بھارت کے ساتھ تعلقات پر غور کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے،ارکان سینٹ کا مطالبہ

کشمیر کے حوالے سے بنائی گئی پالیسی کو ایوان میں نہیں لایا جاتا اور جب کشمیر کے حوالے سے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو ایوان کو جواب دینے کیلئے آگے کردیا جاتا ہے برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر کاز کو نئی تقویت ملی کشمیر کا مقدمہ لڑنے جانے والے لوگوں کو شاپنگ کرنے کی بجائے کام پر دھیان دینا ہوگا،سینٹ میں بحث

منگل 27 ستمبر 2016 10:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔27ستمبر۔2016ء) اراکین سینیٹ نے پاکستان کے بھارت سے تعلقات کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے پر زور دیتے ہو ئے کہا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے بنائی گئی پالیسی کو ایوان میں نہیں لایا جاتا اور جب کشمیر کے حوالے سے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو ایوان کو جواب دینے کیلئے آگے کردیا جاتا ہے جواب بھی وہی لوگ دیں جو پالیسی بناتے ہیں۔

برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر کاز کو نئی تقویت ملی ہے کشمیر کا مقدمہ لڑنے کیلئے جانے والے سیاسی لوگوں کو شاپنگ کرنے کی بجائے کام پر دھیان دینا ہوگا۔ اقوام متحدہ میں وزیراعظم نے بھارتی جاسوس کا ذکر نہ کرکے غلطی کی ہے پاکستان کو خطہ کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے خارجہ پالیسی بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔

(جاری ہے)

پیر کو پاکستان کے بھارت حوالے سے تعلقات کی تحریک پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ایوان بالا کو بھارت سمیت ہمسایہ ممالک سے تعلقات کا پتہ ہونا چاہیے ہمیں بتایا جائے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کس نوعیت کے ہیں بھارت سے تعلقات کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد مین نہیں لیا جاتا۔

مسائل ہر جگہ پر ہیں ہماری تمام تر توانائیاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو قائم کرنے میں خرچ ہورہی ہیں دونوں جانب کی عوام متاثر ہورہی ہے یہ ایوان بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا جس کی وجہ سے انہیں موقع ملتا ہے ۔ میڈیا میں خیال اور دلیل کے ساتھ بات کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بھارت میں بھی یہی تصور ہے اس تحریک کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ بنیادی حالات پر ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔

کوئٹہ واقعہ پر صرف بتا دیا گیا کہ ”را“ ملوث ہے باقی کچھ نہیں کہا گیا اس معاملہ پر تفصیلی بریفنگ ہونی چاہیے۔ سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ پاکستان خطہ میں امن چاہتا ہے لیکن ہم عزت اور احترام سے رہنا چاہتے ہیں بھارت کی حالیہ جارحیت سے لگتا ہے کہ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے پاکستان ہر قسم کا جواب دینے کو تیار ہے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عوام اپنی افواج کے پیچھے کھڑے ہیں اگر انہوں نے کوئی ایکشن لیا تو عوام اور فوج ایک پوائنٹ پر کھڑے ہیں اور پھر مل کر ان کو نیست و نابود کردیں گے کشمیر میں بھارت کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کا اقوام متحدہ کو نوٹس لینا چاہیے سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ جب بھارت کے مظالم کا چہرہ کھلتا ہے تو وہ پاکستان پرالزام تراشی شروع کردیتا ہے۔

سی پیک کے حوالے سے بھارت کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں بھارت کا چہرہ کشمیر کے حوالے سے کھل کر سامنے آیا ہے اور اس کی مذمت کرتے ہیں حکومت اپنی پارٹی کے لوگوں کو کشمیر کاز کے لئے مختلف ممالک میں بھجوا رہی ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر اچھی تھی لیکن انہیں بھارتی جاسوس کلبھوشن کے حوالے سے بات کرنی چاہی تھی حکومت کو اسٹریٹیجی بہتر کرنی چاہی تھی انڈس واٹر ٹریٹی کے حوالے سے بھارت یو این میں گیا ہے اس کی مذمت کرتے ہیں بھارت غلطیوں پر غلطیاں کررہا ہے بھارت انڈس واٹر معاہدہ کو ختم نہیں کر سکتا۔

