Francisco Pizarro - Article No. 1763

Francisco Pizarro

فرانسسکو پیزارو - تحریر نمبر 1763

ہفتہ 8 ستمبر 2018

مائیکل ہارٹ

ناخواندہ ہسپانوی مہم جو فرانسسکو پیز ارو‘جس نے پیرو میں ان کا سلطنت کو فتح کیا ‘سپین کے شہر ٹرو جیلو میں 1475ء میں پیدا ہوا ۔ہر نیندو کورٹیز کی طرح ‘جس کے متعدد کارنامے اس سے مماثل ہیں ‘پیزارو شہرت اور دولت کے لالچ میں نئی دنیا میں وارد ہوا ۔ 1502ء سے1509ء تک کریبےئن جزیرے ہسپانیولا میں مقیم رہا ‘جس پر اب ہیٹی اور ڈومینیشین جمہوریہ موجود ہے ۔

1513ء میں وہ ایک بحری مہم میں شریک ہوا جس ک سربراہ واسکونونیزڈی بالبو و تھا ‘جس نے بحرالکاہل کو دریافت کیا تھا ۔1519ء میں وہ پنامامیں ٹھہر گیا ۔1522ء میں جب پیزا رو کی عمر سنتالیس برس تھی ۔اسے وہاں آنے والے ایک ہسپانوی مہم جو پا سکول ڈی اینڈ گوے سے ”انکا“سلطنت ‘کے بارے میں علم ہوا ۔

(جاری ہے)

پیزارو ‘ہر نیند و کوریٹز کی میکسیکو کی فتح سے بہت متاثر تھا ۔

اس نے خود ”انکا “سلطنت کی فتح کرنے کا فیصلہ کیا ۔1524-25ء میں اس نے اولین کلوش کی جوناکام ثابت ہوئی ۔اس کے دو جہازوں کو پیرو پہنچنے سے پہلے ہی لوٹنا پڑا ۔1526ء میں اپنے دوسرے حملے میں وہ پیرو کی بندرگاہ تک جاپہنچا ‘جہاں سے وہ سونے ‘لامااونٹ اور ہندو ستانی قیدیوں کے ساتھ لوٹا۔1528ء میں وہ سپین واپس آیا ۔اگلے برس شہنشاہ چارلس پنجم نے اسے سپین کے لیے پیرو کو فتح کرنے کا اختیار دیا اور اس میم کے لیے مالی امدد مہیا کی ۔
پیزارو پناما واپس آیا‘جہاں اس نے حملے کی تیاری کی ۔1531ء میں وہ پناما سے روانہ ہوا۔ تب اس کی عمر چھپن برس تھی۔ اس کی فوج میں دوسوسے کم سپاہی تھے‘جبکہ جس سلطنت کو وہ فتح کرنے جارہا تھا ‘اس کی آبادی چھ ملین سے بھی زیادہ تھی۔اگلے برس پیزارو پیرو کی بندرگاہ تک پہنچا۔ ستمبر 1532ء میں 177سپاہوں اور باسٹھ گھوڑوں کی ہمرا ہی میں وہ جزیرے میں داخل ہو گیا ۔
وہ ایک قصبے ”کاجامارکا“ تک فرمانروا /15نومبر1532ء میں پیزارو کا دستہ ”کاجامارکا“پہنچا۔ اگلے روز پیزاروکی درخواست پر ”اتاہولپا“نے اپنی فوجوں کو پیچھے چھوڑ ا اور قریب پانچ ہزار غیر مسلح مردوں کے ساتھ پیزارو سے مذاکرات کرنے آیا۔جیساکہ ”اتاہولیا“اچھی طرح سے جانتا تھاکہ پیزارو ایک دھوکہ بازآدمی تھا ۔بندرگاہ پر ان کے جہاز لنگر انداز ہونے کے بعد سے ہسپانیوں نے جس بے رحمی اور سفاکی کامظاہرہ کیا تھا اس کے پیش نظریہ سمجھنا دشوار ہے کہ ”اتاہولیا“نے پیزارو کے دستے کو بغیر مزاحمت کے کاجامار کا تک پہنچنے کی کیونکر اجازت دی ؟اگر یہ ہندوستانی تنگ پہاڑی راستوں پر ان پرحملہ آور ہوتے جہاں ان کے گھوڑے یکسربے کارتھے ‘تو وہ ہسپانوی فوج کو مکمل صفا چٹ کر دیتے ۔
پیزا رو کے ”کاجامار کا“ میں پہنچنے کے بعد ”اتاہولیا“کارویہ خاصا حیران کن تھا ۔ایک دغاباز فوج سے قطعی غیر مسلح ہو کر مذاکرات کے لیے جانا سراسر حماقت تھی ۔یہ اسرار صرف اسی حقیقت کے سبب قابل فہم ہو سکتا ہے کہ ”انکار“کی فوج کا ایک حربہ گھیراؤ کرنا بھی تھا ۔پیزارو نے اس سنہری موقع کو ضائع نہیں ہونے دیا۔اس نے اپنے دستوں کو ”اتاہولیا“اور اس کے غیر مسلح ساتھیوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا ‘یہ جنگ ‘جسے قتل عام ہی لکھنا چاہیے‘قریب نصف گھنٹہ جاری رہی۔
کوئی ایک ہسپانوی سپاہی اس میں ہلاک نہ ہوا‘پیزارو کو البتہ کچھ زخم آئے ۔جو ”اتاہو لیا“کو زندہ گرفتار کرتے ہوئے اسے لگے۔پیزارو کی حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی ۔”انکا“سلطنت کا نظام مرکز یت کا حامل تھا‘تمام اختیارات ”انکا“یا حکمران کو حاصل تھے ‘جسے ہندوستانی نیم دیوتائی وجود تسلیم کرتے تھے ۔”انکا“کی اسیری کے بعد ہندوستانی فوجیں ہسپانیوں کے خلاف لڑنے کے قابل نہیں رہی تھیں ‘دوبارہ آزادی کی امید میں ”انکار“نے پیزارو کو بے پایاں سونے اور چاندی کی صورت میں تاوان اداکیا۔
جس کی قیمت اندازا28ملین ڈالر سے بھی زیادہ تھی ۔تاہم چند مہینوں میں ہی پیزارو نے اسے قتل کردیا ۔نومبر 1533ء میں ”اتاہولیا“کی گرفتاری کے ایک سال بعد پیزارو کے دستے ”انکار“کے دارالخلافہ ”کوزکھ“میں کیا۔1535ء میں اس نے لیما شہر کی بنیاد رکھی جو پیرو کانیا دارالحکومت بنا۔1536ء میں یہ کٹھ پتلی ”انکا“فرار ہو گیا اور ہسپانیوں کے خلاف بغاوت کر دی ۔
