Adam Smith Maroof Muashi Nazriya Daan - Article No. 1799

Adam Smith Maroof Muashi Nazriya Daan

آدم سمتھ: معروف معاشی نظریہ دان - تحریر نمبر 1799

معاشی نظریہ کی پیش رفت میں اہم ترین شخصیت آدم سمتھ سکاٹ لینڈ کے قصبے کرککالڈی میں 1723ء میں پیدا ہوا۔ نوجوانی میں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ 1751ء سے 1764ء تک وہ گلاسکویونیورسٹی میں فلسفہ کا استاد رہا۔

منگل 30 اکتوبر 2018

مائیکل ہارٹ

معاشی نظریہ کی پیش رفت میں اہم ترین شخصیت آدم سمتھ سکاٹ لینڈ کے قصبے کرککالڈی میں 1723ء میں پیدا ہوا۔ نوجوانی میں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ 1751ء سے 1764ء تک وہ گلاسکویونیورسٹی میں فلسفہ کا استاد رہا۔ اس دوران میں اس کی پہلی کتاب ’’اخلاقی جذبات کانظریہ‘‘ شائع ہوئی جس نے اسے علماء کی صف میں ایک ممتاز مقام دیا۔

تاہم اسکی لازوال شہرت کاانحصار اس کی عظیم تصنیف ’’دولت اقوام عالم کی نوعیت اور وجوہات کی تحقیق‘‘ پر ہے جو 1776ء میں منظر عام پر آئی۔ فوراً ہی اس نے ماہرین کی توجہ حاصل کی۔ باقی تمام عمر اس نے اسی سے شہرت اور عزت پائی۔ 1790ء میں کرککالڈی میں فوت ہوا۔ اس نے مجردِ زندگی گزاری۔ معاشی نظریہ کے لیے تحقیق کرنے والوں میں آدم سمتھ پہلا آدمی نہیں تھا۔

(جاری ہے)

نہ ہی اس سے بیشتر معروف نظریات خود اس کے اختراع کردہ ہیں لیکن وہ پہلا آدمی تھا جس نے جامع اورباقاعدہ نظریہ معاشیات پیش کیا۔ جو حقیقتاً اس شعبے میں مستقبل کی ترقی کی بنیاد ثابت ہوا۔ اس وجہ سے یہ کہنا بجا ہے کہ ’’دولت اقوام عالم‘‘ سیاسی معاشیات کے جدید علم کانقطہ آغاز ہے۔

اس کتاب کے اثرات میں سے ایک یوں ہے کہ اس نے ماضی کی متعدد غلط فہمیوں کی اصلاح کی۔

سمتھ نے قدیم تاجرانہ نظریہ کو رد کیا، جس میں ایسی ریاست کی افادیت پراصرار تھا جس کے پاس بے پایاں سونے کے ذخائر ہوں۔ اس کتاب میں ریاست پسندوں کے نقطہ نظر کا بھی استرداد کیا گیا جس کے مطابق زمین اصل دولت ہے، اس کی بجائے سمتھ نے محنت کی بنیادی اہمیت پر اصرار کیا۔ اس نے پیداوار میں ممکنہ حد تک زیادہ اضافے پرزور دیا جو تقسیم محنت کی بدولت ہی ممکن ہے۔
اس نے ان تمام حکومتی دقیانوسی اور بے ضابطہ بندشوں پر بھی جرح کی جوصنعتی ترقی کی راہ میں حائل تھیں۔ دولت اقوام عالم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ بظاہر منتشر کھلی منڈی ایک خودکفیل نظام ہے، جو اس نوع کی، اوراس مقدار میں اشیاء پیدا کرنے لگتی ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو اور جس کی مانگ زیادہ ہو۔ مثال کے طورپر ہم فرض کرتے ہیں کہ کسی مطلوبہ شے کی رسد کم ہے۔
قدرتی طورپر اس کی قیمت بڑھے گی، جتنی قیمت بڑھے گی، اس کے پیدا کرنے والوں کا منافع بھی بڑھے گا۔ اس زیادہ منافع کے سبب صنعت کار اس شعبے کو زیادہ سے زیادہ پیدا کریں گے۔ پیداوار میں یہ اضافہ حقیقی قلت کو ختم کر دیگا۔ مزید برآں بڑھتی ہوئی رسد مختلف صنعت کاروں کے بیچ مسابقت کے باعث اس شے کی قیمت کو گھٹا کر اصل درجہ پر لے آئے گی، جوکہ دراصل اس کی پیداواری لاگت کے برابر ہے۔
کسی نے اس قلت کو ختم کرنے میں معاشرے کی اعانت نہیں کی لیکن مسئلہ پھر بھی حل ہوگیا، سمتھ کے الفاظ میں ہر شخص ’’صرف اپنے منافع پر نظر رکھے ہوئے ہے‘‘ لیکن وہ ’’کسی غیرمرئی طاقت کے سبب ایک ایسے مقصد کی جانب رواں ہے جو خود اس کی منشاء کا جزو نہیں ہے۔ خوداپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ عموماً معاشرے کی بہتری میں ایسا مؤثر کردار ادا کرتا ہے، جیساشاید تب بھی اس کے لیے ممکن نہ ہو، جب وہ عمداً ایسا کرنا چاہے‘‘۔
(دولت اقوام عالم، جلد چہارم، باب دوئم) یہ غیر مرئی قوت تب بے بس ہوجاتی ہے، اگر آزادانہ تجارتی مسابقت پر بندشیں عائد کی جائیں۔ سمتھ آزاد تجارت کے حق میں تھا۔

