این اے 110 دھاندلی کیس،سپریم کورٹ نے الزامات مسترد کر دیئے

خواجہ آصف کیخلاف اور انتخابات دوبارہ کرانے کے لئے عثمان ڈار کی درخواست خارج سٹیٹس کو کا فائدہ طاقتور کو ہوتا ہے،18 سال سے مردم شماری کا نہ ہونا سٹیٹس کو کی مثال ہے، چیف جسٹس کے دوران سماعت ریمارکس

جمعہ 11 نومبر 2016 11:24

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11نومبر۔2016ء) سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کے حلقے این اے 110 میں تحریک انصاف کے امیدوار عثمان ڈار کی دوبارہ انتخاب کے لیے درخواست مسترد کردی ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 110 میں دھاندلی کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے عثمان ڈار کی درخواست کی سماعت کی، عدالت نے دونوں فریقین کا موقف سننے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار کی حلقے میں دوبارہ انتخابات کی درخواست مسترد کردی۔

جمعرات کے روز چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے این اے110میں انتخابی عذر داری کے کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ سٹیٹس کو کا فائدہ طاقتور کو ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اٹھارہ سال سے مردم شماری کا نہ ہونا سٹیٹس کو کی ایک مثال ہے۔

میں خود قائم مقام چیف الیکشن کمشنر رہا ہوں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا انتخابی مواد خزانے میں جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن اور صوبائی الیکشن کمیشن کے دفاتر میں انتخابی مواد رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ سلیکشن 44پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو صورتحال ایسی ہی رہے گی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انتخابی مواد کے خزانے میں جمع ہونے کے بعد کوئی سینئر وزیر یا اعلیٰ حکومتی اہلکار ہی خزانے کو کھول سکتے ہیں۔

پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کی کمیٹی نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی حل نہیں نکالا۔ سال سے کمیٹی کی میٹنگز جاری ہیں۔ صاحب اقتدار سٹیٹس کو سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اٹھارہ سال سے مردم شماری کا نہ ہونا ایک واضح مثال ہے اور اس کا فائدہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو طاقتور ہوتے ہیں۔ ہمیں ہماری زندگی میں سٹیٹس کو ٹوٹتا ہوا نظر نہیں آ رہا ایک ریٹرننگ افسر نے کہا کہ انتخابات میں قیامت کا منظر ہوتا ہے کسی کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جو سوالات فریقین نے اٹھائے ہیں یہ سارے سوالات الیکشن ٹریبونل میں گواہوں سے پوچھے جانے چاہیئے تھے۔ خیبر پختونخواہ میں بھی الیکشن کمیشن کے آفس میں بھی انتخابی مواد رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وفاقی وزیر خواجہ آصف کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمہ کے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔

ریٹرننگ افسر پر کوئی جرح نہیں کی گئی اور اس کیس میں کوئی دستاویزاتی ثبوت پیش نہیں کئے گئے۔ انتخابات سے قبل دھاندلی سے متعلق دستاویزات پیش نہیں کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ انتخابی عذر داری کرنے والے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کمیشن کی دو رپورٹس کے مطابق الیکشن مجموعی طور پر متاثر نہیں ہوا۔ فیصلہ آنے پر عدالت کے خلاف بیانات دینے کی روایات بن چکی ہے۔

الیکشن کے بعد انتخابی مواد خزانے میں جمع کروا دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جن ووٹوں پر شک ہے ان کو نکال بھی دیا جائے تو پھر بھی خواجہ آصف کی 16ہزار سے زائد کی لیڈ بنتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ پانچ تھیلے ایسے ملے جن کی سیل ٹوٹی ہوئی تھی۔ این اے110الیکشن کو الیکشن نہیں کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے۔

میرے فاضل وکیل دوست ایک لفظ بھی ایسا بتا دیں جس میں کسی جج صاحب کی تضحیک کی گئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں اور فاروق ایچ نائیک 1990ء میں متعدد بار اکٹھے پیش ہوتے رہے ہیں۔ ہم دونوں کی ایک ہی دلیل ہوتی تھی کہ لاڑکانہ اور لاہور سے لوگوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جانا چاہیئے ۔ ایگزیکٹو کو عدالت پر اثر انداز نہ ہونے کے لئے الیکشن کمیشن کو پاور دی گئی ہے۔