کچھ مدت کے لے پیزارو کی فوجیں ”لیما“اور ”کوزکو“میں محصور بھی ہوئیں ۔لیکن اگلے برس تک ہسپانوی ملک کے بیشتر حصہ پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گے ۔تا ہم اس بغاوت کا مکمل قلع قمع1572ء میں ہوا ۔تب تک پیزارو خود فوت ہو چکا تھا ۔پیزارو کا زوال تب شروع ہوا جب ہسپانیوں نے آپس میں ہی لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا۔پیزارو کے ایک قریبی رفیق ڈیا گودی الماگرو نے 1537ء میں بغاوت کردی ۔
اس کی شکایت یہ تھی کہ پیزارو لوٹ مار میں اسے مناسب حصہ نہیں دیتا تھا ۔تاہم الماگرو کو گرفتار کرکے قتل کردیا گیا۔لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں تھا ۔1541ء میں الماگروکے پیروؤں کے ایک گروہ نے لیما میں پیزا رو کے محل پر ہلہ بول دیا اور اس 66برس کے رہنما کو قتل کردیا ‘جبکہ اسے ”کوزکو“میں کامیابی سے داخل ہوئے فقط آٹھ برس ہوئے تھے ۔فرانسسکو پیزارو نڈر ‘اولوالعزم اور مکار انسان تھا ۔
ذاتی طور پر وہ ایک کٹر مذہبی شخص تھا ‘جبکہ یہ روایت ہے کہ مرتے ہوئے ا س نے خون سے زمین پر ایک صلیب بنائی جبکہ آخری لفظ جو اس نے ادا کیا ”یسوع “تھا ۔وہ ایک بے انتہا حریص‘سفاک ‘پرجوش اور دغاباز آدمی تھا ۔وہ انتہائی سنگ دل فاتحین میں شمار ہوتا ہے ۔تا ہم پیزارو کا درشت کردار ہمیں اس کی عسکری کا میابیوں کے اعتراف سے باز نہیں رکھ سکتا ۔
1967ء میں جب اسرائیلیوں نے عربوں پر ایک ڈرامئی فتح حاصل کی ‘جو تعداد میں ان سے بہت زیادہ تھے ‘اور جن کے پاس کہیں زیادہ اسلحہ بھی تھا تو متعدد افراد کو اس واقعہ پر حیرت ہوئی ۔یہ ایک متاثر کن فتح تھی ۔تا ہم تاریخ ایسی فتو حات کی مثالوں سے اٹی ہوئی ہے ‘جس میں مفتو حین کی فوجیں تعداد میں بہت زیادہ تھیں ۔نپولین اور سکندر اعظم نے بڑی بڑی فوجوں کے خلاف فتو حات حاصل کیں ۔
چنگیزخان کے جانشینوں کی زیر سر کردگی منگولوں نے چین کو فتح کیا جو ان کے ملک سے قریب 30گنا زیادہ آبادی پر مشتمل تھا ۔تا ہم پیزارو کا چھ ملین سے زیادہ آبادی والی سلطنت کو فقط 180سپاہیوں کی مدد سے فتح کرلینا ‘تاریخ کے حیران کن واقعات میں سے ایک ہے ۔سپاہیوں کی جس تعداد پر اس نے غلبہ پایا‘اس سے زیادہ ہے جس کا سامنا کورٹیز کو ہوا ‘جس نے قریب پانچ ملین آبادی پر مشتمل ایک سلطن کو 600سپاہیوں کی مدد سے تاراج کیا ۔
کیا سکندر اعظم یا چنگیز خان ‘پیزرو کی فتوحات کے ہم پلہ کارناموں کے حامل ہیں ؟میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے ‘کیونکہ دونوں میں سے کوئی اس قدر سفاک نہیں تھا کہ وہ ایسے نہتے لوگوں پر فتح حاصل کرنے کی کوشش کرتے ۔ہاں ! یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہسپانوی آتشیں اسلحہ نے انہیں غالب حیثیت دی تھی ۔ایسا بھی نہیں تھا ۔اس دور میں ”آرکیویوسر“نامی ایک آتشیں گولہ پھینکنے والا ہتھیار چھوٹے علاقے میں بمباری کر سکتا تھا جبکہ اس میں دوبارہ دوبارود بھرے میں خاصا وقت درکار ہوتا ۔
اس میں ایک دہشت زدہ کردینے والی چیخ بھی پیدا ہوئی تھی ‘لیکن یہ ہتھیار عمدہ کمان اور تیرے سے بھی کم موثر تھا ۔جب پیزارو ”کاجامارکا “میں داخل ہوا تو اس کے فقط تین سپاہیوں کے پاس ”آزکی بیوسز“ہتھیار تھے اور بیس سے زائد تیرا انداز نہ ہوں گے ۔جبکہ بیشتر ہندو ستانیوں کا قتل روایتی ہتھیاروں جیسے تلواروں اور نیزوں سے کیا گیا ۔
چند گھوڑوں اورچند آتشیں ہتھیاروں کے باوجود یہ واضح تھا کہ ہسپانوی یاک سنگین مسئلے بجائے اعلیٰ قیادت اور اولوالعزمی نے ہسپانوی فتح میں اہم کردار ادا کیا ۔بلاشبہ پیزا رو طالع مندبھی تھا‘ لیکن قسمت قدیم مقولہ ہے ‘ قسمت بہاروں کا ساتھ دیتی ہے ۔فرانسسکوپیزارو کو چند مصنّفین نے ایک نڈر چالباز ثابت کرکے ملعون قرار دیا ہے ۔لیکن چند ہی چالبازوں نے تاریخ پر یوں گہرے اثرات ثبت کیے ۔
جس سلطنت پر اس نے قبضہ کیا ‘وہ موجودہ پیرو اور ایکیوڈور کے ساتھ چلی کے شمالی نصف اور بولیویا کے ایک حصہ پر محیط تھی۔ اس کی آبادی بقیہ تمام جنوبی امریکی ریاستوں کی مشترکہ آبادی سے بھی زیادہ تھی۔پیزارو کی فتو حات کے نتیجے کے طور پر سپین کا مذہب اور تمدن تمام علاقے میں پھیل گیا ‘مزید برآں “انکا“سلطنت کے زوال کے بعد جنوبی امریکہ کے کسی خطہ کے لیے یورپی فتوحات کے ریلے پر بند باندھنا ممکن نہ رہا ۔
لاکھوں ہندوستانی آج بھی جنوبی امریکہ میں مقیم ہیں ۔لیکن براعظم کے بیشتر حصہ پران ہندوستانیوں کو دوبارہ کبھی سیاسی برتری حاصل نہیں ہو سکی اور یورپی زبان ‘مذہب اور تمدن کو یہاں غالب حیثیت حاصل رہی ۔کورٹینر اور پیزارو نے مختصرفوجوں کی قیادت کی اورتھوڑے ہی عرصہ میں ”ایزٹکس “اور”انکا“کی سلطنتوں پر قابض ہوئے ۔اس سے لوگوں کے ذہن میں یہ شک پیدا ہو ا کہ میکسیکو اور پیرو پر یورپی افواج کی فتح ناگزیر تھی ۔
بلاشبہ ایسا لگتا ہے کہ ”ایزٹک “سلطنت کے پاس اپنی خود مختاری بحال کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا ۔اس کے محل وقوع نے (یہ میکسیکو کی خلیج کے نزدیک اور کیوبا سے نسبتا مختصر بحری سفر کے فاصلے پر واقع ہے )اسے ہسپانوں حملے کے آگے بے بس کر دیا تھا۔ حتیٰ کہ اگر ایز ٹک کی فوجین کو رٹیز کی مختصر فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی تو جلد ہی بڑی ہسپانوی فوجیں ان پر حملہ آور ہو جاتیں۔
دوسری طرف ”انکا“سلطنت دفاعی طور پر خاصی مستحکم تھی ۔بحرالکاہل کا ساحل اس کی حد بندی کرتا تھا جو ہسپانوی بحری جہازوں کے لیے بحر اوقیانوس کی نسبت کہیں کم قابل رسائی تھا ۔”انکا“سلطنت کی فوجیں تعداد میں زیادہ تھیں ‘نیز ان کی سلطنت زیادہ گنجان آباد اور مربوط تھی ۔مزید یہ کہ پیرو کا علاقہ کھردرا اور پہاڑی تھا جبکہ دنیا کے متعدد حصوں میں یورپیوں کو علاقوں میں کالونیاں آباد کرنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
حتیٰ کہ انیسویں صدی میں جب یورپی فوجیں سولھویں صدی کی نسبت زیادہ مستحکم تھیں ‘اٹلی کی فوجوں کا ایتھوپیا پر حملہ بری طرح ناکام ثابت ہوا۔ اسی طور انگریزوں کو ہندوستان کی شمال مغربی سرحدوں پر پہاڑی علاقوں میں قبائل پر فتح پانے میں بے پناہ دشواریوں کا سامنا ہوا ۔جبکہ نیپال ‘افغانستان اور ایران جیسے پہاڑی ملکوں میں یورپی اقوام کو کالونیاں بنانے میں کبھی کامیابی نہیں ہوئی۔
اگر پیزارو کا حملہ ناکامی سے دوچار ہوتا اور ”انکا“کے لوگوں کو یورپی ہتھیاروں اور ہتھکنڈوں سے کچھ آگاہی کا موقع ملتا تو وہ بعدازاں زیادہ بڑی یورپی فوجوں سے ٹکرلینے کے قابل ہوجاتے ۔ہسپانیوں کو 1536ء کی ہندوستانی بغاو ت کو دبانے میں چھتیس برس سے زائد وقت لگا ‘جبکہ ہندوستانیوں کے پاس کم تعداد میں بندوقیں تھیں اور اگر پیزارو بھی ہوتا تو ہسپانوی فوجیں ”انکا“سلطنت کو ضرور فتح کرلیتیں ۔تا ہم یہ قیاس غالبا درست نہیں ہے ۔اس فہرست میں پیز ارو کو کورٹیز سے پہلے شمار کیا ہے ۔کورٹیز نے تاریخ کے عمل کوتیز کر دیا ‘جبکہ پیزارو نے اس کو بدل دیا ۔

Browse More Urdu Literature Articles