مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورتحال، سید علی گیلانی نے قیام امن سے متعلق چار نکاتی امن فارمولا جاری پیش کردیا

کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور اس کے باشندوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا جائے، آبادی والے علاقوں سے فوجی انخلا، عوام کْش فوجی قوانین کا خاتمہ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، نظربندی کے کلچر کا خاتمہ اور مسئلہ کشمیر سے جڑے سبھی سیاسی مکاتبِ فکر خاص طور پر حق خودارادیت کے حامی سیاسی رہنماوں کو سیاسی سرگرمیوں کی آزادی ، اقوام متحدہ کے خصوصی مبصرین اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے مشاہدین کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے،بزرگ حریت رہنما کا عالمی برادری کے نام خط

پیر 18 جولائی 2016 10:49

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18جولائی۔2016ء ) مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ دس روز سے ہلاکتوں اور سخت محاصرے کے بعد کل جماعتی حریت پسند گیلانی گروپ کے چیئرمین سید علی گیلانی نے کشمیر میں قیام امن سے متعلق چار نکاتی امن فارمولا جاری پیش کیا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 87 سالہ بزرگ حریت رہنماء سید علی گیلانی نے اتوار کو عالمی اداروں اور سربراہان مملکت کو ایک طویل خط ارسال کیا ہے، جس میں انھوں نے کشمیر میں شورش کو ختم کرنے اور خطے میں پائیدار امن کی ضمانت کے لیے چار نکات پر مشتمل مطالبات کی فہرست جاری کی ہے۔

علی گیلانی نے یہ مکتوب اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل، امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس جیسے ممالک کے سربراہان، سارک ممالک اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیم آسیان اور اسلامی ممالک تنظیم کے علاوہ پاکستان، ایران ، سعودی عرب اور ترکی کے سربران مملکت کو ارسال کیا ہے۔

(جاری ہے)

خط میں گیلانی نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انڈیا کو کشمیر سے متعلق فوجی پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ کریں۔

چار نکاتی فارمولہ کے نکات یہ ہیں ، جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور اس کے باشندوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا جائے، آبادی والے علاقوں سے فوجی انخلا، عوام کْش فوجی قوانین کا خاتمہ، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، نظربندی کے کلچر کا خاتمہ اور مسئلہ کشمیر سے جڑے سبھی سیاسی مکاتبِ فکر خاص طور پر حق خودارادیت کے حامی سیاسی رہنماوں کو سیاسی سرگرمیوں کی آزادی، اقوام متحدہ کے خصوصی مبصرین اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے مشاہدین کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔

واضح رہے کہ آٹھ جولائی کو پولیس نے مقبول مسلح کمانڈر برہان وانی کو جنوبی کشمیر کے کوکر ناگ علاقے میں ایک تصادم کے دوران شہید کردیا گیا تھا اْن کی ہلاکت کے بعد جنوبی کشمیر کے سبھی اضلاع سے لاکھوں لوگ برہان کے جنازے میں شرکت کے لیے چل پڑے، لیکن فورسز نے جگہ جگہ ان کا راستہ روکا جس کے بعد سکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں جھڑپیں شدت اختیار کر گئی۔

کشیمر میں جاری کشیدگی سے 40 سے زائد افراد جاں بحق اور ڈیڑھ ہزار زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے دوران زخمی ہونے والے پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی تعداد بھی ہزار سے زائد ہے۔وادی کے سبھی دس اضلاع میں سخت کرفیو نافذ کردیا ہے۔ دس روز سے ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور اخبارات کی اشاعت پر پابندی ہے۔ تعلیمی اداروں میں 24 جولائی تک تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔

ادھر مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رہنما اور بھارتی وزیراعظم کے دفتر میں تعینات وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے کہا ہے کہ کشمیر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے : ’اصل تنازعہ تو پاکستان اور چین کے زیرقبضہ کشمیر کے خطے ہیں۔‘ تاہم بی جے پی کی حمایت یافتہ کشمیر کی حکومت نے علیحدگی پسندوں کو بات چیت کی پیشکش کی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس قدر سنگین شورش کے دوران حریت پسندوں نے فہرست مطالبات جاری کی ہو۔

مبصرین کے مطابق وسیع پیمانے پر لوگوں کے ساتھ زیادتیوں کے باوجود حریت پسندوں نے ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کرکے بھارت کو ایک سفارتی چیلنج دیا ہے۔ تاہم بعض عوامی حلقوں اور مسلح گروپوں میں مذاکرات سے متعلق تحفظات پائے جاتے ہیں۔ لشکر طیبہ کے چیف محمود شاہ نے ایک بیان میں حرّیت کانفرنس کے تینوں رہنماوں سید علی گیلانی ، میرواعظ عمر اور یاسین ملک پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مشروط مذاکرات کی حمایت کا اشارہ دیا ہے۔