Apnay Honay Ki Gawahi - Article No. 1471

اپنے ہونے کی گواہی - تحریر نمبر 1471

جب تہذیبوں کو زوال آتا ہے تو وقت کی نعمت واپس لے لی جاتی ہے اور لوگوں کے پاس اپنوں کو دفنانے کے لیے بھی وقت نہیں رہتا

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی جمعہ 1 ستمبر 2017

جب تہذیبوں کو زوال آتا ہے تو وقت کی نعمت واپس لے لی جاتی ہے اور لوگوں کے پاس اپنوں کو دفنانے کے لیے بھی وقت نہیں رہتا۔ نسلوں کا ضمیر مر جائے تو شہر شہر قابیل بن جایا کرتے ہیں۔ حسد اور خون حکمرانی کرنے لگ جاتے ہیں، جگنو شہر کا راستہ بھولنے لگتے ہیں، دلوں کی بینائی رات بن جایا کرتی ہے۔ پھر یہاں ہر شخص سورج کا پتا پوچھتا پھرتا ہے۔ کھلونوں کی جگہ دل ٹوٹنے لگتے ہیں، کوئی مجھ کو یا میں خود کو قتل نہ کردوں ہر شخص دوسرے سے اور خود سے ہی خوفزدہ رہنے لگ جاتا ہے۔

خامشی کا زہر پئے سنسان گلیاں آہٹوں کی آس لیے اونگھتی رہتی ہیں۔ رزق کا ایسا قحط پڑتا ہے کہ جو بھی پردیس جاتا ہے پلٹ کر نہیں آتا۔ اہل قلم بجائے رہنمائی کے اسی شاخ کو کاٹنا شروع کر دیتے ہیں جس پر وہ خود بیٹھے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

قومیں جنتریوں کی آہنی سلاخوں والی زنداں میں اسیر ہو جایا کرتی ہیں اور غربت اس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ یہاں کسی کو بھی اپنے ہونے کی گواہی نہیں ملتی۔

اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے، سرخ آنکھوں میں اشکوں کا سیلاب تھا، پھر وہ گنگنایا۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اس نے بات جاری رکھی۔
قصہ حاتم طائی کے مطابق جب حاتم کوہِ ندا کا سراغ لگانے پہنچتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک پہاڑ کے قریب ہی ایک شہر آباد ہے، اس شہر کے باسی یوں تو بہت خوش رہتے ہیں مگر گاہے بگاہے اس پہاڑ سے یا اخی یا اخی کی صدا بلند ہوتی ہے اور بھری محفل میں موجود ایک نہ ایک شخص ہوش کھو کر اس پہاڑ کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے، حاتم کی بے تحاشا کوششوں کے باوجود پھر وہ شخص کوئی بات نہیں کہتا اور نہ ہی پھر وہ کبھی واپس آتا ہے مگر جس بات پر کہانی کے اس ہیرو کو حیرت ہوتی ہے وہ یہ کہ ایسے کسی شخص کے رشتہ دار اس کے کھو جانے پر ماتم نہیں کرتے، چھاتی نہیں پیٹتے بلکہ ضیافتیں کرتے ہیں اور خوش نظر آتے ہیں، جب حاتم استفسار کرتا ہے تو کہتے ہیں یہی ہماری روایت ہے اور اگر اس پر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو فوراً یہاں سے چلے جاﺅ۔

آج کے دور کا المیہ کیا ہے؟
میں نے پھر سوال کیا۔
ہر دور کا ایک المیہ ہوتا ہے اور آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ ہم امن عدل کیے بغیر چاہتے ہیں، امن ہمیشہ عدل کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور عدل کے لیے ضروری ہے کہ منصف کو رہا کر دیا جائے۔
اور آپ کا المیہ؟
ہمیں نفرت کی اجازت نہیں ہے۔
شیطان سے بھی نہیں؟
نہیں اس سے بھی نہیں ”ا س نے جواب دیا“
ابلیس تو قابل رحم ہے۔
رحمان اور غفار سے مایوس ہوگیا، اپنی انا کی آگ کی خاطر آگ، پانی، مٹی اور کائنات کو پیدا کرنے والے رب کائنات کو چھوڑ بیٹھا ہے، کیا اس سے زیادہ کوئی قابل رحم ہوسکتا ہے؟ جو جنت چھوڑ کر جلتے صحرا کی سلگتی دھوپ کے جہنم میں آن بیٹھے کیا وہ احمق قابل رحم نہیں ہے۔ ابلیس ایک عبرت کا نام ہے۔ عبرت کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی کے استاد سے سیکھ کر حال کی قلم سے اپنا مستقبل خود تحریر کرو۔

