Euclid - Article No. 1768

Euclid

اقلیدس - تحریر نمبر 1768

چند ہی لوگوں کو تاریخ میں اس قدر شہرت حاصل ہوئی ‘جتنی اس عظیم یونانی مہندس Geometer)کو ملی ۔اگر چہ نپو لین ‘سکندر اعظیم اور مارٹن لوتھروغیرہ کو اپنی زندگی میں ہی اقلیدس سے کہیں بڑھ کرشہرت عام ملی

ہفتہ 15 ستمبر 2018

اقلیدس(300قبل مسیح )
چند ہی لوگوں کو تاریخ میں اس قدر شہرت حاصل ہوئی ‘جتنی اس عظیم یونانی مہندس (Geometer)کو ملی ۔اگر چہ نپو لین ‘سکندر اعظیم اور مارٹن لوتھروغیرہ کو اپنی زندگی میں ہی اقلیدس سے کہیں بڑھ کرشہرت عام ملی‘لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کی مقبولیت میں دوسروں کی نسبت زیادہ اضافہ ہوا۔اس شہرکے باوجود ہمیں اقلیدس کی سوانح حیات کی بابت ہم معلومات حاصل ہیں ۔

جانتے ہیں کہ وہ سکندر یہ مصر میں 300قبل مسیح میں ایک فعال استاد تھا ۔تا ہم اس کی پیدائش اور موت کی تواریخ غیر معلوم ہیں ‘ہم یہ جانتے کہ و ہ کسی براعظم میں پیدا ہوا‘اور نہ ہی یہ کہ کسی شہر میں ۔حالانکہ اس نے متعدد کتب تحریر کیں ۔جن میں سے چند ایک ہی باقی بچی۔تاریخ میں اسے یہ قدرومنزلت‘اس کی عظیم کتاب”عناصر “(Elements)کی بدولت ملی۔

(جاری ہے)