اس نے کثیر محصولات پر سخت جرح کی۔ اس کی بنیادی تنقید کاروبار اور آزاد منڈی میں حکومت کی بے جا مداخلت پر تھی۔ ایسی مداخلت تقریباً ہمیشہ معاشی استعداد کار کو متاثر کرتی ہے اورقیمتوں کی گرانی کی صورت میں منتج ہوتی ہے۔

سمتھ نے "Lasissez Faire" کی اصلاح اختراع نہیں کی۔ تاہم اس خیال کی تشہیر میں اس کاکردار سب سے اہم رہا۔چند لوگوں کا خیال ہے کہ آدم سمتھ محض کاروباری طبقہ کا حمایتی تھا۔ تاہم یہ خیال درست نہیں ہے۔ اس نے بار ہا سخت الفاظ میں کاروباری اجارہ دارانہ سرگرمیوں پر اعتراض کیا اوران کے خاتمہ پر اصرار بھی۔ نہ ہی وہ حقیقی کاروباری معاملات سے بے بہرہ تھا۔
ذیل میں دولت اقوام عالم سے ایک خاص اقتباس دیاجارہا ہے’’ایک ہی شعبے کے لوگ شاذ ہی باہم مل بیٹھتے ہیں، جبکہ ان کی گفتگو یاعوام کے خلاف کسی سازش پر منتج ہوتی ہے یا قیمتوں میں گرانی کی کسی حکمت عملی پر‘‘. سو اس خوبی کے ساتھ آدم سمتھ نے اپنے معاشی نظریاتی نظام کومربوط انداز میں پیش کیا کہ چند دہائیوں میں قدیم معاشی نظریاتی مکاتب فکر کالعدم قرار پائے۔
دراصل ان کے سبھی اہم نکات آدم سمتھ نے اپنے اندر سمولیے تھے، اورباقاعدہ انداز میں ان کے معائب کو آشکار کیا تھا۔ سمتھ کے پیروکاروں میں تھامس مالتھس اورڈیوڈ ریکارڈو جیسے اہم معیشت دان شامل تھے، جنہوں نے بنیادی تصورات کو تبدیل کیے بغیر اس کے نظام کی تصریح اور تصحیح کی اور اسے وہ صورت دی جوآج کلاسیک معاشیات کے نام سے جانی جاتی ہے اگرچہ جدید نظریہ معاشیات میں اس نے نئے تصورات اور طریقہ کار کا اضافہ کیا ہے۔
دولت اقوام عالم میں سمتھ نے ایک حد تک کثرت آبادی پر مالتھس کے نظریات کی بھی پیش گوئی کردی تھی۔ تاہم ریکارڈو اورکارل مارکس کا اصرار تھا کہ آبادی کا دبائو اجرتوں کوعمومی معاشی درجہ سے بڑھنے نہیں دیتا،

(اسے، اجرتوں کا نام نہاد آہنی قانون کہاجاتاہے) سمتھ نے واضح کیا کہ پیداوار کی بڑھوتری کی صورت میں اجرتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

بالکل اسی طور واقعات نے ثابت کیا کہ اس نقطہ پر آدم سمتھ درست تھا، جبکہ ریکارڈو اورمارکس غلط تھے۔ سمتھ کے نقطہ نظر کی درستی کے سوال یا بعد کے نظریہ سازوں پر اس کے اثرات سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ قانون سازی اور حکومتی حکمت عملیوں پر ان کے اثرات کس نوعیت کے تھے؟ دولت اقوام عالم بڑی صراحت کے ساتھ لکھی گئی۔ کاروباری اورتجارتی امور میں حکومتی عدم مداخلت، کم محصولات اور آزاد تجارت کے حق میں اس کے نقطہ نظر نے انیسویں صدی کے دوران حکومتی حکمت عملیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
آج بھی ان اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ معاشی نظریہ سمتھ کے بعدمتعدد تبدیلیوں سے گزرا ہے اوراس کے چند نظریات متروک بھی ہوچکے ہیں۔ آدم سمتھ کی اہمیت کو گھٹانا اگرچہ دشوار نہیں ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ معاشیات کو ایک منظم علم کی صورت دینے والابنیادی شخص وہی ہے۔ اس اعتبار سے انسانی فکری تاریخ میں اس کا شمار اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles