1991ء سے 2015ء تک 98 صنعتی یونٹس کی نجکاری کی گئی،زاہد حامد

نجکاری پالیسی تبدیل کی گئی،سرکاری و نجی شراکت کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے،پی ٹی سی ایل سمیت مختلف اداروں کی نجکاری میں مسائل رہے ہیں، وفاقی وزیر قانون ان لینڈ ریونیو ایوارڈ رولز کے تحت ٹیکس چوری کی اطلاع دینے والے کو وصول ہونے والی رقم سے مخصوص انعام دیا جاتا ہے، قانون نافذ العملہے،سینٹ،وقفہ سوالات

جمعرات 29 ستمبر 2016 11:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔29ستمبر۔2016ء) سینٹ کو وقفہ سوالات کے دوران بتایاگیاکہ ٹیکس چوری کی اطلاع دینے کا قانون وسل بلور منظور کیا جا چکا ہے جس تحت ٹیکس چوری کی اطلاع دینے والے فرد کو انعام دینے کے ساتھ ساتھ تحفظ فراہم کیا جائے گا،سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کے سلسلے میں کوئی تجویز حکومت کے زیر غور نہیں ہے، ایف بی آر کے ذمے کارپوریٹ اور نان کارپوریٹ سیکٹرکے ٹیکس ریفنڈ کی مد میں 261آرب واجب الادہ ہیں ،گذشتہ15سالوں میں 98صنعتی یونٹوں کی نجکاری کی گئی جس میں صرف19یونٹس کام کر رہے ہیں ماضی میں درست طریقے سے نجکاری نہ ہونے کی وجہ سے اتصالات جیسے مسائل سامنے آئے ہیں،پاکستان ڈیویلپمنٹ فنڈ کو بحال کیا جارہا ہے ۔

بدھ کے روز ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے نجکاری کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ 1991ء سے 2015ء تک 98 صنعتی یونٹس کی نجکاری کی گئی ہے جس میں اس وقت صرف19یونٹس کام کر رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ جن صنعتی یونٹس کی نجکاری کی گئی ہے ان میں 7 آٹو موبائلز، 15 سیمنٹ، 13 کیمیکل، 7 انجینئرنگ، 6 فرٹیلائزر، 23 گھی، 8 چاول، 15 روئی پلانٹس اور 8 ٹیکسٹائل یونٹس شامل ہیں انہوں نے کہا کہ اس وقت نجکاری پالیسی تبدیل کی گئی ہے اور سرکاری و نجی شراکت کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے انہوں نے کہا کہ پی ٹی سی ایل سمیت مختلف اداروں کی نجکاری میں مسائل رہے ہیں لیکن کافی اداروں کی نجکاری کامیاب بھی رہی ہے بینکوں، فرٹیلائزر اور آٹو موبائلز کی نجکاری بڑی کامیاب رہی ہے اب اداروں کو فروخت کی بجائے سرکاری اور نجی شراکت سے ان کی کارکردگی میں بہتری آئے گی انہوں نے بتایا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ملک میں انجینئرز کی رجسٹریشن کے علاوہ ان کی تعلیم اور تربیت کے حوالے سے کام کر رہا ہے انہوں نے بتایاکہ ادارے کی ذمہ داریوں میں انجینئرز کے لئے نوکریوں کا انتظام کرنا شامل نہیں ہے انہوں بتایا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل ایکٹ کی دفعہ 8 کے مطابق انجینئرنگ کونسل کا کام رجسٹرڈ انجینئرز، پروفیشنل انجینئرز، کنسلٹنٹس انجینئرز اور آپریٹرز کے طور باصلاحیت افراد کی رجسٹریشن کرنا ہے۔

(جاری ہے)

