Professor Yousuf Husn Ka Saneha Arthal - Article No. 1740

Professor Yousuf Husn Ka Saneha Arthal

پر و فیسر یوسف حسن کا سانحہ ار تحال - تحریر نمبر 1740

گزشتہ دنوں معروف تر قی پسند شاعر اور دانشور یوسف حسن راولپنڈی میں انتقال کرگئے ،وہ 1947 ء میں ضلح جہلم کے قصبے کا لا گوجراں میں پیدا ہوئے ۔یوسف حسن نے 1980ء میں راولپنڈی کا رُخ کیا اور پھر یہیں کے ہو کررہ گئے

پیر 6 اگست 2018

طبقا تی نظام کے خلا ف جدو جہد میں سر گر داں رہے
گزشتہ دنوں معروف تر قی پسند شاعر اور دانشور یوسف حسن راولپنڈی میں انتقال کرگئے ،وہ 1947 ء میں ضلح جہلم کے قصبے کا لا گوجراں میں پیدا ہوئے ۔یوسف حسن نے 1980ء میں راولپنڈی کا رُخ کیا اور پھر یہیں کے ہو کررہ گئے ۔گور نمنٹ کالج اصغرمال میں طویل مدت تک درس وتدریس سے وابستہ رہے ،2007ء میں دوبارہ بحال کی جانے والی انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے بانی ارکان میں ایک نام یوسف حسن کا بھی تھا ۔

پروفیسر یوسف حسن کی زندگی طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد میں گزری اور ہمیشہ مار کسزم کے اُصولوں پہ کا ر بندر ہے ۔یوسف حسن کو معاشرتی شعور رکھنے والے منفرد لہجے کی شاعر کے طور پر جانا جاتا تھا ۔جب سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے لگا تو یہاں ترقی پسندوں کی مزاحمت بھی لڑ کھڑانے لگی تھی لیکن یوسف حسن ڈٹ گئے ۔

(جاری ہے)

اپنے اردگر د کے مظلوموں کی جنگ لڑ رہے تھے ۔

سو آخر ی دم تک جاری رہی ۔نوجوانوں سے ان کا تعلق صرف کمرہ جماعت تک محدود نہ تھا بلکہ درختوں کے سائے ،شہر کی گلیاں اور گلیوں کے چائے خانے اور ادبی محفلیں سب تک اس کا سلسلہ پھیلا ہو تا ۔ان کا مار کسز م کتا ب سے کتاب تک محدود نہ تھا ۔بلکہ ساتھ ساتھ عملی جدوجہد کا مشکل اور پُر صعوبت سفر بھی جاری رکھا ۔اُردو میں انکا اولین شعری مجموعہ ” اے دل“ اے دریا“کے نام سے زیر طبع ہے جبکہ دو کتابوں ”پاکستان میں اُردو ادب کے پچاس “اور ”فیض احمد فیض (فیض صدی ،منتخب مضا مین ) “ کی اشاعت میں وہ بطور شریک مرتب شامل تھے ۔

نمونہ کلام
رہ گیا جانے کہاں قافلہ قتدیلوں کا
رات انبار اٹھا لائی ہے تا ویلوں کا
بن گئے پاؤں کی زنجیر پہاڑی رستے
چند قدموں کی مسافت تھی سفر میلوں کا
اب جو ریگ متلا طم میں گھر ے بیٹھے ہیں
ہم نے صحراؤں سے پوچھا تھا پتا جھیلوں کا
ہاتھ رہ رہ کے دعاؤں کے لئے اٹھتے تھے
آسماں پر تھا نشان تک نہ ابا بیلوں کا
پی گیا کون چھلکتے ہوئے امکاں یوسف
کیوں گھروں پر بھی گماں ہونے لگا ٹیلوں کا
اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا
یہ دل کا درد مگر زاد رہ گزر بھی تھا
یہ جسم وجان تری ہی عطا سہی لیکن
ترے جہان میں جینا مرا ہنر بھی تھا
اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں بر ہم تھیں
کہ اک دیا مرے گھر کی منڈ یر پر بھی تھا
مجھے کہیں کا نہ رکھا سفید پوشی نے
میں گرد گرد اٹھا تھا تو معتبر بھی تھا
اسی کھنڈر میں مرے خواب کی گلی بھی تھی
گلی میں پیڑ بھی تھا پیڑ پر ثمر بھی تھا
میں سُر خ رہ تھا خدائی کے روبرو یوسف
کہ اس کی چاہ کا الزام میرے سر بھی تھا

Browse More Urdu Literature Articles