Aik Din Ka Badshah - Article No. 1582

Aik Din Ka Badshah

ایک دن کا بادشاہ - تحریر نمبر 1582

جب انسان ضمیر سے زیادہ جاگ جائے یا حقیقت سے زیادہ جان جائے تو وہ حدودِ قوت سے آگے نکل جاتا ہے

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی ہفتہ 11 نومبر 2017

جب انسان ضمیر سے زیادہ جاگ جائے یا حقیقت سے زیادہ جان جائے تو وہ حدودِ قوت سے آگے نکل جاتا ہے پھر کوئی ”شکیب“ فصیل جسم پر تازہ لہو کے چھینٹوں کی پرواہ کئے بغیر کسی برق رفتار ٹرین سے ٹکر لے کر وقت کو تھام لیا کرتا ہے۔ میں جب بھی ضمیر کو تھپکیاں دے کر اور ”زمینی حقائق“ کی لوری سنا کر سلانا چاہتا ہوں تو میرے اندر کے کھیت میں سوالوں کی فصل اُگ آتی ہے حاکم وقت کا کسان اپنے جبّر کی شاہی درانتی سے ان خوشوں کا سر قلم کردیتا ہے مگر برس بھی گزر نہیں پاتا یہ فصل دوبارہ سر اٹھا لیتی ہے اور پھر میرے اندر کوئی گنبد میں دی گئی صدا کی طرح گونجنے لگتا ہے اور پھر میرے اندر کے دربار کا غلام سر جھکائے بادشاہ بننے کے خواب دیکھنے لگتا ہے کسی آبی کنوئیں کے ”تشنہ بوکے“ کی طرح مجھے کبھی پیاس کی سمجھ نہیں آئی۔

(جاری ہے)

کنوئیں سے پانی لے کر سب کو سیراب کرنے والا خود کیوں پیاسا رہ جاتا ہے۔ صحرا اور پیاس میں رقابت کیوں ہے؟ اور نہ ہی میں کبھی یہ جان پایا ہوں کہ میرے اندر کا چراغ کیوں کسی سرپھری ہوا کا منتظر رہتا ہے۔ تِل بھی حیران ہیں کہ چراغوں کو کس کی نظر کھا گئی ہے۔ اب چراغ روشن سے نہیں لہو سے جلیں تو روشنی دیتے ہیں۔ اب میرے خواب میری پلکوں پر دستک نہیں دیتے وہ جانتے ہیں تعبیر کا آسیب مُہیب سناٹوں کو جنم دیتا ہے۔