پی ای سی کو ملک میں انجینئرز کے لئے نوکریاں دینے کا اختیار حاصل نہیں تاہم اب نئے گریجویٹس کے لئے مختلف دفاتر میں تین ماہ کی انٹرن شپ کے مواقع دیئے گئے ہیں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے وسل بلور قانون کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان لینڈ ریونیو ایوارڈ رولز کے تحت ملک میں ٹیکس چوری کی اطلاع دینے والے کو ٹیکس کی وصول ہونے والی رقم کا مخصوص انعام میں دیا جاتا ہے اور یہ قانون ملک میں نافذ العمل ہو چکا ہے تاہم اس حوالے سے صرف آر ٹی او بہاولپور میں ایک رپورٹ دائر کی گئی ہے انہوں نے کہا کہ چیف کمشنر ان لینڈ ریونیو ریجنل ٹیکس آفس یا لارج ٹیکس دہندگان یونٹس معلومات وصول کرنے کے مجاز ہیں انہوں نے بتایاکہ وفاقی حکومت کسٹمز، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے تین براہ راست ٹیکس وصول کرتی ہے30 جون 2011ء تک اشیاء پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد تھی جسے دو سال کے لئے 16 فیصد کیا گیاتھا اب پھر یہ شرح 17 فیصد ہو گئی ہے نہوں نے کہا کہ خدمات پر سیلز ٹیکس اسلام آباد کے علاوہ صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہے اسلام آباد میں سروسز پر سیلز ٹیکس 16 فیصد ہے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا معیاری ریٹ 15 فیصد ہے تاہم مختلف اشیاء پر 8 سے 65 فیصد تک کے مختلف ریٹ فیڈرل ایکسائز ایکٹ 2005ء کے پہلے شیڈول میں متعین کئے گئے ہیں جبکہ کسٹم ڈیوٹی جو کہ براہ راست ٹیکس ہے، ملک میں اشیاء کی درآمد پر لگایا جاتا ہے انہوں نے بتایاکہ 2015-16ء کے دوران 4 کھرب روپے سے زائد کسٹم ڈیوٹی کی مد میں وصول کئے گئے ہیں انہوں نے بتایاکہ گزشتہ کئی سال کے دوران پالیسی انتظامی اقدامات کی وجہ سے بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کم اور بلاواسطہ ٹیکسوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے سست بارڈر پر ڈرائی پورٹ کے شیڈ کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے ایوان کو بتایا کہ اس وقت سست ڈرائی پورٹ پر 36 شیڈز ہیں اوربیک وقت 36 گاڑیاں یا کنٹینرز کھڑا کرنے کی گنجائش ہے انہوں نے کہا کہ پورٹ کو پاک چین سلک روڈ پورٹ کمپنی کی جانب سے چلایا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ اس وقت پورٹ پر گنجائش تو زیادہ ہے لیکن کنٹینرز، گاڑیاں روزانہ تین سے چار آ رہی ہیں ڈرائی پورٹ پر گاڑیوں کی تعداد بڑھنے کے بعد گنجائش میں بھی اضافہ کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ حکومت چین پاکستان اقتصادی راہداری پر بھرپور طریقے سے کام کر رہی ہے اس کو جلد سے جلد مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے متعلق سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ نیشنل کوالٹی پالیسی میں پی ایس کیو سی اے کی تنظیم نو کی تجویز بھی دی گئی ہے تاکہ اس کی کارکردگی بہترین بین الاقوامی روایات کے مطابق لائی جا سکے اس سلسلے میں سمری کابینہ کو بھجوائی جا رہی ہے انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایک موبائل ٹیسٹنگ لیبارٹری کو فعال بنا دیا گیا ہے جبکہ دیگر شہروں میں بھی ایسی لیبارٹریاں قائم کی جائیں گی کوئٹہ میں ٹیسٹنگ لیبارٹری کو ملک کی دیگر لیبارٹریوں کی طرح اپ گریڈ کیا جائے گاٹیکس ریفنڈ کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون ذاہد حامد نے بتایاکہ ٹیکس ریفنڈ کی مد میں کارپوریٹ اور نان کارپوریٹ سیکٹر کے مجموعی طور پر 261آرب روپے واجب الادہ ہیں انہوں نے بتایاکہ اس وقت انکم ٹیکس کی مد میں کارپوریٹ اداروں کے 81 ارب روپے اور نان کارپوریٹ اداروں کے 10 ارب روپے ٹیکس ریفنڈ کی مد میں واجب الادا ہیں۔

سیلز ٹیکس کی مد میں 117 ارب روپے اور برآمدات کی مد میں 53 ارب روپے ادا کئے جانے ہیں۔ ایف بی آر کی کوششوں سے ریفنڈ کے زیر التواء معاملات کو نمٹانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈ کے لئے ایف بی آر نے اپنے تمام نظام کو کمپیوٹرائزڈ کر دیا ہے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں سینٹرلائزڈ سیلز ٹیکس ریفنڈ آفس چیک جاری کرنے کا انچارج ہے سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر قانون نے کہا کہ روزمرہ کی زیادہ تر اشیاء کو یا تو مکمل طور پر سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے یا ان پر کم سیلز ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔

اشیائے ضروریہ پر لگائی گئی کسٹم ڈیوٹی میں کمی کرنے کی کسی تجویز پر ایف بی آر غور نہیں کر رہا تاہم اشیائے ضروریہ پر براہ راست ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی پر کم سے کم رکھنے کے لئے سبزیوں، دالوں وغیرہ پر یہ ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا۔ حکومت کی مالی سال 2016-17ء کے بجٹ میں ٹیرف سلیبس کی تعداد کو کم کر کے 5 سے 4 کر دیا گیا ہے پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈمتعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ کو فعال بنانے کے لئے جامع حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔

پی ڈی ایف ایل اور انفراسٹرکچر پراجیکٹ ڈویلپمنٹ فیسلٹی دو الگ الگ ادارے ہیں جن کے مقاصد اور کام مختلف ہیں۔ آئی پی ڈی ایف کا کام منصوبوں کی ترقی میں سرکاری اداروں کو معاونتی خدمات فراہم کرنا ہے جو کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جبکہ پی ڈی ایف ایل ایک مکمل طور پر ترقیاتی مالیاتی امداد کا ادارہ ہے اور جلد ہی فعال کر دیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :