خیبر پختوپختوا حکومت کا صوبائی حقوق کیلئے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ

کئی دیرینہ ایشوز اورمعاملات پر الگ الگ آئینی اور قانونی پیٹیشن دائے کرنے کا آپشن بھی زیرغور

بدھ 5 اکتوبر 2016 10:41

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5اکتوبر۔2016ء)خیبر پختوپختوا حکومت نے صوبے کے آئینی حقوق کی ادائیگی میں مرکز کی پراسرار خاموشی اور مسلسل حق تلفیوں پر وفاق کے خلاف قانونی جنگ لڑنے اور اس مقصد کیلئے نیا لائحہ عمل اپنانے کا فیصلہ کیا ہے اس ضمن میں کئی دیرینہ ایشوز اورمعاملات پر الگ الگ آئینی اور قانونی پیٹیشن دائے کرنے کا آپشن بھی زیرغور ہے جن میں اٹھارہویں ترمیم کے نفاذ اور کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے اور صوبوں کو اضافے محکمے، شعبے اور ذمہ داریاں منتقل کرنے کے باجود وفاق کا متعلقہ اثاثہ جات، فنڈز اور اختیارات روکے رکھنا، پانی کی تقسیم کے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونا اور صوبے کو واجب الادا 119ارب روپے کے بقایاجات پر خاموشی، دہشت گردی کی مد میں ایک فیصد فنڈ کو کم از کم پانچ فیصد پر لانا، افغان مہاجرین و اے ڈی پیز کے اخراجات کیلئے الگ فنڈ کا قیام، تمباکو سیس اور صوبے میں پیدا ہونے والے دیگر زرعی و معدنی پیداوار کے سیس و آمدن کو پنجاب کی گندم پیداوار کی طرح مکمل طور پر وفاقی دسترس سے نکالنا، سیلز ٹیکس اور واپڈا و سوئی گیس سمیت وفاقی محکموں کے دفاتر، عملے اور کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے صوبائی حکومت کی عملداری میں لانا اور سی پیک کے مغربی روٹ پر وفاقی پوزیشن واضح کرنا شامل ہیں جبکہ نئے این ایف سی ایوارڈ کیلئے بھرپور قانونی جنگ لڑنے کی تیاری بھی شروع کر دی گئی ہے اس ضمن میں صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید ایڈوکیٹ نے اپنے دفتر سول سیکرٹریٹ پشاور میں صوبائی وزیر قانون امتیاز شاہد قریشی سے بھی ملاقات کی ہے جس میں نئے این ایف سی ایوارڈ کے بارے میں پیشرفت کے علاوہ صوبے کے مذکورہ دیگر حقوق اور انکے حصول سے متعلق صوبائی حکومت کی نئی حکمت عملی اور انکے قانونی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور ضروری فیصلے کئے گئے وزیر خزانہ نے صوبے کے حقوق کی جلد واگزاری کی بجائے انہیں مکمل نظر انداز کرنے اور مکمل سکوت اختیار کرنے کو مجرمانہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسکی وجہ سے عوام کے مابین انتہائی درجے کی بدگمانی اور احساس محرومی پیدا ہونے کا احتمال ہے اور یہ طرز عمل فیڈریشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ وفاق صوبے کے اکثر حقوق اور وسائل دبائے رکھنے کے باوجود میڈیا میں امید افزاء بیان داغ دیتا ہے مگر دیتا کچھ بھی نہیں حالیہ این ایف سی اجلاس میں میڈیا کو یہ کہلا دیا گیا کہ صوبے مردم شماری کے بغیر نئے این ایف سی ایواڈ پر متفق اور تیار ہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا اور شاید مرکز مردم شماری سے پہلے یا بعد میں بھی ہمیں حقوق دینے سے گریزاں رہے دوسری طرف اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے شوشے بھی چھوڑ دئیے جاتے ہیں جو صوبائی خودمختاری کے منافی اقدام ہے وقت آگیا ہے کہ وفاق نوشتہ دیوار پڑھنے کو تیار نہیں تو ہم اپنے مطالبات دہرانے اور انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کریں مرکز ہماری ایسی ماں کا روپ دجار چکا ہے جو رونے اور بلکنے پر بھی بچے کو دودھ دینے کو تیار نہیں جبکہ اسکے روئیے میں سوتیلے پن کا عکس بھی نمایاں ہے اسے ہماری مالی مشکلات اور وسائل و حقوق غصب ہونے کے بھیانک نتائج کا بالکل احساس ہی نہیں ہو رہا ہے اسلئے قوم کا زیادہ نقصان ہونے سے پہلے اور عوامی تشفی و تلافی کیلئے ضروری ہو گیا ہے کہ اس سلسلے میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جائے انہوں نے اعتراف کیا کہ مہاجرین قیام، دہشت گردی اور قدرتی آفات کی وجہ سے صوبے کے انفراسٹرکچر کی بحالی صوبے کے محدود مالی وسائل میں ممکن نہیں جبکہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں صوبائی بجٹ کا 80فیصد سے زائد فنڈز کیلئے وفاق پر انحصار کرنے والا ہمارا واحد صوبہ ہے کیونکہ پن بجلی سمیت ہمارے اہم وسائل پر مرکز کا قبضہ ہے اور صوبے کے عوام کو انکے فوائد سے بھی یکسر محروم رکھا گیا ہے ملاقات میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ وفاق سے واپڈا ور سوئی گیس کے صوبائی دفاتر کی سطح پر اختیار مانگا جائے تاکہ کارکردگی میں بہتری لانے کے علاوہ مرکز سے کوٹے کے مطابق بجلی اور گیس لی جائے اور صوبے میں عوامی ضروریات کے مطابق ان کی تقسیم یقینی بنائی جائے ۔