Mahavira - Article No. 1782

Mahavira

مہاویر - تحریر نمبر 1782

مہاویر(جس کا مطلب ”عظیم سورما “ہے )ہی وہ نام ہے جس کو جین مت کے پیروکار ”وردھامنا“سے منسوب کرتے ہیں ‘اور اپنے مذاہب کے ارتقاء میں ایک ممتاز شخصیت گر دا نتے ہیں۔

پیر 8 اکتوبر 2018

مہاویر(جس کا مطلب ”عظیم سورما “ہے )ہی وہ نام ہے جس کو جین مت کے پیروکار ”وردھامنا“سے منسوب کرتے ہیں ‘اور اپنے مذاہب کے ارتقاء میں ایک ممتاز شخصیت گر دا نتے ہیں ۔
وردھامنا 599قبل مسیح میں شمال مشرقی ہندوستان میں پیدا ہوا۔اسی علاقے میں گو تم بدھ بھی پیدا ہوا۔جس کا تعلق پچھلی نسل سے تھا۔دونوں افراد کی سوانح عمریوں میں مماثلتیں حیران کن ہیں ۔

وردھامنا ایک سردار کا بیٹا تھا۔گو تم ہی کی مانند وہ بڑے نازو نعم میں پلا بڑھا۔تیس سال کی عمر میں اس نے اپنی امارت ‘خاندان (اس کی ایک بیوی اور ایک لڑکی تھی )اور اپنی پر آسائش دنیا کوتیاگ دیا اور روحانی سچ اور آسودگی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
وردھامنا ایک مختصر اور تارک الدنیا مذہبی مسلک پر سوانا تھ کا جوگی بن گیا۔

(جاری ہے)

