وفاق افغان مہاجرین بارے جلدفیصلہ کرے ،غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی وجہ سے سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ،پرویز خٹک

شربت گلہ جیل میں نہیں بلکہ ہسپتال میں تھی اس نے فوری ذہن تبدیل کیا اس کے پیچھے کون سے محرکات ہیں ہمیں معلوم نہیں نادرا نے ہمارے لوگوں کے شناختی کار ڈ بلاک کرکے شرمند ہ کیا ہے ، شناختی کارڈ بلاک کرنا خطرناک عمل اور ملک کو مسائل میں دھکیلنے کے برابر ہے، وزارت سیفران کی طرف سے مہاجرین سے متعلق بلائے گئے اجلاس میں گفتگو

منگل 15 نومبر 2016 11:17

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔15نومبر۔2016ء)وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے وفاق سے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کے بارے میں جلدفیصلہ کریں ۔غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی وجہ سے سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں مہاجرین کے یہاں قیام کاکوئی طریقہ کار ہے اور نہ ہی اُن کے کاروبار کرنے کا ریگولر طریقہ ہے جس کی وجہ سے ہماری معیشت بلیک معیشت کے سائے منڈلا رہے ہیں ہمارے تعلیمی اورصحت کے اداروں پر اضافی بوجھ ہے شربت گلہ جیل میں نہیں بلکہ ہسپتال میں تھی اُس نے خود درخواست دی تھی کہ وہ یہاں قیام کرنا چاہتی ہے ہم اُس کو مہاجر کا سٹیٹس دے کر قیام دینا چاہتے تھے لیکن شربت گلہ نے فوری طور پر ذہن تبدیل کیا اس کے پیچھے کون سے محرکات ہیں ہمیں معلوم نہیں ۔

نادرا نے ہمارے لوگوں کے شناختی کار ڈ بلاک کرکے شرمند ہ کیا ہے ۔

(جاری ہے)

شناختی کارڈ بلاک کرنا ایک خطرناک عمل ہے اور ملک کو مسائل میں دھکیلنے کے برابر ہے ۔ پیر کے روز اسلام آباد میں وزارت سیفران کی طرف سے مہاجرین سے متعلق بلائے گئے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہم مہاجرین کو زبردستی بے دخل کر رہے ہیں نہ روک رہے ہیں ۔ ہمارا مسئلہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین ہیں جن کی وجہ سے سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

مہاجرین کو توسیع دینی ہے یا نہیں دو ٹوک فیصلہ ہونا چاہیے۔ تاہم توسیع طویل نہیں ہونی چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک طریق کار وضع کرے۔یکسوئی کے ساتھ پلان بنائے۔ فیصلہ کرے کہ ہم نے آگے کس طرف جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بین الاقوامی برادری نے وسائل فراہم کردیئے ہیں اورسسٹم موجود ہے تو نادرا رجسٹریشن کا عمل شروع کیوں نہیں کرتا۔بلاوجہ رخنہ کیوں ڈالا جا رہا ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم گزشتہ تین دہائیوں سے افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہے ہیں۔ کوئی بھی ذی شعور اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا۔ درحقیقت صوبے کو جو مسائل ہیں ان کو ہماری جگہ کھڑاہو کر سمجھنا چاہیے۔بلاشبہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔ آرمی پبلک سکول اور چارسدہ یونیورسٹی جیسے واقعات نے ہمارے سامنے ایک چیلنج رکھ دیا ہے۔

سوچنے والی بات ہے کہ بغیر کسی دستاویزی ثبوت اور شناخت کوئی کیسے گھوم پھر سکتا ہے۔ دُنیا میں کہیں ایسا نہیں ہو تا ۔دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح مہاجرین کے یہاں قیام کا طریق کار نہیں ہے اسی طرح ان کے کاروبار کرنے کا بھی ریگولر طریقہ نہیں ہے۔ ان کی وجہ سے ہماری معیشت کے ساتھ ساتھ بلیک معیشت پنپ رہی ہے۔ صحت و تعلیم کے اداروں کی استعداد مقامی آبادی کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی تھی ۔