میرا بچپن فاقوں کی گود میں گزرا ہے میں ہمیشہ وعدوں، ہمدردیوں، دلاسّوں اور تسلیوں کے کھلونوں سے کھیلا ہوں، میرے کانوں میں ابھی تک غربت کے اژدھے کی پھنکار گونجتی ہے، ہمارے گھر کا چولہا اکثر ٹھنڈا رہتا تھا، مجھے گُڑ کھانے کا شوق جنون کی حد تک تھا مگر جہاں دو وقت کی روٹی بمشکل ملتی ہو اور جہاں فاقوں کا راج ہو وہاں گڑ جیسی ”مہنگی“ چیز کہاں سے آتی۔
جب میں بادشاہوں کے قصے سنتا کہ ان کے خزانے ہیرے جواہرات اور سونے سے بھرے ہوتے تھے۔ ان کا قیمتی اور پرتکلف دستر خوان ہر لمحہ مزے دار کھانوں سے آباد رہتا تا۔ تو میں سوچا کرتا تھا بادشاہ کتنا خوش قسمت انسان ہوتا ہوگا وہ جی بھر کر گُڑ کھاتا ہوگا اس کا محل گُڑ سے بھرا ہوتا ہوگا۔
پھر میرے دل میں بادشاہ بننے کا جنون پیدا ہوگیا، میں بادشاہ بننا چاہتا تھا چاہے ایک دن کے لیے ہی کیوں نہ ہو، میں بادشاہ بن کر اُس دن جی بھر کر گُڑ کھانا چاہتا تھا ساری سلطنت کا گڑ اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔
چاہے اس کے بعد مجھے عمر بھر گُڑ نہ ملے مجھے اس دن کوئی روکنے والا کوئی نہ ہو اس دن تمام غلام مجھے گُڑ کھلانے پر مامور ہوں۔ اُس دن مجھے کوئی بھی میری خطاﺅں پر روکنے والا کوئی نہ ہو۔
اور پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا شہرت اور دولت کا آفتاب میرے آنگن میں ایسا چمکا کہ سارا جیون روشن کرگیا اور پھر زندگی کے جس شیشے سے میں دنیا کو دیکھا کرتا تھا میں نے اس شیشے کے پیچھے چاندی کا مُلمَع چڑھا لیا اور پھر یہی شیشہ آئینہ بن گیا اب اس سے صرف مجھے اپنا آپ ہی نظر آتا ہے۔
یہ آئینہ بھی کیا چیز ہے انسان کو فنا کے ذوق سے آشنا نہیں ہونے دیتا۔
اس دن جب میں دُنیاوی مصروفیات سے تنگ آکر دُور ویرانے میں شہر سے بہت دور ایک خشک باغ سے گزر رہا تھا جس کے خشک پتے میرے پاﺅں کے نیچے سسک رہے تھے اور مجھے پچھلے موسموں کے عشق کی طرح کسی متروک راستے سے جانے سے روک رہے ہوں مجھے بانسری کی سسکتی ہوئی لَے سنائی دی جو مجھے ماضی کے سرسبز پہاڑوں پر لے گئی جس پر یادوں کی سفید برف دُھند کی اداسی کا آنچل لئے گہری شام ہونٹ دانتوں میں دبائے سسک رہی تھی۔
جب کوئی اپنے اصل سے دور ہوجاتا ہے تو وہ اپنے اصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے جب سے اسے بنسلی سے کاٹا گیا ہے بانسری کی لَے سسک رہی ہے وہ ہر سننے والے سے فریاد کرتی ہے تم نے دیکھا ہے وہ بانسوں کا جنگل جس سے مجھے کاٹ کر لایا گیا ہے۔ مجھے لگا میرا اصل میرا بچپن ہے مجھے بھی بچپن سے کاٹ کر جوانی میں پھینک دیا گیا ہے۔ مجھے اپنا باپ یاد آگیا جس کی آنکھوں کی نمی کہتی تھی شب فرقت زیادہ دور نہیں ہے۔
مجھے یاد ہے ایک دن جب میں دوسری کلاس میں تھا انہوں نے مجھے بلایا اور پیار کیا اور بولے: بیٹا دل لگا کر پڑھا کرو، علم ایک نعمت ہے اور نِعمت سے بغاوت زوال کا باعث ہے کہنے لگا ابتدا میں چمگادڑوں کی آنکھیں تھیں مگراندھیروں میں رہ کر اور ان کو استعمال نہ کرکے انہوں نے کفرانِ نعمت کیا اسی لیے ان سے آنکھوں کی نعمت واپس لے لی گئی ہے۔ کہنے لگے: علم کے نور سے دنیا کو دیکھو میں نے پوچھا: بابا! آپ حضرت قائداعظمؒ کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
بابا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
بولے بیٹا!
”جن کو رب چُن لے ان پر تبصرہ نہیں کیا کرتے ان کا بس احترام کیا کرتے ہیں ان کی عزت کیا کرتے ہیں۔“
میں نے پوچھا: بابا!
پوجا اور عبادت میں کیا فرق ہے؟
بولے:
پُتر جس کا جواب آجائے وہ عبادت ہے اور جس کا جواب نہ آئے وہ پوجا ہے۔
میں نے کہا: بابا جنت میں کون جائے گا بولے پُتر جنت میں وہ جائے گا جن کے دل پرندوں کی مانند ہوں گے کیونکہ پرندے آپس میں جھگڑا نہیں کرتے، فساد نہیں پھیلاتے، رزق کے معاملہ میں توکل کرتے ہیں کل کی فکر نہیں کرتے، اللہ کی حمد و ثناء اور تسبیح بیان کرتے ہیں اور تنکوں سے گھونسلے بناتے ہیں۔
ایک دن کہنے لگے: بیٹا! رزق حرام کے قریب بھی مت جانا اس کو کبھی بھی اکٹھا نہ کرنا ہر وہ پیسہ جو کسی کا استحصال کرکے حاصل کیا جائے وہ رزق حرام ہے۔ میں نے کہا: بابا! میں عہد کرتا ہوں رزق حرام نہیں کھاﺅں گا۔ بولے بیٹا! میں نے صرف اکٹھا کرنے کی بات کی ہے۔
میں نے حیرانی سے پوچھا: بابا! میں کچھ سمجھا نہیں۔
کہنے لگے:
کوئی آگ کو کھاسکتا ہے کیا؟
یاد رکھو!
بندہ رزقِ حرام نہیں کھاتا، رزق حرام بندے کو کھا جاتا ہے۔

مجھے لگتا ہے میرے باپ کو آگہی کھا گئی تھی وگرنہ وہ اپنے مرنے تک ضرور جیتا اور جس دن میں ان کی قبر پر مٹی ڈال رہا تھا مجھے ان کے یہ الفاظ شدت سے یاد آرہے تھے جو وہ بار بار کہا کرتے تھے:
”غازی کی موت صرف اسے نصیب ہوگی جو شہید کی زندگی گزارے گا۔“
پھر مجھے وہ یاد آئی جس کو بھی کبھی بھی بھول نہ سکا تھا مجھے لگتا ہے بھول جانا شاید دنیا کا سب سے مشکل کام ہے وہ دبستانِ حسن کے مشرقی باب کا آخری مستند حوالہ تھی مجھے وہ الفاظ کسی لُغت میں نہیں ملے جو اس کی خاموشی ادا کرتی تھی۔
اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں خانہ بدوش امیدوں نے پڑاﺅ ڈال رکھا تھا، مگر اس کی جواب آنکھوں میں ہزاروں سوال بھی خیمہ زن تھے۔ اس کی خواب آنکھوں اور چہرے میں عجیب خوبصورت سا اختلاف تھا سوئے ہوئے چہرے پر جاگتی آنکھیں یا جاگتے چہرے پر سوئی ہوئی آنکھیں، یہ عشق کے سودے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ یہ سود و زیاں سے مُبرّا ہوتے ہیں۔ چاہے اس میں متاعِ عمر ہی کیوں نہ چلی جائے ہم جب بھی ملتے ہمارے دونوں کے درمیان تیسرا ایک پاگل سی چپ ہوتی۔
شاید شبِ فرقت کا خوف محبت کے خمیر میں شامل ہے۔
آئینہ گر کب تک زخموں سے بچ سکتا ہے اور پھر ایک دن تعبیر کے نقش و نگار سے سجا میرا خواب بکھر گیا۔ اس کا باپ اپنے دور کا ایک لیجنڈ گلوکار تھا جس کے لاکھوں مدّاح تھے شہرت اور دولت اس کے گھر کی باندی تھی۔ اس کے باپ نے میرے Status کو دیکھتے ہوئے رشتے سے صاف انکار کردیا۔ شاید Status کی دیوار کے سوراخ وضاحتوں اور اخلاقی اقدار کی اینٹوں سے نہیں بھرتے، میری التجاﺅں اور مشعل کے آنسوﺅں نے بہت احتجاج کیا مگر اس کے والد کا لہجہ تاریخ کی طرح سفاک تھا۔
تاریخ بھی ہمیشہ دو ٹوک اور بے لاگ فیصلے کیا کرتی ہے۔
پھر اس کے بعد زندگی کیا تھی فقط بیوہ رُتوں کا نوحہ تھی مجھے یوں لگا جیسے وہ چپکے سے دبے پاﺅں میری زندگی کی کہانی سے نکل گئی ہو اور پھر جیسے وقت رُک گیا ہو۔ میں ہرلمحہ ہر بانس اس کو یاد کرتا رہا، پھر مجھے معلوم ہوا یاد کرنے سے وقت رُک جاتا ہے۔ بھول جانے سے وقت کو پَر لگ جاتے ہیں ہم سبھی لوگ خود کو اور دوسروں کو بھول گئے ہیں۔
جبھی تو وقت سے برکت ختم ہوگئی ہے۔ صدیاں سالوں میں، سال مہینوں میں اورمہینے ہفتوں میں بدل گئے ہیں۔ عمریں مختصر ہوگئی ہیں اور ہر کوئی وقت کی نقدی کم ہونے کا رونا رو رہا ہے۔
پھر میں نے اس کو ہزاروں خط لکھے میں نے خطوں میں لکھا میں وہ برف کا نازک ٹکڑا ہوں جسے تم رکھ کر بھول گئے ہو۔ میں قطرہ قطرہ پگھلنے کی اذیت سے گزر رہا ہوں۔ جانے تم کدھر سے آجاﺅ میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی ہے۔
میری سلگتی آنکھوں کا رنگ تنہائی کے رنگ جیسا ہوگیا ہے۔ سوکھی ٹہنیوں کا دُکھ جاننا چاہتے ہو تو خشک پتوں سے پوچھو میں نے سنا ہے اس نے بھی مجھے ہزاروں خط لکھے مگر میری ہی طرح اس نے بھی کوئی خط پوسٹ نہیں کیا۔
دوستوں کے ذریعے سے اس کی خبر ملتی رہتی تھی، اس کے والد نے پردیس میں جو اس کا رشتہ طے کیا تھا وہ ٹوٹ گیا تھا پھر اس کے بعد مشعل نے شادی سے انکار کردیا تھا۔
میں نے اس دن اپنے رب سے دُعا کی۔ اے رب کائنات میری بچپن کی معصومیت اور اخلاص کے صدقے مجھے سکون کی نعمت عطا فرما۔ میری خطاﺅں سے درگزر فرما۔ اے پروردگار عالم! تو جانتا ہے جب میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا جب ہمارے استاد نے کہا تھا کل تمام بچے ایک خط لکھ کر لائیں گے یہ خط وہ اس کے نام لکھیں گے جس سے وہ سب سے زیادہ پیار کرتے ہوں گے تو اے رب کریم میں نے یہ خط آپ ہی کے نام تو لکھا تھا۔

