Constantine Azam - Article No. 1766

Constantine Azam

کانسٹنٹائن اعظم - تحریر نمبر 1766

کانسٹنٹائن اعظم روم کا پہلا عیسائی شہنشاہ تھا ۔اس کے عیسائیت اختیار کرنے اور اس کے فروغ کے لیے اس کی حکمت عملیوں کے سبب ہی یہ ایک معتوب مسلک کی بجائے یورپ کے ایک غالب مذہب کی صورت اختیار کر گیا

جمعرات 13 ستمبر 2018

مائیکل ہارٹ

کانسٹنٹائن اعظم روم کا پہلا عیسائی شہنشاہ تھا ۔اس کے عیسائیت اختیار کرنے اور اس کے فروغ کے لیے اس کی حکمت عملیوں کے سبب ہی یہ ایک معتوب مسلک کی بجائے یورپ کے ایک غالب مذہب کی صورت اختیار کر گیا۔کانسٹنٹائن کی پیدائش قریب 280ء عیسوی میں نائسس کے قصبہ میں ہوئی ۔اس کا باپ ایک اعلیٰ مراتب کا فوجی افسر تھا۔ کانسٹنٹا ئن کا عالم جوانی نیکو میڈیا میں بسر ہوا،جہاں شہنشاہ ڈائیو کلیٹن کا دربار واقع تھا ۔

305ء میں ڈائیو کلیٹن تخت سے دست بردار ہوا تو کا نسٹنٹائن کا باپ سلطنت روما کے مغربی نصف حصے کا فرما نروابن گیا ۔اگلے برس کا نسٹیٹیس چل بسا تو اپنے فوجی دستوں کے بل پر کانسٹنٹائن شہنشاہ بن گیا ۔دیگر سپہ سالاروں نے اس کے دعویٰ کو نامنظور کیا ۔

(جاری ہے)

یوں خانہ جنگیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ سلسلہ 312ء میں ختم ہوا جب کانسٹنٹائن نے اپنے حریف میکسن ٹیس کو روم کے نزدیک میلوین برج کی جنگ میں شکست فاش دی ۔

کانسٹنٹائن سلطنت کے مغربی نصف کا غیر متنازعہ شہنشاہ بن گیا ۔جبکہ مشرق نصف پر دوسرا سپہ سالار لیسی نیس حکمران رہا ۔323ء میں کانسٹنٹائن نے لیسی نیس پر حملہ کرکے اسے شکست دی ۔اس کے بعد 337ء میں اپنی موت تک وہ سلطنت روما کا واحد شہنشاہ رہا ۔اس بارے میں البتہ صحیح ترین معلومات ہمیں حاصل نہیں ہیں کہ وہ کب میسحیت کے دائرے میں آیا ۔عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ میلوین برج کی جنگ سے کچھ پہلے کا نسٹنٹائن نے آسمان میں ایک آتشیں صلیب دیکھی ‘جس پر یہ الفاظ لکھے تھے:”اس نشان کے صدقے تمہیں فتح نصیب ہو گی “۔
اس سے قطع نظر کہ وہ کیسے یا کب عیسائی بنا‘یہ حقیقت ہے کہ عیسائیت کے فروغ کے لیے کمر بستہ رہا۔اس کے اولین اقدامات میں سے ایک اس کا میلان سے جاری ہونے والا فرمان تھا‘جس کے تحت عیسائیت ایک قانونی اور قابل مذہب بن گیا تھا ۔فرمان کے تحت تمام املاک کلیسا کو لوٹادی گئیں ‘جو گذشتہ ایذار سانی کے دور میں اس سے چھینی گئی تھیں ۔اسی دور میں اتوار کا دن عبادت کے لیے مختص کیا گیا۔
میلان کے فرمان کے تحت مذہبی بردباری کے عموی جذبات کو تحریک نہیں ہوئی بلکہ اس کے برعکس کانسٹنٹائن کا دور یہودیوں کی سرکاری ایذار سانی کے آغاز کا اشاریہ ہے ‘جو بعدازاں کئی صدیوں تک مسیحی یورپ میں جاری رہا۔کانسٹنٹائن نے خود کبھی عیسائیت کو ریاستی مذہب قرار نہیں دیا۔تا ہم خاص قانون سازی اور دیگر حکمت عملیوں کے ذریعے اس نے اس کے پھیلاؤ کے لیے مساعی کیں ۔
اس کے دور میں سب پر یہ واضح کردیا گیا کہ عیسائیت کو اپنا لینے کا مطلب اعلیٰ حکومتی عہدوں تک رسائی سفر کو آسان بنا دینے کے مترادف تھا۔ اس کے فرامین نے کلیسا کو متعدد ثمر آور مراعات اور تحفظات عطا کیے ۔اسی دور میں وہاں دنیا کی انتہائی مشہور کلیسائی عمارات تعمیر ہوئیں ۔جیسے یبتھ لیہم میں ناٹی ویٹی کا کلیسا اور یروشلم میں مقدس مزار کا کلیسا۔
روم کے پہلے عیسائی شہنشاہ کا کردار بجائے خود اسے اس فہرست میں جگہ دینے کے لیے کافی ہے ۔تا ہم اس کے متعدد دیگر اقدامات بھی دور رس ثابت ہوئے ۔اس نے قدیم بازنطینی شہر کو ا زسر نو تعمیر کیا ۔اسے کانسٹنٹی نوپل کا نام دیا اور اسے اپنا دارلحکومت بنا لیا ۔کانسٹنٹی نوپل(جو آج کل استنبول کہلاتا ہے )دنیا کے چند بڑے شہروں میں سے ایک بن گیا ۔1453ء تک یہ مشرقی سلطنت روما کا دارلحکومت بنا رہا ۔
صدیوں بعد یہ اوٹومان سلطنت کا بھی دارا لخلافہ بنا۔کانسٹنٹائن نے کلیسا کی داخلی تاریخ میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔آریس اور ”ایتھنے سیس“کے بیچ تنازعات کے حل کے لیے دونوں علماء ماہرین الہیات تھے اور آپس میں شدید اختلافات رکھتے تھے ۔کانسٹنٹائن نے 325ء میں نکا شیا کی مجلس کی بنیاد رکھی اور اپنی مساعی سے اس میں روح پھونک دی ۔یہ کلیسا کی پہلی عوامی مجلس تھی‘جس میں کانسٹنٹائن نے بھر پور حصہ لیا ۔
وہ راسخ نظریاتی کلیسائی عقائد تھے۔اس سے بھی کہیں زیادہ اہم اس کی عوامی قانون سازی تھی۔کانسٹنٹائن نے ان لوگوں کا تعارف پیش کیا‘جو مختلف مشاغل اور وراثت کا سبب بنے۔ا س نے ایک اور فرمان جاری کیا‘جس کی روسے کولونی (مزار عون کا ایک گروہ)کو اپنی زمینوں کے حقوق سے محروم کردیاگیا۔جدید اصطلاع میں اس فرمان نے کولونی کوغلام بنا دیا۔
یعنی انہی لوگوں کو ہیچ بنا دیا‘جو مستقل طور پر زمین سے جڑے رہتے تھے ۔ایسے ہی اقدامات نے قرون وسطی کے یورپ کے مکمل سماجی ڈھانچے کے لیے بنیادیں استوار کیں ۔کانسٹنٹائن نے بستر مرگ پر اپنا بیتسمہ کروایا ۔جبکہ وہ اس واقعہ سے بہت پہلے عیسائی بن چکا تھا ۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیت کے روحانی اسباق نے اس مکمل طور پر چکرادیاتھا ۔وہ اس دور کے حساب سے بھی ایک سفاک اور بے رحم انسان تھا اور صرف اپنے دشمنوں کے لیے ہی ایسا نہیں تھا ۔
چند وجوہات کی بناء پر جو مبہم ہیں 326ء میں اس نے اپنی بیوی اور بڑے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔یہ جواز پیش کیا جاسکتا ہے کہ کانسٹنٹائن کے عیسائیت کو قبول کرلینے کے واقعہ نے تاریخ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔بلکہ یہ محض ایک ناگزیز واقعہ تھا ۔اگر چہ شہنشاہ ڈائیو کلیشن نے (جس کا دور حکومت 284ء305ء تک ہے )عیسائیت کے خلاف سنگین اقدامات کیے ۔
لیکن اس کی مساعی اس مذہب کو دبا نے میں نا کام رہیں ۔کیونکہ اس وقت تک عیسائیت اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ ایسے سنگین اقدامات کے ذریعے اسے اکھاڑناناممکن تھا۔اس امر کے پیش نظر ڈائیوکلیٹن عیسائیت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا تھا ۔ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اتنی مضبوط تھی کہ کانسٹنٹائن نہ بھی ہوتا‘اس کے پھیلاؤ میں تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔
ایسے مفروضات دلچسپی سے خالی نہیں ہیں تا ہم یہ نامکمل ہیں ۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کانسٹنٹائن کے بغیر کیا صورت حال ہوتی ؟تا ہم یہ واضح ہے کہ اس کی پشت پنا ہی کے ساتھ عیسائیت اپنے پیروکاروں کی تعداد اور اپنے اثرات کے حوالے سے خوب پروان چڑھی ۔ایک مختصر گروہ کے مسلک کی بجائے یہ ایک ہی صدی میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا ایک غالب اور مضبوط مذہب بن گئی۔کا نسٹنٹائن یورپی تاریخ کی ایک مرکزی شخصیت تھی۔اسے یہاں سکندر اعظم ‘نپولین اور ہٹلر جیسی معروف شخصیات سے بلند درجہ اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ اس کی حکومت عملیوں کے اثرات بہر کیف دیرپاتھے۔

Browse More Urdu Literature Articles