بھارت پانی کے حوالے سے ہمیں نہیں ڈرا سکتا یہ انیسویں یا بیسویں صدی نہیں ہے بھارت کے ساتھ بات چیت میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے ۔ سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ بھارت نے پہلے دن سے ہی پاکستان کو قبول نہیں کیا۔ بھارت کی اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کشمیر میں تحریک شروع ہوئی ہے جس میں بھارت بربریت کی انتہا کردی ۔ کشمیر میں بھارتی بربریت گوانتاناموبے سے بھی زیادہ گھناؤنی ہے۔

اڑی کا واقعہ کشمیر سمیت دیگر واقعات سے توجہ ہٹانے کیلئے کیا گیا بھارت نے کشمیر پر ڈبل تاریں لگائی ہوئی ہیں جو کہ کراچی معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ اڑای کا واقعہ ٰFalse Flag Operation تھا وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر کو ہر کسی نے سراہا ہے پاکستان کی سرزمین میں کوئی نہیں گھس سکتا پاکستان جنوبی ایشیاء میں امن چاہتا ہے اورامن اس وقت ہی ممکن ہے جب کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق عمل کیا جائے گا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ وزیراعظم مودی کے تین بیانات آتے ہیں 8 جون کو امریکہ کانگریس میں انہوں نے پاکستان کے خلاف تقریر کی ۔ ایک ماہ بعد برہان وانی کی شہادت ہوئی اس سے کشمیر میں ایک نئی تحریک کا آغاز ہوا ۔ 5 ہزار بھارتی فوجی کشمیر میں بربریت کررہے ہیں پھر 15 اگست کو بھارتی آزادی کے دن نیا بیان آتا ہے تیسرا بیان چین میں دیا۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں اچھی تقریر کی انہوں نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو کہا کہ پاکستان کا کشمیر کاز پر واضح موقف ہونا چاہیے۔

مودی کی حکومت کا انتہا پسندانہ رویہ ہے ہمیں خطہ کے ممالک کے ساتھ اچھی فارن پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر مظفر حسین سید نے کہا کہ وزیراعظم کی کشمیر کاز کے حوالے سے کمیٹی میں چند افراد کے علاوہ کوئی اہل نہیں ہے ان لوگوں کو شاپنگ نہیں کرنی چاہییبلکہ کشمیر کا مقدمہ صحیح طریقے سے پیش کرنا چاہیے ۔ وزیراعظم کو سینیٹر سے ناموں کے حوالے سے مشاورت کرنا چاہیے تھی انہوں نے کہا کہ کشمیر کی تحریک کو برہان وانی کی شہادت سے نئی تقویت ملی ہے وزیراعظم کی تقریر میں بھارت کی پاکستان میں مداخلت کو کیوں نہیں اجاگر کیا گیا بھارت توبلوچستان کی بات کھل کر کرتا ہے ہماری خارجہ پالیسی اوپن ہونی چاہیے بھارت کے حوالے سے تعلقات پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے اس کے علاوہ وزیراعظم تمام جماعتوں کے ساتھ رابطے کریں بھارت کے ایشو پر تمام قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے ‘ ترکی‘ چین ‘ او آئی سی اس مسئلہ پر پاکستان کے ساتھ ہے پاکستان کو زور دینا چاہیے کہ اڑی واقعہ پر ایک عالمی Fact Finding کمیشن بنایا جائے۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے میں سنجیدگی اختیار کرے۔ سینیٹر عطا الرحمن نے کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بات ہونی چاہیے۔ جنگیں جذبہ ‘ یکجہتی کے ساتھ لڑتی جاتی ہیں اس ملک سے محبت ایمان کا حصہ ہے اس ملک پر قربان ہونا ہماری آرزو ہے انہوں نے کہا کہ خطہ کی صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے حق میں نہیں ہے ایٹم بم بنانے سے اتنے پاور فل ہوگئے ہیں کہ بھارت اور اس کے دوستوں کو دھمکایا جائے۔