اس دن میری اکتیسویں سالگرہ تھی میں گھر میں تنہا بیٹھا اس کو یاد کر رہا تھا میری نظر اخبار پر پڑی خبر تھی، لیجنڈ گلوکار صداقت علی عرصہ دراز سے ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور تنہائی کے عذاب سے گزر رہے ہیں ان کے مداح بھی ان سے ملتے نہیں آتے، ماضی میں شہرت کے آسمان پر چمکنے والا آفتاب اب بے کسی سے زندگی کے دن پورے کررہا ہے ماضی کو فراموش کرکے میں اس سے ملنے ہسپتال پہنچ گیا۔
میں نے دیکھا: وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں شناسائی ابھری۔ ارشد مسعود قدوسی اس کے ہونٹوں سے نکلا اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے، کافی دیر وہ خاموش رہنے کے بعد بولا:
وقت کی چاپ کس نے سنی ہے جاﺅ وقت کو پازیب پہنا دو بڑی خاموشی ہے۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولا: قدوسی صاحب! یہ مصروف لوگ مجھے دفنا بھی پائیں گے یا نہیں۔
اس لمبی بیماری نے مجھے بہت فائدہ دیا ہے میں سب کو پہچان گیا ہوں اور خود کو بھی مجھے آگہی کی نعمت اسی بیماری نے دی ہے۔ شہرت کا سورج عین سر پر ہو تو اپنا سایہ بھی نظر نہیں آتا۔
پھر اچانک مشعل کمرے میں داخل ہوئی، میں نے اسے سات سال بعد دیکھا تھا: وہی لفظوں کو اعتبار بخشتا حسن، وہی جاگتے چہرے پر سوئی ہوئی آنکھیں اس نے میری طرف دیکھا اور پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
پھر وہ اپنے باپ کے پہلو میں بیٹھ گئی۔
صداقت علی خان نے پہلے میری طرف اور پھر اپنی بیٹی مشعل کی طرف دیکھا اور بولے: مجھے اپنے فیصلے پر دُکھ اور پچھتاوہ ہے ہو سکے تو تم دونوں مجھے معاف کردینا اور پھر مشعل کا ہاتھ پکڑ کر میرے ہاتھ میں دے دیا اور بولے: میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں بیٹیاں اگر ماں باپ کی دعاﺅں کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کریں تو منزلیں ان کے پاﺅں کے نیچے بچھا دی جاتی ہیں۔

اور پھر میری طرف دیکھا اور بولے: تمہارا کوئی سوال ہے؟
جی :میں نے جواب دیا۔
مشعل نے پہلی بار زندگی میں میری طرف حیرانی سے دیکھا تھا میں مجاز سے حقیقت کا سفر کرنا چاہتا ہوں۔
میرے دو سوال ہیں
رب کہاں سے ملتا ہے
اور
میں بادشاہ بننا چاہتا ہوں چاہے ایک دن کے لیے ہی کیوں نہ ہو، ایسا کیوں ہے۔
صداقت علی ہلکا سا مسکرائے اور بولے:
محبت تو ایک بینائی ہے تم نے محبت سے کچھ بی نہیں سیکھا؟
سنو!
ربّ کہیں گم نہیں ہوا کہ جسے ڈھونڈنا پڑے ربّ نے تو اپنا مسکن بتا دیا ہے کہ وہ اپنے بندے کی شہ رگ سے قریب رہتا ہے رب کو اپنے اندر سے دریافت کرنا پڑتا ہے جاﺅ جنون کے جھاڑو سے اپنا میلا اندر صاف کرو اور اخلاص کا دِیا مَن میں جلاﺅ، ربّ نظر آجائے گا۔

اب رہا دوسرا سوال
رب اور بندے کا یہی تو اختلاف ہے بندہ چاہتا ہے جو یہ ایک دن کی عارضی زندگی ہے وہ بادشاہ بن کر گزارے مگر رب کہتا ہے او جھَلّیا یہ ایک دن کی عارضی زندگی میں غلامی اختیار کرلے میں نہ ختم ہونے والی ابدی زندگی میں تجھے بادشاہ بنا دوں گا۔
اور پھر ماضی کا لیجنڈ گلوکار سانسوں کی دوڑ ہار گیا اور پھر ہم نے ان کے چہرے پر چادر ڈال دی ہم دونوں ہی نہیں پورا ہسپتال دو رہا تھا اور پھر ارشد مسعود قدوسی ”ایک دن کا بادشاہ“ بننے کی بجائے ”غلام“ بن چکا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles