کراچی بدامنی کیس کی سماعت ،سپریم کورٹ کا حساس اداروں آئی ایس آی ،آئی بی ، رینجرز اور دیگر کو نوٹس جاری ، اویس شاہ سے متعلق رپورٹ 21 جولائی کو طلب

حکومت سے پیرول پررہاہونے والے ملزمان کی تفصیل بھی طلب اویس شاہ کی عدم بازیابی پر عدالت کا آئی جی سندھ پر برہمی کا اظہار

ہفتہ 16 جولائی 2016 11:40

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔16جولائی۔2016ء)سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے حساس اداروں آئی ایس آی ،آئی بی ، رینجرز اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اویس شاہ سے متعلق رپورٹ 21 جولائی کو طلب کرلی جبکہ حکومت سے پیرول پررہاہونے والے ملزمان کی بھی تفصیل طلب کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں بینچ نے اویس شاہ کے اغوا کے معاملے کی سماعت کی۔

سماعت شروع ہوئی تو جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ اب تک کیا پیش رفت ہوئی ہے۔ 15 کی معلومات پر کیا کام ہوا ، آئی جی سندھ نے کہا کہ ہم جو کچھ کرسکتے ہیں کر رہے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کچھ نہیں کر رہے ،آپ صرف کتابی باتیں کررہے ہیں آپ کتابی آئی جی نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

عدالت نے آئی جی سندھ پر برہمی کا اظہار کیا اور جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ 25 دن گزر گئے آپ کر کیا رہے ہیں۔

آپ نے اس دن ایس ایچ او کے ساتھ کیا کیا جب وہ تھانے میں موجود نہیں تھا۔ ایک عینی شاہد نے قریبی تھانے آکر بتایا کہ اویس شاہ سپر مارکیٹ سے اغوا ہوگیا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ نے ڈی آئی جیز کے خلاف کیا کارروائی کی یہ لوگ اب تک کیوں وردیوں میں موجود ہیں۔ عدالت نے آئی جی سے سوال کیا کہ 15 سروس کس طرح کام کر رہی ہے جس پر آئی جی نے خاموشی اختیار کی۔

عدالت نے پھر سوال کیا کہا کتنے لوگوں کے بیانات قلمبند ہوئے اس پر بھی آئی جی آئی جی خاموش رہے۔ عدالت نے سوال کیا کہ 15 کا کال ریکارڈ کیوں نہیں نکالا گیا جس پر آئی جی نے کہاکہ جناب میں اپنا کام کر رہا ہوں جس طرح کرنا چاہیئے ، 15 کا کال ریکارڈ گزشتہ کئی ماہ سے خراب ہے ، سندھ حکومت نے بجٹ نہیں دیا۔ اویس شاہ کے نمبر پر آخری کال آغا ذوالفقار نامی شخص کی آئی تھی لیکن کال ریکارڈ نہیں ہو سکی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ 15 کس کے ماتحت کام کرتا ہے۔ آئی جی نے جواب دیا کہ ایس پی اسد ملک 15 کا انچارج ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ وہ اب تک یونیفارم میں کیوں ہے۔ آئی جی نے جواب دیا کہ انہوں نے سندھ گورنمنٹ کو خط لکھ رکھا ہے۔جسٹس عارف خلجی نے کہا جسٹس ر ناصر اسلم زاہد ایک کال سینٹر عوام کی فلاح کے لئے رضاکارانہ طور پر چلا رہے ہیں۔

ان کے پاس ایک سال کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے اور آپ لوگ سرکاری ادارہ چلانے کے باوجود اس حال میں ہیں۔ سرکار کی کوئی چیز ٹھیک نہیں۔جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے پولیس اور عوام میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں،لوگ تھانے جاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں، پولیس اپنی کارکردگی بہتر بنائیں۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ کیا ایس پی 15 کا کوئی لیٹر سندھ گورنمنٹ کو ملا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ میں نے کچھ ماہ پہلے چارج لیا ہے مجھے علم نہیں ہے۔ عدالت نے آئی جی سے سوال کیا کہ آئی جی صاحب اغوا برائے تاوان کے واقعے کی اطلاع ہر تھانے میں کتنی دیر میں پہنچتی ہے۔ آئی جی نے جواب دیا کہ وائرلیس پر اطلاع دی جاتی ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ کی وائرلیس کا حال بھی 15جیسا ہی ہوگا۔آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ غفلت برتنے پر ایس پی، اے ایس پی ، ایس ایچ او کلفٹن کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔

جن افسران کو واقعہ کا علم ہوا انہوں نے مجھے بروقت نہیں بتایا،15مددگارکے سربراہ ایس پی اسد کے خلاف بھی کارروائی شروع کردی ہے۔ایڈیشنل آئی جی مشتاق مہر نے عدالت کو بتایا کہ متعلقہ افسران کو شو کاز نوٹس جاری کرکے کارروائی شروع کردی ہے۔اویس شاہ اغوا سے متعلق چیف سیکریٹری کی طرف سے رپورٹ میں بتایا گیاکہ ایس ایس پی محمد فاروق کیخلاف کارروائی کے لئے اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کردی۔

کمیٹی کے پاس 19 جولائی تک سفارشات دینے کا وقت ہے۔سماعت کے دوران چیف سیکریٹری نے پیرول پر ملزمان کو رہا کرنے سے متعلق رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ سزا یافتہ مجرموں کی رہائی کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی ہے تاہم عدالت نے پیرول کمیٹی کے سربراہ نیاز عباسی کی رپورٹ پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ بتائیں کس قانون کے تحت ملزمان کو پیرول پرچھوڑا جاتا ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ سزا یافتہ مجرم کو چھوڑدیا جائے، جسٹس گلزار احمد نے پولیس افسران سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کسی افسر کو قانون کا علم نہیں، کیا آپ کو الف، ب کا قاعدہ پڑھائیں، اس طرح سندھ حکومت چل رہی ہے، جسے چاہیں رہا کردیا جاتا ہے۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ 4 سزا یافتہ قیدیوں کو چھوڑا گیا تھا ان میں سے 3 کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ رینجرز نے عدالت میں رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 2013 سے اب تک رینجرز نے ساڑھے 4 ہزار سے زائد ملزموں کو گرفتار کیا ہے۔ عدالت نے حساس اداروں، آئی ایس آئی ، آئی بی ، رینجرز اور دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اویس شاہ سے متعلق رپورٹ طلب کرلی اور ہدایت کی کہ پولیس اپنی کارکردگی بہتربنائے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کئی نقائص موجود ہیں پولیس انہیں دور کرے۔ عدالت نے کہا کہ اگراویس شاہ حساس اداروں کے پاس ہے تو آگاہ کیاجائے۔ عدالت اس معاملے کو ادھورا نہیں چھوڑے گی۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ حساس اداروں نے آگاہ کیا ہے کہ پولیس اویس شاہ کے معاملے میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ اب تک پولیس کو نہیں پتہ اویس شاہ کس کے پاس ہے۔ عدالت نے اویس شاہ سے متعلق رپورٹس 21 جولائی کو طلب کرلی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر وفاقی سیکرٹری داخلہ کو بھی طلب کرلیا ہے۔