”عناصر“کی اہمیت ا س میں موجود نظریات کے باعث نہیں ہے۔اس کتاب میں موجود قریب سبھی نظریات اقلیدس سے پہلے بھی پیش کیے جاچکے تھے۔اقلیدس کا سب سے اہم کام تو مواد کی ترتیب بندی اور کتاب کی ساخت کی تشکیل سازی ہے ۔پہلے تو مقولات اور مفروضات کے ایک موزوں مجموعہ کا انتخاب کرنے کا مرحلہ تھا۔(یہ ایک دشوار مرحلہ تھا‘چونکہ اس میں غیر معمولی قوت فیصلہ اور گہری بصیرت کی ضرورت تھی)۔
تب اس نے احتیاط کے ساتھ ان مفروضات کو ترتیب دی‘تاکہ ہر ایک اپنے پیش رو سے منطقی طور پر جڑا ہوا معلوم ہو‘جہاں ضروری محسوس ہوا‘وہاں اپنی طرف سے اجزاء پیدا اور شواہد بھی فراہم کیے۔یہ امرقابل غور ہے کہ ”عناصر“جوبنیادی طور پر سادہ اور ٹھوس علم ہند سہ کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے‘الجبراور اعداد کے نظریہ کا بھی تفصیلی احاطہ کرتی ہے ۔
کتاب”عناصر“گزشتہ دو ہزار برسوں سے زائد عرصہ سے نصابی کتاب کے طور پر پڑھائی جارہی ہے ۔یہ بلامبالغہ ایک کامیاب ترین نصابی کتاب ہے۔اقلیدس نے ایسے شاندار انداز میں اسے لکھا کہ اس کی اشاعت کے بعد یہ علم مہندسہ کی تمام سابقہ نصابی کتب پر افضل ہوگئی‘اور انہیں جلد ہی فراموش کردیا گیا۔یہ یونانی میں لکھی گئی۔اب تک یہ متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے۔
پہلی باریہ 1482ء میں باقاعدہ طور پر طبع ہوئی‘یعنی جب گٹن برگ کو چھاپہ خانہ ایجاد کیے تیس برس ہی گزرے تھے‘تب سے اب تک قریب ہزاروں مختلف ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں ۔منطقی دلیل کی ہےئت کے مطابق اس نے انسانی اذہان کی تربیت کی۔یہ ارسطو کے منطق پر مقالات سے کہیں زیادہ اثر انگیزثابت ہوئی۔یہ ایک مکمل استخراجی ڈھانچے کی ایک غیر معمولی مثال ہے۔
اپنی تخلیق کے لمحہ سے ہی یہ مفکرین کو متاثر کررہی ہے۔یہ کہنا بجا ہے کہ جدید سائنس کے فروغ میں اقلیدس کی کتاب نے ایک اہم کردار اداکیا۔سائنس متعدد درست مشاہدات اور پر اثر مفروضات کے ایک مجموعہ کے سواکچھ ہے۔ایک طرف تویہ جدید سائنس کی عظیم ترقی‘تجربیت اور آزمائش کے اشتراک سے پھوٹی۔دوسرے طرف یہ ایک محتاط تجزیہ اور استخراجی دلیل ہے۔
ہمیں اس بارے میں کچھ زیادہ علم نہیں ہے کہ سائنس کا فروغ یورپ کی بجائے چین یا جاپان میں کیوں نہیں ہوا؟لیکن یہ کہنا بہر طور ممکن ہے کہ یہ محض کسی اتفاق کے تحت نہیں ہوا۔بلاشبہ نیوٹن ‘گلیلیو‘کوپرنیکس اور کیلر جیسی عظیم ہستیاں بے انتہا اہمیت کی حامل ہیں ۔تا ہم یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں مذکورہ بالا شخصیات مشرق کی بجائے بالخصوص یورپ میں پروان چڑھیں ؟غالبا انتہائی بین تاریخی عنصر جو مغربی یورپ میں سائنس کم تخم ریزی کر رہاتھا‘وہ یونانی عقلیت پسند ہی تھی ‘یہ ریا ضیاتی علم بھی ساتھ ساتھ رہا‘جو یونانی وراثتاََ چھوڑ گئے تھے۔
یورپی لوگوں کے لیے یہ چند ایسے طبعی قوانین ہیں ‘جن سے ہر شے مستخرج کی جاسکتی ہے ‘یکسر فطری تھا‘کیونکہ ان کے پاس اقلیدس کی مثال تھی(مجموعی طور پریورپی اقوام کے علم ہند سہ کو محض ایک مجردنظام ہی نہیں سمجھتے تھے‘ان کا خیا ل تھا کہ اقلیدس کے اصول موضوع اور کلیے ‘ایک حقیقی دنیا کے حقائق ہیں )۔مذکورہ بالا تمام شخصیات اقلیدس کی روایت سے ہی سر شار تھیں ۔
ان میں سے ہر ایک نے ”عناصر“کا بغورمطالعہ کیا تھا اور اسی سے ان کے ریاضیاتی علم کی اساس قائم ہوئی۔آئزک نیوٹن پر اقلیدس کے اثرات خاص طور پر بہت واضح ہیں ۔نیوٹن نے اپنی کتاب (Principia)ہندساتی ہےئت میں ہی تحریر کی ‘جو ”عناصر“کی ہےئت سے مماثل ہے۔تب سے دیگر اہم مغربی سائنس دانوں نے یہ ثابت کرکے اقلیدس کی تقلید کی ہے‘کہ کس طرح ان کے نتائج ابتدائی مفروضات کی ایک ہی مختصر تعداد سے منطقی طور پر مستنبط کیے جاسکتے ہیں ۔
برٹرینڈرسل اور الفرڈنارتھ وائٹ ہینڈ جیسے ماہرین ریاضیات اور سپنوزا جیسے فلسفی نے ایسا ہی کیا۔چین سے موازنہ خاصا عجیب ہے‘صدیوں تک اس کی ٹیکنالوجی یورپ سے بدر جہا بہتر رہی‘لیکن چینیوں میں اقلیدس کا ہم پلہ کوئی ماہر علم ہند سہ کا پیدا نہ ہوا۔نتیجتاچینی کبھی ریاضیات کی وہ نظر یاتی ہےئت نہ پا سکے‘جو مغرب کو حاصل ہوئی (چینیوں کو عملی علم ہندسہ میں بڑا عبور تھا ‘لیکن ان کا یہ علم کبھی استخراجی طریقہ کار کے ذریعے تشکیل نو نہیں پاسکا)۔
1600ء تک اقلیدس کا چینی زبان میں ترجمہ ہی نہ ہو سکا۔پھر چینیوں کے لیے علم ہندسہ کے استخراجی نظام کے تصور سے مانوس ہونے میں بھی صدیاں بیت گئیں ۔اور جب تک ایسا نہ ہوا‘چینی سائنس میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کرسکے ۔ایسی ہی رائے جاپان کے بارے میں بھی دی جاسکتی ہے ‘جہاں اقلیدس کے کام کا اٹھارہویں صدی عیسوی تک کسی کو علم نہ سکا ‘اور پھر اس کو قابل قبول ہونے کے لیے بھی سالہا سال کا عرصہ لگا۔
اگر چہ جاپان میں آج متعدد قابل قدر سائنس دان موجود ہیں
‘لیکن اقلیدس سے شناسائی پیداہونے سے پہلے ایسا ان میں کوئی ایک بھی نہیں تھا‘لامحالہ ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یورپی اقوام کے لیے اقلیدس راہ ہموار نہ کرتا تو کیا سائنس میں اس قدر ترقی ان کے لیے ممکن ہوپاتی۔آج ماہرین ریاضیات نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ اقلیدس کا علم ہندسہ ہی صرف ایک خود مکتفی ہندساتی نظام نہیں ہے‘جسے اختراع کیا جاسکتا ہے ۔
گزشتہ 150برسوں میں اقلیدسی نظام کے علاوہ متعدد ہندساتی نظام اختراع کیے گئے ہیں ۔جب سے آئن سٹائن کااضافیت کاعمومی نظریہ قبول کیا گیاہے‘سائنس دانوں کو اس امر کا قوی احساس ہو ا کہ اقلیدس کاعلم ہندسہ ہمیشہ ایک حقیقی دنیا میں درست نتائج کا سبب نہیں بنتا۔روزن سیاہ(Black holeo)اور نیوٹران ستاروں کے قرب وجوار میں جہاں کشش ثقل کی قوت انتہائی شدید ہے‘اقلیدس کا علم ہندسہ‘صورت حال کا ایک درست خاکہ پیش نہیں کرپاتا۔
تاہم یہ مثالیں مخصوص ہیں ‘بیشتر مثالوں میں اقلیدسی نظام ہندسہ حقیقت کازیادہ سے زیادہ درست خاکہ پیش کرنے میں کامیاب ہوتاہے۔انسانی علم میں موجود ہ ترقی کسی بھی صورت میں اقلیدس کی عقلی برتری کوکم نہیں کرتی ۔نہ ہی ریاضیات کی ترقی میں اس کی تاریخی اہمیت میں کوئی تخفیف کرپاتی ہے ‘اور نہ ہی اس منطقی ڈھانچے کی استواری میں حائل ہوتی ہے‘جو جدید سائنس کی بڑھوتری کے لیے ضروری ہے ۔

Browse More Urdu Literature Articles