Mussa - Article No. 1765

Mussa

موسی - تحریر نمبر 1765

تاریخ میں غالبا عظیم عبرانی پیغمبر موسیٰ سے زیادہ کسی دوسرے شخص کی اس قدر وسیع پیمانے پر پذیر ائی نہیں ہوئی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت اور پیروکاروں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے

منگل 11 ستمبر 2018

تاریخ میں غالبا عظیم عبرانی پیغمبر موسیٰ سے زیادہ کسی دوسرے شخص کی اس قدر وسیع پیمانے پر پذیر ائی نہیں ہوئی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت اور پیروکاروں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے ۔یہ امر قرین قیاس ہے کہ تیرھویں صدی میں ‘جب ریمس دو م‘ جو ایک رائے کے مطابق آکسوڈس شہر میں فرعون تھا اور 1237قبل مسیح میں فوت ہوا ‘موسیٰ کی پیدائش ہوئی تھی ۔

اپنی زندگی کے دوران‘ جیسا کہ کتاب” آکسوڈس“ سے واضح ہے‘ عبرانیوں کی ایک اکثریت اس کی حکمت عملیوں پر نالاں تھی ۔پانچ صدیوں کے عرصہ تک موسیٰ سبھی عبرانیوں کے لیے محترم رہا ۔500ء تک اس کی شہرت عیسائیت کے ساتھ ساتھ یورپ بھر میں پھیل گئی ۔ایک ہی صدی کے بعد (حضرت محمد نے موسیٰ کو ایک سچا پیغمبر تسلیم کیا ‘اور اسلام کے فروغ کے ساتھ موسیٰ بھی بشمول مصر تمام مسلم دنیا میں ایک قابل تحسین شخصیت بن گیا ۔

(جاری ہے)

