پانامہ لیکس :سپریم کورٹ نے وزیر اعظم اور وفاقی اداروں کونوٹسز جاری کر دیئے

اسحاق ڈار ،مریم نواز،کیپٹن صفدر،حسن اور حسین نواز بھی نوٹسز بھجوانے والوں میں شامل عدالت نے جوڈیشل کمیشن نہ بنانے اور دھرنا روکنے سے متعلق درخواستیں خارج کر دیں،سماعت 2ہفتوں تک ملتوی کسی سیاسی مسئلے میں نہیں پڑیں گے ،انتظامیہ شہریوں کو حقوق دینے میں ناکام رہی تو مداخلت کریں گے، چیف جسٹس انور ظہیر جمالی عدالت نے بادشاہت کو جمہوریت کے نیچے لانے کیلئے پہلا قدم اٹھا لیا،اب پوشیدہ چیزیں سب کے سامنے آئیں گے ،2 نومبر کو ہمارا پرامن احتجاج ختم نہیں مزید زور پکڑے گا، عمران خان میری درخواست پر وزیر اعظم کو نوٹس بھجوایا گیا،، آج جمہوریت کا آئینی اور قانونی امتحان ہے،شیخ رشید دال میں کچھ کالا ہے ،حکومت پانامہ لیکس میں سنجیدہ نہیں، عدالت قوم کو مایوس نہ کرے، سراج الحق

جمعہ 21 اکتوبر 2016 10:53

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21اکتوبر۔2016ء) سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پرتحریک انصاف، جماعت اسلامی اورعوامی مسلم لیگ کی آئینی درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے جبکہ دھرنا روکنے کی درخواست قبل از وقت قراردیکر مسترد کردی۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پاناما لیکس پر وزیراعظم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور دیگر رہنما کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ حکومتی وزراء خواجہ آصف اور سعد رفیق اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز بھی سماعت کے موقع پر عدالت میں موجود تھے۔

، ابتدائی سماعت کے موقع پر قومی وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفر اللہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ معاملے پر جوڈیشل کمیشن نہیں بننا چاہیے بلکہ پارلیمانی کمیٹی بننی چاہیے جب پارلیمنٹ موجود ہے تو معاملے کو عدالت میں نہیں آنا چاہیے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن بنانا حکومت کا کام ہے ،جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے حکومت نے خط لکھا تھا جس کا جواب بھی دیدیا گیا تاہم حکومت کی جانب سے دوبارہ کوئی جواب موصول نہیں ہوا،بیرسٹر ظفر علی نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن بنانے کا مقصد پارلیمنٹ کا وجود نہیں ہے تاہم عدالت نے جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کے حوالے سے قومی وطن پارٹی کی درخواست خارج کر دی جبکہ طارق حسن ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ پورا شہر رو رہا ہے کہ اسلام آباد بند نہ کیا جائے ،جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ کام بھی ہم کریں، ہم کسی سیاسی مسئلے میں نہیں پڑیں گے لیکن انتظامیہ شہریوں کو ان کے حقوق دینے میں ناکام رہی تو مداخلت کریں گے ۔

جسٹس عارف خلجی حسین کا کہنا تھا کہ عدالت کو کوئی دھمکی نہیں دے سکتا۔جماعت اسلامی کی جانب سے ایڈووکیٹ اسد منظور بٹ پیش ہوئے ،عدالت نے جماعت اسلامی کی دائر درخواست پر وفاق،وزارت قانون، وزارت خزانہ ،کابینہ ڈویژن اور قومی احتساب بیورو کو نوٹسز جاری کر دیئے ،تحریک انصاف کی طرف سے حامد خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے ،انہو ں نے اپنے دلائل میں کہا کہ پانامہ لیکس کا معاملہ یکم جنوری2016 کا ہے ،بیرون ممالک کی رپورٹس کے مطابق نواز شریف و دیگر پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں،پانامہ کے معاملے پر کئی غیر ملکی شخصیات نے اپنے عہدوں پر استعفے دے دیئے ہیں ،نواز شریف ماضی میں بھی بدعنوانیوں میں ملوث رہے ہیں ،انہوں نے مزید بتایا کہ اتفاق فاؤنڈری کو1972 میں قومی تحویل میں لیاگیا تھا اس کے بعد انہوں نے جدہ اور دبئی وغیرہ میں غیر قانونی سرمایہ کاری کی ان کی انکوائری کرائی جائے ۔

عدالت نے درخواست سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف،سیکرٹری داخلہ،قومی احتساب بیورو،وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز ،کیپٹن صفدر،حسن نواز، حسین نواز ،اسحاق ڈار ،ایف بی آر اور وزارت قانون کو نوٹسز جاری کر دیئے۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد خود عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ یہ وقت ملک کو تحفظ دینے کا ہے ،جمہوریت کو بچایا جائے اور کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلائی جائے ،عدالت نے شیخ رشید کی بھی درخواست کو منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کرنے کے احکامات جاری کئے جس پر شیخ رشید نے کہا کہ نوٹسز نہیں فریقین کو شوکاز نوٹسز جاری کئے جائیں جس پر عدالت نے کہا کہ فریقین کے جوب آنے دیں دائرہ اختیار کافیصلہ فریقین کو سن کر کریں گے ،شہری اسد کھرل نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف فیملی کے 43 لوگ کرپشن میں ملوث ہیں اس حوالے سے 24 صفحات پر مشتمل رپورٹ نیب میں جمع کروائی تھی،نیب کو 9 بار یادہانی کرانے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی جس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا ،عدالت نے اسد کھرل کی بھی درخواست کو منظور کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور چیئرمین نیب کو نوٹسز جاری کر دیئے ۔

