سینٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کا ایف بی آر کے گردشی قرضوں بارے کمیٹی کو مسلسل جواب نہ دینے کامعاملہ ایوان میں لے جانے کا فیصلہ

کمیٹی کا 3سالوں کے دوران وزارت پانی و بجلی کے گردشی قرضے دوبارہ 321ارب تک پہنچنے پر وزارت پر برہمی کا اظہار بنک اکاوٴنٹس منجمد اور ٹیکس دہندگان پر چھاپے مارنے کے معاملہ پر وفاقی وزیر خزانہ اور چیرمین ایف بی آر کو خط لکھنے کا فیصلہ

جمعہ 2 ستمبر 2016 11:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔2ستمبر۔2016ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نے ایف بی آر کی جانب سے 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کے حوالے سے کمیٹی کو مسلسل جواب نہ دینے کامعاملہ ایوان میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے وزارت پانی بجلی و بجلی کے گذشتہ 7سالوں کے 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں پر ایف بی آر جواب دینے کو تیارنہیں ہے حکومت نے ایک دن میں ای سی سی کو سمری بجھوا نے کے بعد منظوری کے بعدادائیگی کر کے گنیز ریکارڈ قائم کیا ہے کاش ریفنڈز بھی اتنی ہی تیزی سے ادا ہو جائیں،قائمہ کمیٹی نے 3سالوں کے دوران وزارت پانی و بجلی کے گردشی قرضے دوبارہ 321ارب روپے تک پہنچنے پر وزارت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال تو پہلے سے بھی ابتر ہے، 2013میں جب ادائگیاں کی گئیں اس وقت تیل 138 ڈالر فی بیرل تھا اب تو تیل بھی40ڈالر فی بیرل پرہے پھر بھی گردشی قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں جس حساب سے پٹرول کی قمیتیں کم ہوئی ہیں اس حساب سے بجلی مفت ملنی چاہیے جبکہ پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کی صورتحال جوں کی توں ہے عام آدمی دودھ اور پانی پر سیل ٹیکس دے رہا ہے تو پاور کمینیوں کو یہ کیسے معاف ہوگیایہ خاص لوگ ہیں جو ہر قسم کے قانون سے مبرا ہیں ایف بی آر بزنس مینوں کو ہراساں کر رہے ہے ڈریکونین ٹائپ انکم ٹیکس قوانین کو تبدیل کرنا ہو گاکمیٹی نے بنک اکاوٴنٹس منجمد کرنے اور ٹیکس دہندگان پر چھاپے مارنے کے معاملہ پر وفاقی وزیر خزانہ اور چیرمین ایف بی آر کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس چیرمین کمیٹی سیلم ماونڈوی والا کی زیر صدارت جمعرات کو پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا اس موقع پر480ارب روپے کے گردشی قرضوں کا معاملہ زیر غور آیا وزارت پانی و بجلی کے حکام نے کہا کہ پاور کمپنیوں سے ایم او یوز سائن ہوا تھا کہ وہ اپنے پلانٹس کو فرنس آئل سے گیس پر منتقل کریں گے کمپنیوں نے گیس پر منتقلی سے انکار کردیا ہے اس کے بعد حکومت اور پاور کمپنیوں کے مابین عدالت میں معاملات چلے گئے تھے وزارت پانی و بجلی نے پاور کمپنیوں کو ادائیگیوں کی سمری 21جون کو بھجوائی تھی جس کے بعد 28جون کو ای سی سی نے ان ادائیگوں کی منظوری دی تھی جس کے بعد اگلے دن رقم جاری کر دی گئی تھی جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمارے ریکارڈ کے مطابق سمری 27 جون کو بھجوائی تھی وزارت پانی بجلی و بجلی کے گردشی قرضوں پر ایف بی آر جواب دینے کو تیار نہیں ہے کہ پارو کمپنیوں کی جانب سے کتنے ملین روپے کا سیل ٹیکس ادا نہیں کیا گیاایف بی آر کی جانب سے جواب نہ دینے کے معاملہ کو ایوان میں لے کر جائیں گے سینٹر محسن عزیز نے کہا کہ گردشی قرضوں کے معاملے پر پاکستان نے گنیز ریکارڈ قائم کیا کہ ستائیس جون کو سمری بھیجی گئی اور ایک ہی دن میں ادائیگیاں بھی ہو گئی تھیں کاش ریفنڈز بھی اتنی ہی تیزی سے ادا ہو جائیں صورتحال تو پہلے سے بھی ابتر ہے، جب ادائگیاں کی گئیں اس وقت تیل 138 ڈالر فی بیرل تھااب تو تیل بھی سستا ہے پھر بھی گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں چیرمین کمیٹی نے کہاکہ پاور کمپنیز کیساتھ گیس پر منتقلی کا معاہدہ محض سب اچھا دکھانے کیلیے تھا کیا سینٹر عائشہ فاروق نے استفسار کیاکہ ان پاور کمپنیوں کا کوئی آزادانہ آڈٹ کیا گیا تھا جس پر وزارت نے حکام نے کہا کہ انہوں نے آڈٹ کروانے سے انکار کر دیا تھا سینٹر کامل علی آغا نے کہا کہ روزانہ خبر آتی ہے کہ بجلی 2روپے سستی ہو گئی تین روپے سستی ہو گئی اس صورتحال میں تو بجلی مفت ملنی چاہیے پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کی صورتحال جوں کی توں ہے انہوں نے وزارت سے پوچھا کہ تین سال میں گردشی قرضے کہاں تک پہنچ گئے ہیں جس پر وزارت کے حکام نے کہاکہ گردشی قرضے 321ارب روپے تک دوبارہ پہنچ گئے ہیں چیرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ آڈیٹر جنرل نے بھی اس پر اعتراض کی اتھاآڈیٹر جنرل کا کہا تھا کہ تاخیر ادائگی پر جرمانے سے بچا جا سکتا تھاجس پر وزارت کے حکام نے کہا کہ اس معاملہ کو پبلک اکاونٹس کمیٹی نے کلئر کر دیا ہے جس پر کامل علی آغانے کہا یہ کمیٹی پبلک اکاونٹس کمیٹی کے فیصلوں کی پابند نہیں ہے جس پر چیرمین کمیٹی نے ایف بی آر کی جانب سے اس حوالے سے جواب نہ دینے پر چیر مین سینٹ کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کمیٹی میں سینٹ جیمز ہوٹل کی خریداری کے معاملہ پر سینٹر سعید غنی اور سینٹر مشاہد اللہ خان کے مابین گرماگرمی ، سینٹر سعید غنی نے کہا کہ سینٹ جیمز ہوٹل کے شیئر ہولڈز نے منی لانڈنگ کی ہے ایف بی آ ر اس حوالے سے معلومات فراہم نہیں کر رہا اس کیس میں میاں منشا کا نا م شامل ہے سگاپور میں موجود ریزیڈینشیا ہولڈنگ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں مالی سال گیارہ، بارہ، اور تیرہ کے ریکارڈ کو درست کرنے کی کوشش کی گئی. ایف بی آر کے پاس یہ ساری معلومات ہیں وہ شیئر کیوں نہیں کرتا چیرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ آپ کے پاس یہ سارا ریکارڈ کہاں سے آیا جس پرسعید غنی نے کہاکہ سنگاپور میں یہ قانون موجود ہے کہ آپ یہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں چیرمین نے کہا کہاگر ایک ممبر یہ معلومات لے سکتا ہے تو ایف بی آر کیوں نہیں حاصل کر سکتا سینٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ایک بندہ لوگوں کو نوکریاں بھی دے رہا ہے اور حکومت کو ٹیکس بھی دے رہا ہے اس شخص کے خلاف انکوائری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس ملک میں کئی لوگ ایسے ہیں جن کا کوئی کاروبار نہیں ہے مگر پھربھی ارب پتی بنے ہوئے ہیں ایف بی آر حکام نے کہا کہ سینٹ جیمز ہوٹل کے معاملہ پر سنگاپور ٹیکس اتھارٹی کا 500صفحات پر جواب موصول ہوا ہے اس کو پڑھنے میں ابھی وقت لگے گاجس پر کمیٹی نے معاملہ موخر کر دیاسینٹر محسن عزیز نے کہا کہ ایف بی آر کو ٹاسک ملے ہوئے ہیں اور یہ بزنس مینوں کو ہراساں کر رہے ہیں ایسی تمام کاروائیاں روکی جائیں جن کے تحت بنک اکاوٴنٹس منجمد یا ٹیکس دہندگان پر چھاپے مارے جا رہے ہیں چیرمین کمیتی نے کہا کہ چیر مین ایف بی آر کا پہلے بھی کہا تھا کہ یہ سلسلہ روکا جائے ڈریکونین ٹائپ انکم ٹیکس قوانین کو تبدیل کرنا ہو گا جس پر ممبران نے فیصلہ کیا کہ کمیٹی اس معاملہ پروزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر کو خط لکھے گی�

(جاری ہے)

متعلقہ عنوان :