آج بتیس صدیوں کی مدت کے بعد موسیٰ یہودیوں عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے ایک سا مقدس ہے ‘جبکہ لاادریوں (Agnostics) کی ایک بڑی مقدار بھی اسے عزت دیتی ہے‘ جدیدنظام ابلاغ عامہ کا بھلا ہو کہ آج ہم ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بہتر انداز میں اس کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں ۔موسیٰ کی اس قدر شہرت کے باوجود اس کی زندگی کے متعلق ہمیں معتبر معلومات حاصل نہیں ہیں ۔
یہ قیاس کیا جاتا ہے (جسے بیشتر علماء درست تسلیم نہیں کرتے )کہ موسیٰ مصری باشندہ تھا‘ جبکہ اس کا نام عبرانی نہیں بلکہ مصری ہے ۔(اس کا مطلب ”بچہ یا بیٹا“ ہے اور یہ متعددمعروف فراعنہ مصر کے نام کا حصہ بھی ہے)۔عہد نامہ قدیم کی موسی ٰ سے متعلق حکایات پر اعتماد کرنا مشکل ہے‘ وہ بے شمار معجزات پر مبنی ہیں‘ جیسے جلتی ہوئی راکھ کی حکایت یا موسیٰ کا اپنے عصا کو سانپ میں بدل دینا ۔
یہ اپنی نوعیت میں معجزات ہیں ‘مثلا ہربا ت ماننے کے لیے آپ کا خوش اعتقاد ہونا ضروری ہے کہ موسیٰ جو آکسوڈس دور میں چوراسی برس کا تھا‘ مزید چا لیس برس تک عبرانیوں کو لیے صحرامیں مارا مارا پھرتا رہا‘ بلاشبہ ہمیں یہ جاننے کی خواہش ہے کہ ان تمام اسطوریات کے بوجھ تلے دبے جانے سے پہلے موسیٰ کی زندگی کے اصل کو ائف کیا تھے ۔متعدد احباب نے طاعون کی دس وباؤں اور بحیرہ احمر کو عبور کرنے سے متعلق انجیل کی کہانیوں کی فطری تو ضیحات پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
تا ہم موسیٰ سے متعلق عہد نامہ قدیم کی بیشتر معروف حکایات اسطور یاتی (Mythological)ہیں‘ جن کی دیگر قوموں کی اسطوریات سے گہری مماثلت ہے ۔مثال کے طور پر موسیٰ اور دلدلی گھاس والی حکایت کی بابلی اسطورہ سے حیرت انگیز طور پر گہری مماثلت موجود ہے‘ جو عظیم عکادی بادشاہ سار گون سے متعلق ہے اور جس کا دور حکومت2360 سے2305 قبل مسیح بنتا ہے ۔عمومی طور پر موسیٰ سے تین اہم کارنامے منسوب کیے جاتے ہیں ۔
اول اسے ایک سیاسی شخصیت کے طور پر پیش کیاجاتا ہے‘ جس نے عبرانیوں کی مصر سے آکسوڈس تک رہنمائی کی ۔اس حوالے سے کم از کم یہ امر تو واضح ہے کہ اسی کے سر یہ سہرا بند ھنا چاہیے‘ دوئم انجیل کی پہلی پانچ کتابوں(” جینس“” اکسوڈس“” لیویٹی کس “”نمبرز“” اور ”ڈیوٹرونومی“) کی تصنیف اسی سے منسوب کی جاتی ہے ۔انہیں موسیٰ کی پانچ کتب کانام بھی دیا جاتا ہے‘ یہی یہودیوں کی توریت کی تشکیل کرتی ہیں‘ ان کتابوں میں موسوی شریعت کا بیان ہے‘ جو قوانین کا مجموعہ ہے ۔
جنہوں نے انجیل کے دور میں یہودیوں کے کردار کی نگرانی کی اور جن میں ہی” احکامات عشرہ“ شامل ہیں ۔ان کے بے انتہا اثرات کے پیش نظر ‘جو توریت نے من حیث المجموع اور دس احکامات بالخصوص لوگوں پر مرتب کیے‘ ان کے مصنف کو ایک عظیم اور بے انتہا متاثر کن فرد تصور کیا جاسکتا ہے ۔تا ہم انجیل کے متعدد علماء کا متفقہ خیال ہے کہ موسیٰ اکیلا ان تمام کتابوں کا مصنف نہیں تھا ۔
واضح طور پر یہ کتابیں ایک سے زائد مصنّفین کی قلمی کاوش کا نتیجہ ہیں ‘جبکہ اس جملہ مواد کا بیشتر حصہ تو موسیٰ کی موت کے بعد ضابطہ تحریر میں لایاگیا ۔ایسا ممکن ہے کہ موسیٰ نے رائج عبرانی رسوم کی ترتیب وتدوین یا عبرانی قواتین وضع کرنے میں اہم کردار اداکیا ہو تا ہم ہمارے پاس واقعتا کوئی ایسا پیمانہ نہیں ہے جس سے اس کے قد کا ٹھ کا تعین کیا جاسکے ۔
سوم بیشتر لوگ موسیٰ کو یہودی وحدانیت کا بانی قرار دیتے ہیں ۔ایک اعتبار سے ایسے دعویٰ کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔موسیٰ سے متعلق ہماری تمام معلومات کا واحد منبع عہد نامہ قدیم ہے‘ جبکہ عہد نامہ قدیم میں بین اور غیر مبہم انداز میں ابراہیم کو واحدانیت کے فلسفہ کا بانی قرار دیا گیا ہے ۔تاہم یہ واضح ہے کہ اگر موسیٰ نہ ہوتا تو یہودی وحدانیت دم توڑ دیتی ۔اس نے اس کے تحفظ اور اگلی نسلوں تک اس کے انتقال میں ایک بنیادی کردار ادا کیا‘ اسی حقیقت پر اس کی اہمیت کی بنیاد قائم ہے ‘جبکہ دنیا کے دو عظیم مذاہب عیسائیت اور اسلام دونوں یہودی وحدانیت کے ہی پر وردہ ہیں‘ ایک سچے خدا کا تصور جس پر موسیٰ کا ایسا گہرا اعتقاد تھا ‘اسی کے سبب دنیا کے بڑے حصے میں مقبول ہوا ۔

Browse More Urdu Literature Articles