بارہ سا ل اس نے گہرا تفکر اور غورو خوض کیا۔

اور تیاگ اور تنگ دستی کی انتہاؤں کو چھوا۔وہ مسلسل فاقہ کشی کرتا ۔اس کی کوئی نجی شے نہیں تھی ‘حتیٰ کہ ایک چھوٹا پیالہ یا تھا لی بھی نہیں جس میں پانی پی سکے یا خیرات جمع کرے۔ایک عرصہ اس نے ایک ہی لباس میں گزارہ ‘پھر اسے بھی پھاڑ ڈالا اور مکمل برہنہ حالت میں رہنے لگا۔کیڑے اس کی ننگی جلد پر رینگتے ‘وہ انہیں پرے نہیں ہٹا تا تھا۔
حتیٰ کہ چاہے وہ اسے کاٹ ہی لیں ۔ہندوستان میں جہاں مغرب کی نسبت جو گیوں اور سادھوؤں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ‘مہاویر کا یہ بہر وپ اور رویہ طعن وتذلیل کا باعث بنتا۔لوگ اسے گالیاں دیتے اور مارتے ۔یہ سب کچھ وہ بردباری کے ساتھ سہتا۔
بیالیس برس کی عمر میں مہاویرکو یقین ہو گیا کہ اس نے روحانی بالیدگی پالی ہے ۔اس نے زندگی کے بقییہ تیس سال اس روحانی بصیرت کی تبلیغ میں بسر کیے ‘جو اس نے حاصل کی تھی ۔
527ء میں اس کی موت کے وقت ا س کے گرد بھکشوؤں کی بڑی تعداد جمع تھی ۔چند حوالوں سے مہاویر کے افکار بدھ مت اور ہندومت سے بہت مماثلت رکھتے ہیں ۔جین مت کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ جب انسانی جسم موت کا ذائقہ چکھتا ہے ‘اس کی روح اس کے ساتھ نہیں مرتی بلکہ کسی دوسرے جسم میں (جو ضروری نہیں انسانی ہی ہو۔)داخل ہو جاتی ہے ۔آواگون کا نظریہ جین مت کا بنیادی اصول ہے ۔
جین مت ”کرما“پر بھی ایقان رکھتا ہے ۔ اس نظریہ کے مطابق انسان کے افعال کے اخلاق نتائج اس کی مستقبل کی جون پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔روح پر سے بار معصیت کو کم کرنا اور اس کی تطہیر کرنا ہی جین مت کا بنیادی فلسفہ ہے ۔المختصر مہاویر کے مطابق یہ مقصد نفسانی خواہشات ترک کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔جین مت کے پروہت شدید تیاگ کی راہ اپنا تے ہیں ۔
یہ امر قابل غور ہے کہ ارادی فاقہ کشی سے خود کو موت کے گھاٹ اتار نا اس فرقے میں قابل تحسین مانا جاتاہے ۔
جین مت کے فلسفہ کا ایک اہم جزو”اہنسا“عدم تشدد کا نظریہ ہے ۔اس کے مطابق اہنسا کا اطلاق صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ جانوروں پر بھی ہوتا ہے ۔اس نظریہ کا ہی نتیجہ ہے کہ جین مت کے پیروکار سبزی خور ہوتے ہیں ۔تاہم کٹر معتقدین اس حوالے سے انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
وہ ایک مکھی کو بھی نہیں مارتے ۔نہ اندھیرے میں کھاناکھاتے ہیں ۔مبادہ بن دیکھے کوئی کیڑہ کھاجائیں اور اس کی مت کا سبب بنیں ۔ایک معتقد اور اہل ثروت پیروکار خصوصی طور پر خاکروب سے گھر کے باہر گلی کی صفائی کرواتا رہتا ہے تا کہ جب وہ چلے تو بے دھیانی میں کسی کیڑے کو کچل نہ دے۔
ایسے عقائد کا منطقی نتیجہ تھا کہ ایک سچا معتقد نیک نیتی سے کھیتوں میں ہل نہیں چلا سکتا تھا ۔
سوجین مت نے زراعت کی حوصلہ فزائی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کے متعدع دیگر پیشے‘جن میں دستی محنت درکار تھی ‘مذہبی طور پر ممنوع قرار دیے گئے۔جینمت سے ہمیں یہ مثال ملتی ہے کہ کس طور مذہبی اعتقادات معاشرے کی مجموعی طرز معاشرت کو تباہ کردیتے ہیں ۔اگر چہ وہ ایک یکسر زرخیز زمین پرر ہایش پذیر تھے ۔جین مت کے پیروکار صدیوں تک تجارت اور دیگر مالیاتی پیشوں سے منسلک رہے ۔
جین مت کے مذہبی اطوار نے اپنے پیروکار وں میں محنت کوشی کا چلن عام کیا۔ نتیجتاََ یہ بات قابل تعجب نہیں رہتی کہ جین مت کے پیروکار خاصے آسودہ حال ہوتے ہیں ۔جبکہ اپنی تعداد کی نسبت ہندوستان کی ذہنی اور فن کارانہ زندگی میں ان کا کردار زیادہ فعال رہا ہے ۔
جین مت میں ذات برداری کا کوئی نظام نہیں ہے ۔تا ہم اگر چہ ہندومت کے اثرات کے تحت جین مت میں ایک نظام پیدا ہوا ہے ‘لیکن وہ ہندووانہ نہ نظام جیسا شدید ہر گز نہیں ۔
اسی طور اگر چہ مہاویر نے خدا یا دیو تاؤں کے متعلق کبھی کوئی بیان نہیں دیا۔لیکن ہندومت ہی کے اثرات کے تحت اس میں بت پرستی نے راہ پائی ۔مہاویر نے کبھی اپنے خیالات کو قلم بند نہیں کیا۔سو اس مذہب میں ہندومت کے افکار سرایت کر جانا ناگزیر تھا۔ایسے ہی اثرات دیگر معاملات پر بھی ظاہر ہوئے ۔جین مت کے جانوروں کی قربانی اور گوشت کھانے سے احتراز نے ہندومت پر بھی اپنے اثرات چھوڑے مزید یہ کہ جین مت کے اہنسا کے عقیدے نے ہندوستانی فکر کو مسلسل متاثر کیے رکھا ہے ۔
یہ اثرات آج بھی برقرار ہیں۔مثال کے طور پر مہاتما گاندھی جین مت کے فلسفی شریماد راجا چندر (1900ء1867ء)کے افکار سے بہت متاثر تھا اور جسے وہ اپنے روحانی ”گرو“کا درجہ دیتا ہے ۔
جین مت کو کبھی پیروکاروں کی بڑی اکثریت حاصل نہیں رہی۔آج ہندوستان بھر میں جین مت کے قریب پینتیس لاکھ پیروکار موجود ہیں ۔یہ دنیاکی آبادی ایک نہایت مختصر حصہ ہے ۔مہاویر کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ مر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ جین مت نے متعدد دیگر مذاہب کے برعکس اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر گہرے اور دیر پا اثرات قائم کیے ۔

Browse More Urdu Literature Articles