Antonie Van Leeuwenhoek 1632 To 1723 - Article No. 983

Antonie Van Leeuwenhoek 1632 To 1723

انتونی وان لیوونہاک 1723ء۔1632ء - تحریر نمبر 983

انتونی وان لیوانہاک‘جس نے جرثوموں کودریافت کیا‘نیدرلینڈز کے ایک قصبے ڈیلفٹ میں 1632ء میں پیدا ہوا۔اس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔

پیر 9 نومبر 2015

انتونی وان لیوانہاک‘جس نے جرثوموں کودریافت کیا‘نیدرلینڈز کے ایک قصبے ڈیلفٹ میں 1632ء میں پیدا ہوا۔اس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔جبکہ اس کی جوانی کابیشتر حصہ قصبے کی سرکاری انتظامیہ میں ایک ادنیٰ عہدے پرکام کرتے ہوئے گزرا۔
لیوونہاک کی دریافت کاسبب اس کاخوردبین سے مشاہدہ کرنے کی عادت تھی۔اس زمانے میں خوردبین بازار میں برائے فروخت موجود نہیں ہوتی تھی۔
لیوونہاک نے اپنے لیے یہ آلہ خود تیارکیا۔ وہ کوئی پیشہ ورعدسہ ساز نہیں تھا نہ اس شعبے میں اس نے کوئی تربیت حاصل کی تھی۔لیکن اس کی مشاکی واقعتا غیر معمولی تھی اور وہ اس دور کے پیشہ وروں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ تھی۔
مرکب خوردبین لیوونہاک سے قریب ایک نسل قبل ایجاد ہوچکی تھی،لیکن اس نے اسے استعمال نہ کیا۔

(جاری ہے)

اس کی بجائے اس نے مختصر طول ماسکہ(Focat) والے عدسوں کومحتاط اور درست انداز میں رگڑ کرنرم کیا،جس سے اسے زیادہ طاقت والے عدسے حاصل ہوئے جو پہلی کسی مرکب خوردبین میں موجود نہیں تھے۔

اس کاہمارے پاس موجود ایک عدسہ اشیاء کو 270گنا مکبر بنا کرپیش کرتا ہے۔جبکہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ وہ اس سے زیادہ طاقت والے عدسے تیارکرنے میں بھی کامیاب ہوگیا تھا۔
لیوونہاک ایک انتہائی متحمل اور محتاط مشاہد تھا۔اس کی ذات گہری بصیرت اور بے کنار تجس سے عبارت تھی۔اپنے نفیس عدسوں کی مدد سے اس نے متنوع اشیاء کا مشاہدہ کیا جس میں انسانی بال سے لے کرکتے کے مادہ منویہ اور آب باراں میں رینگتے ننھے کیڑوں تک سبھی اشیاء شامل تھیں۔
جیسے اعضاء کے پٹھے جلد کے ریشے اور متعدد دیگر نمونہ جات۔ساتھ ساتھ وہ اپنے مشاہدات کولکھتا رہا‘ان اشیاء کی اس نے تفصیلی تصاویر بھی بنائیں۔
1673ء کے بعد لیوونہاک نے انگلستان کی”رائل سوسائٹی“ سے خط وکتابت شروع کی۔جو اس دور کاممتاز سائنسی ادارہ تھا۔ اعلیٰ تعلیم سے اپنی محرومی کے باوصف (اس نے سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی) اسے”ڈچ“کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں آتی تھی1680ء میں اس ادارے کاایک رکن منتخب ہوگیا۔
وہ پیرس میں ”اکیڈمی آف سائنسز“ کا بھی نمائندہ بنا۔
لیوونہاک نے دومرتبہ شادی کی ‘اس کے چھ بچے ہوئے۔وہ اچھا صحت مند آدمی تھا‘زندگی کے آخری برسوں میں بھی وہ تندہی کے ساتھ کام کرتا رہا۔بڑے بڑے اکابرین اس سے ملاقات کوآئے‘ جن میں زارروس”پیٹراعظم“ اور ملکہ انگلستان شامل ہیں۔ 1723ء میں وہ نوے سال کی عمر میں ڈیلفٹ میں فوت ہوا۔