مہاجرین نے اس انفراسٹرکچر پر اضافی بوجھ ڈالا ہے۔ مذکورہ صورتحال کی وجہ سے مقامی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عوام کوکن پریشانیوں کا سامنا ہے۔ عوام کا نقطہ نظر کیا ہے وہ کیا چاہتے ہیں۔ ان حقائق کو سمجھے بغیر ہمارا کوئی بھی فیصلہ ٹھیک ثابت نہیں ہو گا۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ انہیں اس خطے کا امن اور خوشحالی عزیز ہے۔ ہم نے مہاجرین کے مسائل حل کرنے کیلئے اور ان کو سہولیات دینے کیلئے دو اعلیٰ سطح کی کمیٹیاں بنا رکھی ہیں۔

پولیس کو ہدایت کر چکے ہیں کہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کو بھی تنگ نہ کریں پولیس جب کسی کو پکڑ بھی لے تو کمیٹی کے سامنے پیش کرتی ہے اور کمیٹی کی ضمانت پر اُنہیں چھوڑ دیا جا تا ہے لیکن ہم کب تک اسی طرح چلتے رہیں گے۔ اب حکومت کو دو ٹوک فیصلہ کرنا ہے۔ اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے اگر مہاجرین کو مزید توسیع دینی ہے تو پھر طریق کار بھی وضع کریں۔ وسائل موجود ہیں رجسٹریشن کا عمل بھی شروع کریں۔

یہاں غیر ملکیوں کے رہنے ، آنے جانے اور کاروبار کرنے کی پالیسی ہونی چاہیے جس طرح پوری دنیا میں ہوتا ہے اسی صورت میں ہم امن و امان کو برقرار رکھ سکتے ہیں بصورت دیگر ہماری سیکورٹی کو خطرات لاحق رہے گے۔ تعجب کی بات ہے کہ مہاجرین کے قیام کی بات تو ہوتی ہے مگر انہیں باعزت شہری بنانے کا کسی نے سوچا ہی نہیں۔ میں یہ بات بین الاقوامی برادری سے بار ہا کہہ چکا ہوں کہ مہاجرین کے مسائل حل کرنے پر توجہ دیں اُن کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں ۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت مہاجرین کو زبردستی واپس نہیں بھیج رہی ۔ مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس جارہے ہیں تقریباً چھ لاکھ مہاجرین واپس جا چکے ہیں جن میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ دونوں شامل ہیں۔ افغانستان کے صد ر اور سفیر بھی مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی کے حق میں ہیں کیونکہ مہاجرین نے ایک دن تو جانا ہی ہے۔ افغانستان کو بھی ان کی ضرورت ہے اور چاہتے ہیں کہ باعزت واپس جا کر اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں شربت گلہ سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ شربت گلہ کسی جیل میں نہ تھی بلکہ وہ ہسپتال میں تھی شربت گلہ نے خود درخواست دی تھی کہ وہ یہاں رہنا چاہتی ہے ہم زبردستی نہ کسی کو روکتے ہیں اور نہ ہی بے دخل کرتے ہیں۔

ہمارا خیال تھا کہ اسے مہاجر کا سٹیٹس دے کر یہاں قیام دیں لیکن فوری طور پر شربت گلہ نے اپنا ذہن تبدیل کیا اس کے پیچھے کون سے محرکا ت ہیں ہمیں کچھ معلوم نہیں ۔ ہم نے وزراء کی ایک ٹیم بھی شربت گلہ کے پاس بھیجی مگر وہ نہیں مانی ۔ بعض لوگ خواہ مخواہ منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ بے بنیاد افواہیں پھیلاتے ہیں وہ حقیقت سے واقف نہیں ہو تے ۔وہ ہماری جگہ کھڑے ہو کر چیزوں کو محسوس کریں ۔

سیاست باز ی اور نشانہ بازی نہ کریں اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ نادرا کے کارڈ روکنے کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے کہا کہ نادرا نے ہمیں شرمندہ کردیا ہے۔ کارڈ روکنا خطرناک عمل ہے۔نادرا حکام کو سمجھناچاہیے کہ ہم نے اپنے ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنا ہے دھکیلنا نہیں ہے۔ ہمیں ہر اس عمل سے گریز کرنا چاہیے جو ہماری قومی ترقی و خوشحالی میں مسائل پیدا کرے ۔

متعلقہ عنوان :