمت کی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ سندھ کے عوام نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا ۔

ایم کیو ایم کی خاتون رکن رعنا انصار نے کہا کہ سندھ حکومت نے سندھ کے شہری علاقوں کو نظر انداز کرنے کی ہیٹ ٹرک مکمل کر لی ۔ شہری علاقوں کی ترقی کے لیے بڑی بڑی رقم رکھنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن ترقی کہیں نظر نہیں آتی ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں یا تو کوٹا سسٹم ختم کیا جائے یا گذشتہ 10 سال کا ریکارڈ چیک کیا جائے کہ شہری اور دیہی کوٹا پر کتنا عمل کیا گیا اور شہری علاقوں کے نوجوانوں کو کتنی نوکریاں دی گئیں ۔

پیپلز پارٹی کے سید مراد علی شاہ نے کہاکہ سندھ کے بجٹ میں صوبے کی ترقیاتی ضرورتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے لیکن ارکان سندھ اسمبلی کی اسکیمیں بھی شامل ہونی چاہئیں ۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری تعلمی اداروں میں تعلیم کا معیار نہیں ہے ۔ معیار تعلیم بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسپتالوں کی حالت بھی بہتر نہیں ہے اور سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ مارکیٹ میں جعلی دوائیاں فروخت کی جا رہی ہیں ۔

حکومت اس معاملے کا سنجیدگی سے نوٹس لے ۔ انہوں نے کہاکہ کرپشن دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور ہر ادارے میں کرپشن ہورہی ہے ۔ کرپشن جیسے ناسور کو روکنے کیلے موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔تمام محکموں میں بڑی تعداد میں گھوسٹ ملازمیں موجود ہیں جو گھر بیٹھ کر تنخواہ لیتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے حسیب احمد نے کہا کہ میرے حلقہ پی ایس ۔ 92 میں ایشیا کی سب سے بڑی انڈسٹریل اسٹیٹ ہے لیکن وہاں سڑکوں کی حالت بہت خراب ہے ۔

سندھ کا بجٹ ایسا ہونا چاہئے ، جس سے شہر بھی آباد ہوں اور دیہات بھی خوش حال ہوں ۔ پاکستان مسلم لیگ ( فنکشنل) کی خاتون رکن نصرت بانو سحر عباسی نے بھی سندھ حکومت پر سخت تنقید کی اورکہا کہ سندھ کا بجٹ عوام دشمن ہے ۔ عوام کو کیا ملا ؟ 500 ارب سالانہ کی کرپشن کی گئی ۔ صوبے کے مختلف علاقوں کو مقتل بنا دیا گیا ۔ ممتاز علی شاہ ، آصف حیدر شاہ اور دیگر ایماندار افسروں کو ہٹا دیا گیا ۔

ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں کیا جا سکا ۔ زراعت کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا ۔ اسپتالوں کی حالت خراب ہے ۔ محکمہ تعلیم میں 40 ہزار اور محکمہ صحت میں 13 ہزار جعلی نوکریاں دی گئیں ۔ تھر میں اربوں روپے خرچ کیے گئے لیکن وہاں بجلی کی پیدوار میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے پہلے سے موجود شہروں کو سنبھالا جائے ۔ اس کے بعد نیا شہر ذوالفقار آباد بنایا جائے ۔

یہ سندھ کا انتہائی متنازع منصوبہ ہے ۔ نصرت سحر عباسی نے کہا کہ تھر میں بھرتی ہونے والے ڈاکٹروں کو مراعات نہیں دی گئیں ۔ آصف زرداری نے تھر کے دورے کے دوران مٹھی میں بے نظیر دستر خوان قائم کرنیکا اعلان کیا تھا مگر وہ دستر خوان نہیں لگے۔ انہوں نے کہا کہ پانی،تیل اور دیگر وسائل پر قبضے موجودہ سندھ حکومت نے کیے ۔ شوگر ملز پر قبضے کس نے کئے عوام خوب جانتی ہے۔

دہرا بلدیاتی نظام اسی حکومت نے متعارف کرایا ۔ اسپیکر نے نصرت سحر عباسی سے کہا کہ تقریر نہ کریں بلکہ بجٹ پر بحث کریں ۔ نصرت سحر عباسی نے کہا کہ نااہلی کا ثبوت یہ ہے کہ زراعت کے لیے مختص رقم خرچ ہی نہیں کی جا سکی ۔ تمام زرعی اسکیمیں کرپشن کی نذر ہو گئیں ۔ اس شعبے میں تین سو بیس ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے خدا کی پناہ۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے پروگرام کے لئے بھی رقم خرچ نہ کی جاسکی۔

لاڑکانہ اسپتال میں تھیلیسیمیا مشین تین سال سے خراب پڑی ہے۔ صحت کا شعبہ زوال پذیر ہے ۔ وزیر صحت کو مستعفی ہوکر گھر بیٹھ جانا چاہئے۔ محکمہ تعلیم کے وزیر اور سیکریٹری میں بنتی نہیں ہے تو تعلیم کا کیا حال ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر سکندر شورو نے کہا کہ نصرت سحر عباسی نے جو لکھی ہوئی تقریر کی ہے ، وہ تقریر اس وقت لکھی گئی تھی ، جب بجٹ بھی پیش نہیں ہوا تھا ۔

بجٹ پر تقریر ایسی کی جارہی تھی ،جیسے فلم کی شوٹنگ ہورہی ہے۔ اپوزیشن والوں نے سندھ کا بجٹ پڑھا ہی نہیں اور وہ اس پر تنقید کر رہے ہیں ۔ وہ سندھ دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ سب سے زیادہ ریونیو ملک کو دیتا ہے ۔ یہاں سب سے زیادہ تیل اور گیس کی پیدوار ہے لیکن سندھ کو اس کا جائز حق نہیں دیا جاتا ۔ سندھ کے کئی ترقیاتی منصوبے التواء کا شکار ہیں لیکن وفاقی ترقیاتی پروگرام میں ان کے لیے رقم مختص نہیں کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی تقسیم کی باتیں کرنے والوں کوبھی علم ہونا چاہئے کہ سندھ کے عوام یہ تقسیم نہیں ہونے دیں گے ۔