بھارت کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے جس میں پاکستان کی اصل صورتحال بارے بتایا جائے ہمارے ملک میں بھی تعصب بڑھ رہا ہے۔ بلوچستان میں پاکستانی پرچم جلانے‘ بھارتی ترانہ پڑھانے سمیت واقعات ہوتے ہیں پہلے ایک قوم بنایا جائے پھر جنگ کی بات کی جائے ۔ ہمیں اپنی کمزوریوں پر بات کرنی چاہیے قومیت کے نام پر اس ملک کو لڑایا گیا ملک پر مشکل وقت آئے گا تو مذہبی جماعتیں دفاع کیلئے کھڑی ہوں گی۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر بیلنس تھی مگر مودی صاحب کو دہشت گرد ڈکلیئر کرنے کی بات کرنی چاہیے تھی پھر معاملات میں دوستیاں الگ کرلینی چاہیں کیونکہ مودی نے خود کئی جگہوں پر اپنے کاموں کا کھل کر اظہار کیا تھا بھارت کے معاملہ پر قوم اکٹھی ہے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آرمی کا مورال کافی بلند ہے سینیٹر حافظ حمد الله نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ 69 سالوں سے چل رہا ہے گزشتہ بارہ سالوں میں جتنا کشمیر میں ظلم ہوا ہے اتنا کہیں اور نہیں ہوا ہوگا۔

مودی ہندوستان کے بغیر داڑھی اور مونچھوں کے ملا فضل الله ہے انہوں نے کہ اکہ کشمیر کا مسئلہ نائن الیون کے بعد کیوں نہیں اٹھایا گیا کشمیر کے حوالے سے پالیسی کہاں بن رہی ہے کشمیر کے حوالے سے ایک نکتہ پر بھی بات نہیں ہوتی ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہمارا کشمیر پر یہ نکتہ نظر ہے پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا جب مشکل آتی ہے تو مولویوں کو آگے کردیا جاتا ہے ہم تو مررہے ہیں تو جواب بھی ان لوگوں سے مانگا جائے جو پالیسی بناتے ہیں نیشنل ایکشن پلان کے تحت مختلف افراد کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں بلوچستان میں اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا براہمداغ بھگٹی نے تین بار مذاکرات کرنے کی بات کی نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کونشانہ بنایا جاتا ہے۔

عبدالقادر اور عبدالملک نے براہمداغ سے ملاقات کی اور کہا کہ ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اس بات کا پتہ لگانا چاہیے کہ اختیار کس کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا معاملے پر امریکہ ہمارے ساتھ ہے یا بھارت کے ساتھ ہے اس کی وضاحت کی ضرورت ہے ایک مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ حکومت کو مشترکہ اجلاس بلانے کی ضرورت ہے موجود حکومت بھارت کو جواب دینے میں ناکام ہوگئی ہے مودی نے بھارت کی پچاس سال کی پالیسی تبدیل کردی ہے وہ کھل کر بلوچستان اور کشمیر کو حصہ بنانے کی بات کررہا ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کو اپنی تقریر میں بھارت کی پاکستان میں مداخلت کی بات کرنی چاہیے تھی۔ اقوام متحدہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کو فیل کررہی ہے پہلے افغانستان آپ کو سنا کر گیا پھر بھارت کے وزیر خارجہ نے پاکستان حکومت کو باتیں سنائیں۔ بھارت اپنی پالیسی کو کشمیر کے ہوالے سے شفٹ کرتے جارہے ہیں افغانستان بھی ایک فرنٹ کھلا ہوا ہے۔ امریکہ کو اس وقت پاکستان کی ضرورت کم ہوتی جارہی ہے امریکی صدر نے کہا کہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا فلیش پوائنٹ ہے اور کشمیر میں قتل عام کیا جارہا ہے انیسویں اور بیسیویں صدی کی فارن پالیسی سے نکلیں ہر کوئی اپنی لڑائی لڑ رہا ہے ۔

سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ پاکستان کوخطہ کے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اپنانا چاہیں کشمیر کے مسئلہ کا حل ڈائیلاگ کے ذریعے ہے کشمیر کا مسئلہ جب تک حل نہیں ہوتا اوڑی جیسے واقعات ہوں گے ۔ مزید بلیم گیم ہوگا۔ اس تحریک پر سینیٹر اعظم سواتی ‘ سینیٹر تنویر احمد تھانوی نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ بحث کے اختتام پر سینیٹر جہانزیب جمالدینی کی تحریک کو متفقہ طورپر منظور کرلیا گیا۔

متعلقہ عنوان :