لیوونہاک نے متعدد اہم دریافتیں کیں۔وہ پہلا شخص تھاجس نے 1677ء میں کرم منی (Spermatoza) کی وضاحت کی۔ وہ خون کے سرخ ذرات کی تصریح کرنے والے ابتدائی لوگوں میں بھی شامل ہے۔اس نے حیات کی ادنی انواع کی ازخودتولید کے نظریہ کی بھی تردید کی اس کے خلاف شواہد اکٹھے کیے۔مثال کے طور پر اس نے یہ ثابت کیاکہ پسوایک عمومی طریقے پر دار کیڑوں میں بدل جاتا ہے۔

اس کی سب سے اہم دریافت1674ء میں سامنے آئی۔جب اس نے پہلی بار جرثوموں کی موجودگی ثابت کی۔یہ انسانی تاریخ میں دس عظیم منوی(Seminat) دیافتوں میں شمار ہوتی ہے۔ایک قطرہٴ آب کے بھیتر‘لیوونہاک نے ایک یکسرنئی دنیا کا سراغ لگایا۔ایک قطعی غیر معلوم دنیا جو حیات سے مملو تھی۔تاہم اس کواس امرکاخود بھی ادراک نہیں تھا کہ یہ نئی دنیا انسانیت کے لیے کس قدر اہم تھی۔
وہ ننھے ننھے جرثومے جن کااس نے مشاہدہ کیا‘انسانوں کی موت اور حیات کی توانائی کے حامل تھے۔ایک بار ان کامشاہدہ کرنے کے بعد لیوونہاک متعدد دیگر جگہوں پر ان کی موجودگی کو شناخت کرنے کے قابل ہوگیا۔ کنوؤں اور جوہڑوں میں‘آپ باراں میں ‘انسانی منہ اور آنتوں کے اندر۔اس نے متعدد انواع کے بیکٹیریا دریافت کیے اور ایک خلوی جانوروں کی نشاندہی اور ان کے متنوع اجسام کی درجہ بندی کی۔

تاہم لیوونہاک کی عظیم دریافتوں کاعملی اطلاق دو صدیوں کے وقفہ کے بعد پاسچر کے دور میں ہی ممکن ہوسکا۔ درحقیقت انیسویں صدی تک عملی طور پر علم خردحیاتیات (Microbiology) کے موضوع پر تحقیق کارجحان غالب رہا۔پھر پیچیدہ خوردبینیں ایجاد ہوئیں۔یہ نقطہ اپنی جگہ بجاہے کہ اگرلیوونہاک نہ ہوتا اور انیسویں صدی تک اس کی دریافتیں منظر عام پر نہ آتیں تو اس سے سائنس کی مجموعی ترقی میں چنداں فرق نہ آتا۔
لیکن اس امر میں بھی کوئی کلام نہیں ہے کہ لیوونہاک نے جرثوموں کاوجود دریافت کیا۔ اسی کے توسط سے سائنس کی دنیا اس مخلوق سے آگاہ ہوئی۔
لیوونہاک کے متعلق اکثریہ رائے دی جاتی ہے کہ اتفاقیہ طور پر وہ ایسی اہم سائنسی دریافتیں کرنے کے قابل ہوا‘یہ درست نہیں ہے۔اس کی جرثوموں کی دریافت اس کی بے نظیر طاقت والی خوردبین کی متحاط تیاری اور بطور محقق اس کے تحمل اور درست نگاہی کاایک فطری نتیجہ تھی۔
باالفاظ دیگر اس کی دریافت اس کی مشاقی اور محنت شاقہ کے اشتراک کانتیجہ تھی۔یعنی محض خوش بختی کا یکسر تضاد۔
جرثوموں کی دریافت ان چند حقیقی اہمیت کی حامل سائنسی دریافتوں میں سے ایک ہے جن کاسر ایک ہی شخص کے سر باندھا گیا۔ لیوونہاک نے تنہا کام کیا۔بیکٹیریا اور یک خولی جانداروں کی دریافت غیر متوقع تھی اور حیاتیات کی دیگر دریافتوں کے برعکس ایک اعتبار سے گزشتہ حیاتیاتی علم کی فطری نموکا حصہ نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس کی دریافت کے اطلاقات کی اہمیت کے پیش نظر اسے اس فہرست میں نمایاں درجہ دیا گیا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles