سینیٹ قائمہ کمیٹی کم ترقی یافتہ علاقہ جات کا اجلاس

بلوچستان میں غربت سروے کے دوران بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا انکشاف کردیا بلوچستان میں غربت کی شرح 70فیصد ہے پسماندہ علاقوں میں دوبارہ سروے کریں گے،، بائیو میٹرک سسٹم پر منتقل کر دیں گے، سیاسی مداخلت ختم کردی گئی ، ماروی میمن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فاٹا میں بھی علاقائی دفتر بنایا جائے ، چیئرمین کمیٹی محمد عثمان خان کاکڑ کی ہدایت

ہفتہ 21 جنوری 2017 11:54

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔21جنوری۔2017ء) بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیرپرسن ماروی میمن نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران بلوچستان میں غربت سروے کے دوران بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا انکشاف کرتے ہوہئے کہاہے کہ سروے کے دوران بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کو نظر انداز کیا گیا ہے بلوچستان میں غربت کی شرح 70فیصد ہے پسماندہ علاقوں میں دوبارہ سروے کریں گے،اگلے سال تک بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا پروگرام بائیو میٹرک سسٹم پر منتقل کر دیں گے ،غربت سروے سے سیاسی مداخلت ختم کر دی گئی ہے اور سکور کی بنیاد پر نامزدگی کی جائے گی ،کمیٹی نے بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کو محروم رکھنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے غربت سروے فوری طور پر شروع کرنے کی سفارش کی ہے سینیٹ قائمہ کمیٹی کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے چیئرمین سینیٹر محمد عثمان خان کاکٹر کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کمیٹی کی دی گئی سفارشات پر عمل درآمد، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفاتر میں گریڈ 1 سے22 تک مستقل ، کنڑیکٹ اور ڈیلی ویجز ، ڈیپوٹیشن ملازمین کی صوبہ وار بمعہ فاٹا ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان تعداد کی تفصیل ، سروے رپورٹ اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے جاری منصوبوں اور پروگراموں کی تفصیلات اور گزشتہ پانچ سالوں میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صوبہ وار تنخواہوں میں ادائیگیوں اور اخراجات کی تفصیلات کا ایجنڈا زیر بحث آیا۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکٹر نے ہدایت دی کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فاٹا میں بھی علاقائی دفتر بنایا جائے اور بلوچستان کی کل 89 تحصیلوں میں سے صرف 26 تحصیلوں میں دفاتر ہیں بقایا تحصیل کونسلوں یا اضلاع کی سطح پردفاتر کی تعداد مکمل کی جائے انہوں نے کہاکہ گزشتہ سروے میں بلوچستان کے کم ترقی یافتہ علاقوں کو نظر انداز کیا گیا بلوچستان میں غربت کی سطح 70 فیصد ہے اس کو مد نظر رکھ کر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائر ہ کار بڑھایا جائے انہوں نے کہاکہ اب تک ملک میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 460 ارب روپے تقسیم کیے گئے ہیں لیکن بلوچستان کو صرف 19 آرب روپے دیئے گئے ہیں جو کہ ظلم اور حق تلفی ہے انہوں نے کہاکہ فاٹا کو 9 ارب ، گلگت بلتستان کو 4 آرب اور آزاد کشمیر کو بھی 9 آرب روپے ملے ہیں جبکہ پنجاب کو 171 آرب ، سندھ کو150آرب اور خیبر پختونخواہ کو95 آرب روپے دئیے گئے ہیں اس موقع پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ماروی میمن نے بتایا کہ بلوچستان میں کیے گئے گزشتہ سروے میں خامیاں ہیں اورصرف چار لاکھ افراد غربت سروے میں آئے ہیں انہوں نے کہاکہ میں خود دو دنوں بعد ضلع آوران کا دورہ کرونگی اور بلوچستان کے پارلیمنٹرین کے ہمراہ کم ترقی یافتہ علاقوں میں سروے کا آغازہوگاانہوں نے کہاکہ انکم سپورٹ پروگرام کیلئے فنڈز غربت کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں نہ کہ آبادی پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے قانون کے مطابق صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بورڈ کے ممبرز نہیں بن سکتے ہیں انہوں نے کہاکہ فاٹا میں صورتحال بہت بہتر ہو گئی ہے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفاتر فاٹا بھر میں موجود ہیں وہاں پر اب تیزی سے سروے مکمل کیا جائے گا چیئرپرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے آگاہ کیا کہ ایک سے ڈیڑھ سال میں پورا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بائیومیٹرک کر دیا جائے گااس پروگرام کا ڈیٹا دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے کوشش کر رہے ہیں کہ پہلے نمبر پر آ جائیں انکم سپورٹ کی صرف دو فیصد رقم ڈاک کے ذریعے دی جاتی ہے جبکہ بقایا مسحتقین کو بنکوں کے زریعے ادائیگی کی جاتی ہے چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان خان کاکٹر نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 31 ملازمین کے حوالے سے کہا کہ صوبے میں بے روزگاری اور غربت بہت زیادہ ہے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے جس پر چیئرپرسن نے کہا کہ بلوچستان کے کوٹہ کی خالی 408 اور وسیلہ تعلیم کی اسامیوں پر بھرتی کیلئے اسٹبلشمنٹ ڈویژن سے منظوری کا انتظار ہے کمیٹی کی طرف سے سفارش کی گئی کہ خالی اسامیوں پر بھرتی کی اجازت دی جائے سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ بلوچستان انتہائی پسماندہ صوبہ ہے انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ بلوچستان کی غریب ترین تحصیلوں تک جلد بڑھایا جائے لوگ غربت کی وجہ سے ہجرت کر جاتے ہیں انکم سپورٹ پروگرام کی وجہ سے شناختی کارڈ بنوا لیں گے اور اپنے گھروں میں واپس آئیں گے انہوں نے کہاکہ اگر غریب افراد کو ذریعہ معاش حاصل ہو جائے تو حکومت کی نیک نامی ہوگی انہوں نے مری ، بگٹی ، واشک ، آوران پر زیادہ توجہ دینے کا مطالبہ کیا سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ بلوچستان کے زیادہ سے زیادہ علاقوں میں وسیلہ تعلیم کی سہولت بڑھائی جائے انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان کے صرف چھ اضلاع میں وسیلہ تعلیم کی سہولت ہے انہوں نے جی پی ایس کی بنیاد پر کمپیوٹر کے ذریعے سکول کے بچوں کی حاضری کا شفاف نظام لانے کے اقدامات کو سراہا جس پر چیئر پرسن نے آگاہ کیا کہ بے ضابطگیوں کی شکایات پر سخت کارروائی کی جاتی ہے انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کے فیصلے کے تحت زلزلہ اور سیلاب جیسی ناگہانی آفات میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو امداد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور سکھر ، بہالپور ، ہری پور اضلاع کو پائلٹ پروگرام میں شامل کیا گیا ہے انہوں نے کہاکہ مقامی حکومت کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے بے نظیر پروگرام میں سیاسی مداخلت ختم کر دی گئی ہے اب صرف سکور کارڈ کے تحت اہلیت کا فیصلہ ہوتا ہے اور اس میں میرا بھی عمل دخل نہیں ہے کمیٹی کی طرف سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو سراہا گیا ۔

متعلقہ عنوان :