بعدازاں کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے عدالتی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج تاریخی دن ہے،نیب سمیت تمام اداروں کی خاموشی کے بعد عدالت سے رجوع کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا،یہ خوشی کی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نوٹسز بھجوائے ہیں، قانونی راستہ ڈھونڈنا ہماراحق ہے، لیکن جب انصاف نہیں ملتا تو احتجاج کرنا بھی سیاسی جماعت کا حق ہے۔

آج سپریم کورٹ نے بادشاہت کو جمہوریت کے نیچے لانے کے لیے پہلا قدم اٹھا لیا ہے ،امید کرتے ہیں کہ جب پاناما لیکس کا کیس شروع ہو گا تو وہ چیزیں بھی سامنے آئیں گی جو اب تک پوشیدہ تھیں۔ان کاکہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں کیس شروع ہونے سے احتجاج ختم نہیں ہو گا ،یہ احتجاج وزیراعظم اور ان کے اداروں کے خلاف ہے جو کہ جمہوری عمل کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پاناما کیس شروع ہونے کے بعد اب احتجاج کو اور بھی زور ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ وزرا کہتے رہے ہیں کہ پاناما لیکس کا کیس ختم ہو جائے گا ،اربوں روپے کی چوری کا کوئی سوال نہیں کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کی تحقیقات میں پارلیمنٹ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا لیکن شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے اپنا کردار ادا کردیا جو کہ بادشاہت کو جمہوریت کے نیچے لانے کے لیے پہلا قدم ہے۔انہوں نے کہاکہ میگناکارٹا میں بادشاہ کو قانون کے تابع بنایا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کو جب انصا ف نہیں ملتا تو پھر پر امن احتجاج کرنا اس کا آئینی حق ہے ،ہم قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ پر امن احتجاجی عمل جاری رکھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ادارے ہمارے ٹیکسوں سے چلتے ہیں اورادارے کمزور ہونے سے کرپشن زیادہ اور مضبوط ہونے سے کم ہوتی ہے ،پاناما لیکس جیسے بڑے سکینڈ ل کے بعد نیب ،ایف بی آر اور دیگر اداروں نے پبلک اکاونٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر بہانے مار ے کہ ہمارے پاس بادشاہ کا احتساب کرنے کے لیے قانون ہی نہیں ہے۔

اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نظریے کی بات کر رہے ہیں ، یہ لڑائی عمران خان کی ذاتی نہیں ہے، پاکستان کے عوام کرپشن سے تنگ ہیں۔ 2014 کا دھرنا بہت کامیاب تھا، اس وقت کی تحریک انصاف اور اب کی پی ٹی آئی میں زمین آسمان کا فرق ہے، مختلف جماعتوں کے قائدین اور عوام کو دو نومبر کے احتجاج میں شرکت کی اپیل کر رہے ہیں۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ پانامہ لیکس پر میری درخواست پر سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو نوٹس جاری کیا ہے ، غلط گوشوارے جمع کرانے پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمران نیشنل سیکورٹی کے معاملے پر بھی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں ، اب پرویز رشید کی قربانی دیں یا نہ دیں ، 20 کروڑ لوگوں کا کیس خود لڑوں گا۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے، آج جمہوریت کا آئینی اور قانونی امتحان ہے، وزیراعظم نے غلط گوشوارے جمع کرائے، نااہل قرار دیا جائے ، نواز شریف کو نااہل کرنا ہو گا یا ان 9 اراکین کو واپس لایا جائے جنہوں نے غلط گوشوارے جمع کرائے۔ان کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 62 اور 63 کسی کی اہلیت اور نااہلیت کا بنیادی آرٹیکل ہے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ حکمران نیشنل سیکورٹی کے ایشو پر بھی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں ، اب پرویزرشید کی قربانی دیں یا نہ دیں ، میں 20 کروڑ لوگوں کا کیس خود لڑوں گا۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے حکومت پاناما لیکس کی تحقیقات میں سنجیدہ نہیں، عدالت قوم کو مایوس نہ کرے۔سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی کے ساتھ پہلی بار عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے ،اگر عدالت نے قوم کو مایوس کیا تو جمہوریت،آئین اور قانون خطرے سے دوچار ہو جائے گا ،دال میں کچھ کالا ہے جس کی وجہ سے حکومت نے پانامہ لیکس پر کمیشن نہیں بنایا ،70 سالوں سے صرف دو فیصد لوگوں نے عوام کو بے وقوف بنا رکھا ہے ،اب قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں ہم چاہتے ہیں جن حکمرانوں کے نام پانامہ لیکس میں آئے ہیں ان کا احتساب ہونا چاہیے۔

ٹ