20ہزار انٹیلی جنس آپریشنز سے خطرناک دہشتگردوں کو گرفتار کیا،وزیرداخلہ

کسی بھی غیر ملکی کو بغیر ویزہ پاکستان آنے کی اجازت نہیں ہوگی جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ رکھنے والے کو کسی صورت نہیں بخشا جائے گا نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدرآمد کیلئے صوبوں کا تعاون ضروری،حلیف جماعتیں تنقید کی بجائے کابینہ اور حکومت کی سطح پر بات کریں،چوہدری نثار سانحہ کوئٹہ پرفرحت اللہ بابر، محمود اچکزئی ، اشوک کمار،جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم ،اعظم خان ، گیان چند، جہانزیب جمالدینی ، نسیمہ حسان ، جاوید عباسی ، حافظ حمد اللہ اور دیگر کا سینٹ میں اظہار خیال

جمعرات 8 ستمبر 2016 11:19

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8ستمبر۔2016ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ملک سے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے اقدامات کریں گے، گزشتہ تین سال کے دوران 20ہزار سے زائد انٹیلی جنس آپریشنز کے ذریعے خطرناک دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا ہے، کسی بھی غیر ملکی کو بغیر ویزہ پاکستان آنے کی اجازت نہیں ہوگی جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ رکھنے والے کو کسی صورت نہیں بخشا جائے گا، نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل درآمد کیلئے صوبوں کا تعاون ضروری ہے، حکومت کے حلیف جماعتیں تنقید کی بجائے کابینہ اور حکومت کی سطح پر بات کریں، سانحہ کوئٹہ سمیت دہشتگردی کی شدید مذمت کرتے ہیں، ہمیں اس طرح کی واقعات کیلئے تیار رہنا ہوگا، ملکی اداروں پر تنقید ان کے حوصلے پست کرنے کے مترادف ہے فوج اور پولیس کی قربانیوں کا احترام کرنا ہوگا، سینٹ میں سانحہ کوئٹہ پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ، مردان بم دھماکہ اور دیگر واقعات پر تمام پاکستانیوں کو دکھ ہے، اس واقعے کی پرزور مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ شہداء کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں، انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات کے روکنے کی زیادہ ذمہ داری حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں پر عائد ہوتی ہے یہ بہت مختلف جنگ ہے یہ دشمن ہمارے اندر چھپا ہوا ہے اور اس صورتحال سے ہمارے درست نما دشمن فائدہ اٹھا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کے بعد بطور وزیرداخلہ ذمہ داریوں میں اضافہ جاتا ہے، سرحدوں کی صورتحال دیکھی جاتی ہیں، سانحے کی جگہ پر اہم شخصیات کے جانے سے زخمیوں کا علاج متاثر ہو جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ حادثے کی جگہ پر اہم شخصیات کے نہ جانے کے بارے میں اعلیٰ سطح میٹنگ تک ایوان کی آواز پہنچاؤں گا، چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حادثات دہشتگردی کی واقعات پر سیاسی سکورنگ کی بجائے قومی موقف اپنانے کی ضرورت ہے اور حالیہ واقعات کے بعد بہت بہتری آئی ہے،انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اقدامات اور دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں بہت بہتری آئی ہے اور اسے عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ اپریل 2014ء میں ملٹری آپریشن کی تیاری کے سلسلے میں میٹنگز شروع کی گئی اور اس کے بعد ملٹری آپریشن کی مخالف جماعتوں کے ساتھ ملاقات کرکے ان سے حمایت حاصل کی، انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان سے 7ماہ قبل ضرب عضب شروع کیا گیا تھا اور اسے اچھی طرح پایہ تکمیل تک پہنچارہے ہیں تاہم نیشنل ایکشن پلان کے 9نکات صوبائی حکومت7نکات مختلف وزارتوں3نکات وزارت داخلہ اور ایک نکتہ فاٹا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، ان نکات کا فوجی آپریشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ اور سندھ حکومت ہماری سیاسی طور پر مخالف حکومتیں ہیں مگر ہم نے کس بھی موقع پر ان حکومتوں کے خلاف کوئی بات نہیں کی کیونکہ ایسے واقعات کے موقع پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیو کوشش نہیں کرنی چاہئے، انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ 50سال تک جاری نہیں رہے گی اس کو جلد ہی پایہ تکمیل تک پہنچا دیں گے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں حالیہ سال کے دوران 54فیصد کمی آئی ہے اور ہمیں ان اداروں کی سمیت بڑھانی ہوگی جو پاکستان کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے یہ جنگ ابھی جاری ہے اور اس میں نقصان بھی ہوگا مگر ہمیں اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا، انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فوج کے ساتھ ساتھ پولیس کے بھی بہت بڑی قربانیاں دی ہیں،ہمیں پولیس کی قربانیوں کوبھی یادرکھناہوگا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ سیکورٹی ایجنسیاں پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑرہی ہیں اوربہت زیادہ واقعات انہی ایجنسیوں کی نشاندہی کی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ بنوں جیل ،کراچی ائیرپورٹ ،آرمی سکول ،واہگہ بارڈرسمیت جن جن مقامات پردہشتگردی کے واقعات ہوئے ہیں ان کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹیں صوبائی حکومتوں کوبارباربجھوائی گئی ہیں ۔انہوں نے کہاکہ 20ہزارسے زائدانٹیلی جنس آپریشنزکے ذریعے خطرناک دہشتگردوں کوپکڑاگیاہے ۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جوکامیابی ملی ہے اس میں سیاسی جماعتوں اورعوام اوردیگرسٹیک ہولڈروں کے تعاون سے ملی ہے اوراگریہی اتفاق جاری رہاتوملک سے دہشتگردی کوجلدہی جڑسے ختم کردیاجائیگا۔انہوں نے کہاکہ 2013ء سے قبل بیرون ملک سے سینکڑوں کی تعدادمیں لوگ غیرملکی پاکستان آجاتے تھے جس کوبھی ڈی پورٹ کیاجاتاوہ پاکستان آجاتاتھااس سلسلے میں تمام ممالک سے معاہدے ختم کردیئے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ غیرملکیوں کولانے والی بڑی بڑی کمپنیوں کوکروڑوں روپے جرمانہ کیاہے ۔انہوں نے کہاکہ سابقہ دورمیں آفیشل پاسپورٹ پرانسانی سمگلنگ کی گئی جبکہ غیرملکیوں کولاکھوں جعلی شناختی کارڈبناکردیئے گئے ہیں موجودہ حکومت نے سابقہ دورمیں ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے دوہزارسے زائدپاسپورٹ کینسل کئے سابقہ دورکے دوسالوں میں 500شناختی کارڈجبکہ موجودہ دورحکومت میں لاکھوں کی تعدادمیں جعلی شناختی کارڈسامنے آئے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ ایوان کویقین دلاتاہوں کہ جعلی شناختی کارڈکے خلاف ہم کسی بھی سیاسی جماعت ،پارٹی ،فرقے یاقوم کے خلاف نہیں ہیں ،اوراس سلسلے میں جلدہی پارلیمانی کمیٹی بناکرپارلیمنٹرین کے تمام سوالوں کاجواب دیاجائیگا۔انہوں نے کہاکہ ملک میں جعلی شناختی کارڈرکھنے والوں کونہیں چھوڑاجائیگا۔انہوں نے کہاکہ سیاسی مخالفت ہونے کے باوجودتمام صوبائی حکومتوں نے کے ساتھ بھرپورتعاون کروں گااوران کے مسائل حل کرنے کیلئے بھرپوراقدامات کئے جائیں گے ۔

انہوں نے کہاکہ اگرکسی سیاسی جماعت یاحکومت کے حلیف کواعتراضات ہیں توکابینہ کے اجلاس میں بات کریں صوبائی سطح پربات کریں یاپھربحیثیت گورنرانٹیلی جنس ایجنسیوں سے بات کریں حکومت پربے جاتنقیدکرناکسی طورپردست نہیں ۔انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتوں کے اتحادواتفاق سے دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ دشمن شکست خوردہ ہوچکاہے اوربھاگ رہاہے ،دہشتگردمایوس اورخوف میں مبتلاہیں ،اس وجہ سے سویلین سکولوں ،بازاروں ،مساجد،چرچ پرحملے کرتے ہیں نہ تومسلمان ہیں اورنہ ہی انسان ہیں ،اب دشمن آسان اہداف کونشانہ بناکرہمیں خوفزدہ کرناچاہتاہے ۔

انہوں نے کہاکہ ایوان سے یہ پیغام جاناچاہئے کہ ان بزدلانہ حملوں سے ہم مایوس نہیں ہوں گے بلکہ مزیدپرعزم ہوں گے ،ہم کامیابی حاصل کرچکے ہٰں اب ہم پرنفسیاتی جنگ مسلط کی جارہی ہے ،ہمیں دشمن کویہ پیغام دیناہوگاکہ ہم ایک ہیں اورہمیں اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں افواج کی ہمیت بڑھانی چاہئے۔ قبل ازیں تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا ہے کہ بلوچستان‘ کوئٹہ ‘ مردان ‘ پشاور میں جو واقعات ہوئے ہیں ایسے حالات میں اب ہمارا کام واقعہ مذمت اور افسوس کردینا ہی رہ گیا ہے۔

اس حوالے سے ایک بیان آچکا ہے کہ کرپشن اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو ختم کرکے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے پھر اور بیان آئے گا ‘ اس حوالے سے یہ بات حقیقت ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ریاست کے بعض اداروں کے لوگوں کے روابط ہیں جس کے واضح شواہد ہیں۔ ملا منصور اختر جب مارا گیا تو اس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ اور کارڈ تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں نہیں کہیں روابط ہیں۔

جن تنظیموں پر پابندی ہے تو پھر ان تنظیموں کا اجلاس ہونا بھی روابط کی جانب واضح اشارہ ہے۔ حکومت ریاستی اداروں اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط پر ضرور اپنا نقطہ نظر بتائے۔ بارڈر منیجمنٹ کی بات آئے گی یہ خوش آئند ہے یہ ہونا چاہیے افغانستان اور پاکستان بارڈر پر دو سو ساٹھ کراسنگ پوائنٹ ہیں ‘ انگور اڈا سمیت 2 مزید کو سامنے لاکر دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکتا ہے۔

اب بارڈر منیجمنٹ کا سہارا لے کر افغانستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا جائے یہ پالیسی گزشتہ پالیسی ہے اب بھی ناکام ہوگی۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دہشت گرد تنظیموں کی پشت پر اداروں کا ہاتھ نہ ہو تو وہ کبھی بھی پھل پھول نہیں سکتے۔ سینیٹر روبینہ نے سینیٹ میں کہا کہ بچپن میں کہاوت تھی کہ سورج ہے سرحد تو چاند بلوچستان ہے‘ ان ماؤں سے پوچھو کہ سورج اور چاند کے بچے خون میں لت پت کیوں ہیں۔

اس حوالے سے ریاست کہاں ہے انکے سہولت کار کون ہیں ان کو بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ادارے جانتے ہیں تو ہم کو بتایا جائے۔ ملک میں ہزاروں سانحات ہوچکے ان کی روک تھام گٹھ جوڑ کب ٹوٹے گا۔ سینیٹر داؤد اچکزئی نے کہا ہے کہ 8 اگست سے وکلاء پر دو حملے اور بھی کئے گئے تھے اب تیسرا حملہ ہے‘ تمام تر واقعات ایک ہی طرز پر تھے سی سی ٹی وی میں خود کش حملہ آور تو دکھایا تو ان کے ساتھ دو سہولت کار بھی دکھائے گئے تھے ان کے بارے میں اب تک معلومات حاصل نہیں ہوسکی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ افسوس کی بات ہے ایسے سانحات میں وزیر داخلہ کو جانا چاہیے تھا تو ان کی بجائے آرمی چیف اور وزیراعظم پہنچ گئے جن کے جانے سے نظام درہم برہم ہوا اور معمولی زخمی بھی دم توڑ گئے ۔ صد افسوس کی بات ہے کہ جنازے جلدی پڑھنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا۔ ایسا کیوں ہوا ہے۔ پھر ایک گھنٹہ میں بیان دینا کہ سی پیک کی وجہ سے بھارت ملوث ہے۔ بتایا جائے سی پیک بلوچستان میں کہاں ہے جہاں سی پیک ہے ‘ وہاں ناچ گانے ہورہے ہیں۔

مودی کے بیان پر بلوچستان میں مظاہروں کا تاثر دینا غلط تھا اگر احتجاج ریکارڈ کرانا تھا تو پھر واہگہ بہت قریب تھا۔ چھ ستمبر کا خطاب واضح اشارہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر متفقہ فیصلہ ہوا تھا وہ کہاں گیا۔ میرا حکومت کو پیغام ہے کہ سوکھے آنسوؤں کے ساتھ اب ہم چپ ہیں انکی خاموشی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ سینیٹر ایم کبیر نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ ہو یا سانحہ مردان‘ ہمارے مقدر میں تو لاشیں اٹھانا ہی رہ گیا ہے۔

سانحہ بلوچستان میں جو وکلاء شہید ہوئے ہین وہ سلیف میڈ تھے ان پر ریاست کا کوئی احسان نہیں تھا۔ خود پڑھ کر ان عہدوں پر پہنچے تھے دو افراد تو ایسے تھے جو معمولی زخمی تھے مگر ان کی مرہم پٹی نہ کی گئی جس کے باعث وہ شہید ہوگئے۔ یہ سب کیا ہے ہم کسی اور جنگ میں چلے گئے اور اپنے ہمسائے کو لہولہان کردیا اور آج اس نے ہمیں لہولہان کرنا شروع کردیا ہے۔

جو کل بویا تھا وہی آج کاٹ رہے ہیں۔ سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ دہشت گردوں کومعلوم ہوا ہے کہ حکومت انکے خلاف کاری ضرب نہیں لگا سکتی۔ کیونکہ خارجہ پالیسی اور ضیا پالیسی چل رہی ہے‘ ضیاء پالیسی کو ختم کرکے خارجہ پالیسی اور بنانی چاہیے۔ سینیٹر جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم نے کہا کہ قتل وغارت جہاں بھی ہو وہاں پر بھی ہمارا دل دکھتا ہے،کیونکہ انسانیت کو قتل کیا جارہا تھا،کل6ستمبر تھا تو ہر زبان بولے جارہی تھی کہ پاک فوج نے1965میں دشمن کے دانت کٹھے کر دئیے تو اس دن ایک اخبار نے خبرلگائی کہ سینیٹرز نے کوئٹہ سانحہ کا الزام اپنی ایجنسیوں پر لگا دیا،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنی ایجنسیوں اور ملک کو الگ الگ تناظر میں دیکھا جائے،حقیقت ہے کہ سی پیک دشمن کو ہضم نہیں ہورہا جس کی وجہ سے وہ اوچھی حرکتیں کر رہا ہے،بارڈر مینجمنٹ اب ناگزیر ہے،اس سے دہشتگردی کنٹرول ہوگی،دہشتگردوں کا ایمان نہیں ہوتا لیکن70فیصد دہشتگردی روک دی گئی ہے۔

سینیٹر سردار اعظم خان نے کہا ہے کہ ہم بلوچوں پٹھانوں کی نسل کو تباہ کیا جارہا ہے یہ باقاعدہ منصوبہ بندی ہے،یہ ایجنسیاں ہمارے ٹیکسوں پر چل رہی ہیں وہ اپنی ذمہ داریاں کیوں نہیں نبھاتیں۔کوئٹہ میں سول مارشل لگایا گیا ہے،ہر گلی میں ایف سی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے ہمیں شہید کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو ہم کر رہے ہیں وہ ظلم وبربریت ہے،ہم نے ملک بنایا اور ہم کو نادہندہ لوگ اب بلوچستان میں رہ گئے ہیں،پڑھتے لکھے چلے گئے،آج شکر الحمدللہ غداری کی لسٹ میں لاہور والے بھی شامل ہوگئے ہیں۔

سی پیک کا لیبل لگا کر بلوچستان کو تباہ کیا جارہا ہے،سی پیک جن کا ہے وہاں کیوں امن ہے،اپنے حق پر کسی صورت سودے بازی نہیں کریں گے۔تمام اکائیاں برابر ہوں گی تو انصاف ہوگا۔سینیٹر گیاں چند کا کہنا تھا کہ سانحہ بلوچستان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے،دہشتگردی کی جنگ میں ہم حالت جنگ میں چلے گئے،نیشنل ایکشن پلان پر اگر عمل کیا جاتا تو ایسے واقعات رونما نہ ہوتے۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ سانحہ بلوچستان میں جو بھی ملوث ہیں اگر وہ سمھجتے ہیں کہ وہ اس سے جنت میں چلے جائیں گے تو میں دعاگو ہوں کہ اللہ انکی تمنا پوری کردے،میرے بیٹے کا نام سنگت تھا اب تو100سنگت مزید ختم ہوگئیں،کیسے ممکن ہے کہ طبی سہولیات ہیں ہمارے پاس کہ ہم انہیں بچا سکیں گے۔کوئٹہ ہسپتال میں3سرجن تھے اور مریض200سے زیادہ تھے،لوگ چیخ رہے تھے کہ مریض ہمارے واپس کرو مگر ان پر ہی قبضہ کر لیا گیا۔

بولان میڈیکل میں20تھیٹر تھے وہاں مریضوں کو نہیں بھیجا گیا،کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں فوٹو سیشن کیا جاتا رہا،میرا بیٹا ساڑھے سات گھنٹے تک زندہ رہا انکا ایکسرے تک نہ کیا گیا،مجھے خدشہ ہے کہ جو غلطیاں ہم سے ہوچکی ہیں یہ جنگ50سال مزید جاری رہے گی،ایک بھی ٹراما سینٹر نہیں جو بدقسمتی ہے۔سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ ہو یا سانحہ پشاور ایسے حالات میں صبر آجاتا ہے،میں روتی ہوں اور چلاتی ہوں میں ان کے لئے نہیں روتی میں اپنے16سالہ بھائی کو روتی ہوں جو دہشتگردی کی زد میں آگیا ہے،حکومت کی جانب سے را کا ہاتھ ملوث ہونے سے حکومت کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی،میرا مطالبہ ہے کہ اس سانحہ پر جتنی بھی تحقیقات ہوئی ہیں انہیں سامنے لایا جائے۔

سینیٹر جاوید عباس نے کہا کہ کوئٹہ بم دھماکے میں بلوچستان کے نامور وکلاء کو نشانہ بنایا گیا ہے جس پر پوری قوم غمزدہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ملک میں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ان کو انسان کہنا بھی جائز نہیں ہے،ان ظالموں کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھانا ہوگی۔انہوں نے کہا کہ یہ وقت سیاسی سکورننگ یا بلیم گیم کا نہیں ہے دہشتگردی کے واقعات پر سیاست کرنا شہداء کے خون سے غداری ہوگی۔

سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ اس سے قبل 4واقعات میں یہی طریقہ استعمال کیا گیا ہے،کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری نہیں بنتی ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات کریں اور اس حکمت عملی کو ناکام بنائیں۔انہوں نے کہا کہ میں ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ ”را“ بلوچستان میں مداخلت کر رہی ہے،افغانستان کے راستے ”را“ بلوچستان میں مداخلت کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مذہبی دہشتگردی ہوتی ہے تو اس کا سہولت کار مدارس اور مساجد میں ڈھونڈا جاتا ہے مگر ”را“ کی جانب سے دھماکوں کے سہولت کاروں کو کہاں پر ڈھونڈا جاتا ہے،محض الزامات اور بیانات۔انہوں نے کہا کہ کوئٹہ دھماکہ خودکش نہیں تھا بلوچستان میں ”را“ اور این ڈی ایس کو دھماکہ کرنے کا ماحول کس نے فراہم کیا ہے،یہ جنگ صدر مشرف کی مسلط کردہ ہے جیسے پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ1980ء کا فیصلہ بھی ایک ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے کیا تھا پاکستان کے عوام نے نہیں کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ نائن الیون سمیت عالمی واقعات پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں مگر پاکستان میں ہونے والے واقعات پر سوالات اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو داخلہ اور خارجہ پالیسی پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے،کیا پاکستان کے سیاستدان آزاد نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسلح تنظیمیں کس نے بنائیں ان کے مراکز کہاں ہیں اور ان کو کہاں پر بھیجا جاتا تھا ان مسلح تنظیموں کو بنانے اوران کی سرپرستی کرنے والوں کا احتساب ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں غیر مسلح کرکے دہشتگردوں کے سامنے چھوڑ دیا گیا ہمیں کلاشنکوف دی جائے ہم ان دہشتگردوں کا مقابلہ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ کتنے دہشتگرد مدارس اور مساجد سے پکڑے گئے ہیں اور کتنے دہشتگرد سیاسی جماعتوں کی کمین گاہوں سے پکڑے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کس مدرسے سے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ”را“ اور این ڈی ایس کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی پاکستان کو تباہ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔انہوں نے کہا کہ ایوان کو بتایا جائے کہ خارجہ پالیسی بنانے کی راہ میں کون رکاوٹ ہے اس کا پتہ چلایا جائے۔سینیٹر گل بشرہ،سینیٹر نہال ہاشمی،سینیٹر جان کینتھ ویلیم،سینیٹر مختار دھاٹرا نے بھی خطاب کیا۔