Homer - Article No. 1771

Homer

ہو مر - تحریر نمبر 1771

کئی صدیوں تک ہو مر کی نظموں کے اصل مصنف کا مسئلہ زیر بحث ہے ۔یعنی یہ کہ کب‘کہاں‘کیسے یہ نظمیں ایلیڈ اور اویڈ یسی لکھی گئی ہے ؟کسی حد تک ان کا انحصار پہلے سے موجود مختصر نظموں پر رہا؟کیا ایلیڈ اور اوڈیسی کسی ایک ہی شخص نے لکھی؟

جمعرات 20 ستمبر 2018

کئی صدیوں تک ہو مر کی نظموں کے اصل مصنف کا مسئلہ زیر بحث ہے ۔یعنی یہ کہ کب‘کہاں‘کیسے یہ نظمیں ایلیڈ اور اویڈ یسی لکھی گئی ہے ؟کسی حد تک ان کا انحصار پہلے سے موجود مختصر نظموں پر رہا؟کیا ایلیڈ اور اوڈیسی کسی ایک ہی شخص نے لکھی؟یا دو افراد نے ایک ایک نظم لکھی؟ہو سکتا ہے کہ ہو مر نام کا کوئی شخص نہ ہو؟اور یہ کہ دونوں نظمیں آہستہ روی سے متشکل ہوئی ہوں یا پھر مختلف شاعروں کی متعدد نظموں کو ملا کر یہ دو نظمیں بنی ہوں؟علما نے سالہا سال ان مسائل پر تحقیق کی ہے اور باہم متفق نہیں ہیں ۔

آخر ایک شخص جو کلا سیکی ادب کا عالم نہیں ہے ‘کیسے یہ جان سکتا ہے کہ ان سوالات کے کیا جوابات ہیں ۔میں خود بھی ان کے جوابات سے آگاہ نہیں ہوں ۔تا ہم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ اس فہرست میں ہو مر کا درجہ کیا ہونا چا ہیے ‘میں نے درج ذیل مفروضات قائم کیے ہیں ۔

(جاری ہے)

پہلا مفروضہ یہ ہے کہ واقعتا ایلیڈ کا اصل مصنف ایک ہی ہے۔(صاف طور پر یہ بات اس مفر وضے سے بدر جہا بہتر ہے کہ ایک مجلس شعراء کو فرض کیا جائے )۔

ہو مرسے پہلے ایک ہی موضوع پر متعدد مختصر نظمیں لکھی گئیں جنہیں مختلف یونانی شعراء نے تحریر کیا۔ہو مرنے ان کے کام سے بہت کچھ مستعار لیا۔لیکن ہو مرنے ایلیڈ کو متشکل انتظام وانصرام کیا ‘انہیں دوبارہ لکھا اور ان میں اضافے کیے اور آخری صورت دیتے ہوئے اس نظم میں اپنا نایاب جو ہر داخل کر دیا ۔جس ہو مرنے یہ ادبی شہ پارہ تخلیق کیا‘وہ اغلبا'' آٹھویں صدی قبل مسیح میں موجود تھا‘حالانکہ اس حوالے سے متعدد دیگر تواریخ جو عموما قدیم ہیں ‘تجویز کی گئی ہیں ۔
میں نے یہ مفروضہ بھی قائم کیا ہے کہ یہی شخص اوڈیسی کا بھی مصنف ہے۔اگر چہ یہ دلیل دی گئی (جو دونوں کے اسلو بیاتی اختلاف پر مبنی ہے)کہ دونوں نظمیں دو مختلف افراد نے تخلیق کیں ‘یہ دلیل باوزن ہے ۔مجموعی طور پر اس دونوں نظموں میں موجود مماثلتیں ان کے اختلافات سے بہت کم ہیں ۔موجودہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں ہو مر کے متعلق بہت کم معلومات حاصل ہے ۔
بلاشبہ اس سے متعلق سوانحی کو ائف موجود نہیں ہیں

۔ایک مضبوط قدیم حکایت کے مطابق ‘جس کا تعلق قدیم یونان سے ہے ‘ہو مر اندھا تھا۔تا ہم ان دونوں نظموں میں موجود حیران کن بصری تخیلات ظاہر کرتے ہیں کہ اگر چہ ہو مراندھا تھا لیکن وہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔نظموں کی زبان سے معلو م ہوتا ہے کہ ہو مر کا تعلق ”آیونیا“سے تھا ۔یہ ایجئین سمندر کے مشرقی ساحل پر واقعہ ایک علاقہ ہے ۔

اگر چہ یہ ماننا دشوار ہے ‘کہ ایک ایسی طویل اور محتاط انداز میں مرتب کی گئی نظمیں لکھے بغیر تخلیق ہو سکتی ہیں ۔تا ہم بیشتر علماء اس امر پر متفق ہیں کہ وہ بنیادی طور پر اور غالبا مکمل طور پر زبانی طور پر تخلیق ہوئی ۔یہ بات البتہ معلوم نہیں ہے کہ پہلی بار یہ نظمیں کب ضابطہ تحریر میں لائی گئیں ۔اس کی طوالت کے پیش نظر(یہ قریب اٹھائیس ہزار اشعار پر مشتمل ہیں )یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ ان کی حقیقی تخلیق کے تھوڑا ہی عرصہ بعد مناسب درستی کے ساتھ دوسرے کو منتقل کیا جانا ممکن تھا۔
بہر کیف چھٹی صدی قبل مسیح تک یہ دونوں نظمیں عظیم کلاسیکی ادب میں شمار کی جانے لگی تھیں جبکہ ہومر کے متعلق سوانحی کوائف کھو چکے تھے۔بعدازاں یونانیوں نے اوڈیسی اور ایلیڈ کو اپنی قوم کا عظیم ادبی شہ پارہ قرار دیا ۔حیران کن بات یہ ہے کہ تمام درمیانی صدیوں میں اور ان تمام ادبی تبدیلیوں کے باوجود جو بعد کے ادب میں ظاہر ہوئیں ‘ہو مر کی مقبولیت میں فرق نہ آیا۔
ہومر کی عظیم مقبولیت اور وقعت کے پیش نظرمیں نے یقدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ اس کی اس فہرست میں درجہ بندی کی ہے ۔میں نے ایسا اسی وجہ کے بنا پر کیا جس بنیاد پر میں نے دیگر ادبی اور فن کا شخصیات کو نسبتا کم تر درجہ دیا ہے ۔ہومر کے معاملے میں اس کی ساکھ اور اثرات کے بیچ امیتاز خاص طور پر وسیع ہے ۔اگر چہ اس کی نظموں کو سکولوں میں اکثر پڑھا یا جاتا ہے ۔
آج کی دنیا میں نسبتا کم لوگ ہی سکول یا کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسے دوبارہ پڑھنے کی خواہش محسوس کرتے ہیں ۔شیکسپےئر سے ‘جس کی نظمیں اور ڈرامے پڑھے اور ڈراموں کو اکثر بیشتر سٹیج پرکھیلا جاتا ہے ‘ہو مر کا موازنہ دلچسپ ہ ۔ہو مر کو ویسی مقبولیت حاصل نہیں رہی۔اگر چہ ہو مر کے مقولے بارلٹ کی تحریروں میں بکثرت موجود ہیں ‘لیکن آج عام بول چال میں شاذ ہی وہ سننے میں آتے ہیں ۔
یہ شیکسپےئر کے حوالے سے ایک اہم نقطہ ہے‘اور یہاں اس کا موازنہ بنجمن فرینکلن اور عمر خیال جیسے مصنّفین سے بھی بنتا ہے ۔اس کا ایک مقبول عام فقرہ ہے ”ایک“پینی“پس انداز کرنے کا مطلب ہے کہ ایک ”پینی “کی آمدنی ہوئی ۔“اس کے انسانی کردار اور سیاسی رویوں اور فیصلوں پر اثرات پڑتے ہیں ۔اس کے علاوہ ہو مر کا کوئی مصرع آج مقبول نہیں ہے۔
تو پھر ہومر کو اس کتاب میں لیا ہی کیوں گیا ہے ؟اس کی دووجوہات ہیں ۔پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد جو ان صدیوں میں بڑھتی رہی‘بہت زیادہ ہے جنہوں نے ہومر کی نظموں کو پڑھا یاسنا ہے ۔دنیائے قدیم میں آج کی نسبت ہو مر کی نظمیں کہیں زیادہ مقبول تھیں ۔یونان میں عوام الناس بھی اس کی تحریروں سے واقف تھی۔انہوں نے ایک طویل عرصہ مذہبی اور اخلاقی رویوں کو متاثر کیا۔
اوڈیسی اور ایلیڈ ادبی دانشوروں میں ہی نہیں بلکہ فوجی اور سیاسی رہنماؤں میں مقبول تھیں ۔متعدد قدیم رو می قائدین نے ہومر کے حوالے دئیے سکندر اعظم تو ایلیڈ کی ایک جلد مہمات کے دوران اپنے پاس رکھتا تھا۔آج بھی چند لوگ ہو مر کو پسند کرتے ہیں جبکہ ہم میں سے بیشتر نے اس کی تحریروں کو سکول کے زمانے میں پڑھا تھا۔لیکن اس سے زیادہ اہم بات ہو مر کے ادب پر اثرات ہیں ‘تمام کلاسیکی یونانی شاعر اور ڈرامہ نگار ہو مر سے بہت متاثر تھے۔
سو فوکلینر‘یوریپائیڈس اور ارسطو (یہ فقط چند نام ہیں )ہومر کی روایت ہی کے آدمی تھے۔سبھی نے ادبی وقار کے اپنے نظریات ہو مر ہی سے اخذ کیے ہیں ۔ہو مر کے قدیم رومی مصنّفین پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔

سبھی نے اس کی شاعری کو عظمت کا معیار قرار دیا ۔رومی مصنّفین میں سے عظیم ترین ورجل نے اپنا شہ پارہ”Aeneid“تحریر کیا تو اس نے ایلیڈ اور اوڈیسی کے نمونہ پر اسے ترتیب دیا۔

حتیٰ کہ جدید دور میں بھی تما م اہم مصنّفین یا تو ہومر سے متاثر رہے یا ورجل یا سوفو کلینر جیسے مصنّفین کے اثر تلے رہے‘جو خود ہو مر سے متاثر تھے۔تاریخ میں کسی دوسرے مصنف کے اثرات اس قدر دور رس اور ہمہ گیر نہیں ہیں ۔آخری بات غالباسب سے اہم ہے ۔یہ ممکن ہے کہ گزشتہ سوبرسوں میں ہومر کی نسبت ٹالسٹائی کو زیادہ کثرت سے پڑھا گیا ہو‘لیکن پچھلی چھبیس صدیوں میں ٹالسٹائی کے اثرات ناپید تھے‘جبکہ ہو مر کے اثرات کی عمر تو دو ہزار سات سو سال سے بھی زیادہ ہے ۔یہ واقعی ایک طویل مدت ہے ۔اس مثال کا ثانی ہمیں دیگر ادبی شخصیات یا کسی بھی انسانی کلوش کے میدان میں کسی شخصیت میں دکھائی نہیں دیتا۔

Browse More Urdu Literature Articles