یہ میری اس سے دوسری ملاقات تھی۔
میں اسے ایک سال سے دیکھ رہی تھی، میں اور بابا روز سرِ شام واک کے لیے باغ جناح آتے تھے۔ ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد میں نے پریکٹس شروع نہیں کی تھی بلکہ بابا کے ساتھ ان کے وسیع پھیلے بزنس میں ان کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ میں نے اسے ہمیشہ اسی بنچ پر پتھر بنے سوچتے دیکھا تھا۔ معمولی شکل و صورت، سادہ سا وہ ایک عام سا شخص تھا۔
غالباً وہ مجھ سے دو ایک سال بڑا ہوگا۔ میں سوچتی یہ کون ہے؟ یہ کیا سوچتا رہتا ہے، یہ اسی بنچ پر کیوں بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ اکیلا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اس کا نام کیا ہے کیا اس کے دوست نہیں ہیں، میں نے صرف ایک بار اس کو کسی دوست کے ساتھ دیکھا تھا جب پاس سے گزرتے ہوئے ایک لمبی توند والے شخص کو دیکھ کر اس نے مسکرا کر اپنے ساتھی سے سرگوشی کی تھی، پیٹ کو ہمیشہ دل سے چھوٹا ہونا چاہیے۔

پھر میں خود کلامی کرتی یہ جو بھی ہے مجھے اس سے کیا، میں کیوں اسے فوکس کرتی ہوں، مجھے یہ عام سا آدمی خاص کیوں لگتا ہے، اس کے چہرے کی کتاب کا سر ورق اجنبی کیوں نہیں لگتا۔ کیا یہ بھی میرے بارے میں سوچتا ہوگا، کیا گمان ٹرانسفر ہوتا ہے۔ میں کیوں خوامخواہ اس کے بارے میں سوچتی ہوں اللہ نے مجھے کیا کچھ نہیں دیا تھا دولت، تعلیم، عزت اور قابل رشک حسن، گھر میں میں سب کی آنکھ کا تارا تھی، لوگ میرے حسن کا حوالہ دیا کرتے تھے۔
کبھی کبھی میں سوچتی بن مانگے یہ مجھے سب کچھ کیسے مل گیا، مجھے کوئی دکھ کیوں نہیں ہے۔ میں جس زینے پر بھی پاﺅں رکھوں وہ زینہ کامیابی کی طرف کیوں چل پڑتا ہے۔
اس رات نہ جانے کیا ہوا میرے اندر سوالوں کی فصل اگ آئی۔ سوالوں کے کیکٹس میری روح کو زخمی کرنے لگے۔ اس رات میں نے اپنے پسندیدہ افسانہ نگار عکس بخاری کی ایک نئی کہانی پڑھی جس کا موضوع تھا ”یتیم“ اس نے لکھا تھا ہم سب لوگ یتیم ہیں، جو ہمارے سروں پر ہاتھ رکھے گا محترم بن جائیگا کیونکہ یتیم کا مفہوم ہوتا ہے جذباتی تنہائی کا شکار اور ہم سب لوگ جذباتی تنہائی کا شکار ہیں۔
اس دن نہ جانے مجھے یہ کیوں لگا جیسے میں وہ بیش قیمتی جہیز کا سامان ہوں جسے طلاق کے بعد دلہن کے گھر والوں کو واپس بھیج دیا گیا ہو۔
اس دن میرے ساتھ بابا نہیں آئے تھے، لارنس میں سیر کرتے ہوئے دوسرے چکر کے بعد میں غیر ارادی طور پر اس کے بنچ کے پاس رک گئی۔ آپ کا نام کیا ہے؟ آپ پتھر بنے کیا سوچتے رہتے ہیں؟
میرے سوال پر اس نے خواب سے بوجھل آنکھیں اٹھائیں اور آہستہ سے بولا۔

ہم کچی نیند کے ادھورے خواب جیسے لوگ فصلِ بے خوابی بو کر خواب ڈھونڈتے رہتے ہیں، ہم جیسے لوگوں کے نام نہیں ہوتے، ہمارا حوالہ صرف ”عام“ ہوتا ہے، ہم صرف اسرارِ کائنات پر غور کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ عمر حیرت میں گزار دیتے ہیں، فطرت ہمارے حیرت زدہ چہرے دیکھ کر زیرِ لب مسکراتی رہتی ہے۔ رہا دوسرا سوال، پتھر سے انسان کا تعلق ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔
پتھر کے زمانے میں انسان پتھر سے پتھر کو رگڑ کر آگ جلاتا تھا حالانکہ یہ آگ اسے اپنے اندر جلانا چاہیے تھی تاکہ اسے اپنے ہونے کی گواہی ملتی، شاید اسی لیے وہ پتھر میں کیڑے کو رزق دینے والے رب کو نہ پہچان سکا اور اس کی عقل پر پتھر پڑ گئے، پھر اس نے پتھر سے بت بنائے اور آذر بن گیا، پھر انہی ہاتھ سے بنائے پتھر کے بتوں کو پوجنا شروع کر دیا، اسی دیوانگی میں اس نے قیس اور مجنوں پر پتھر برسائے، لفظوں کے کنکر پھینکے، خاموش چٹانوں پر اپنی ہی آواز کی گونج پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتھر کا ہوگیا، دکھ درد اور محبت سے ناآشنا بے حس صرف پتھر....
میں نے طنزاً کہا ہم صرف مسلمان خواب دیکھنے کے لیے ہی رہ گئے ہیں، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ہم خوابوں سے باہر نہیں نکلے، یہ ہر ملک مسلمانوں کے ملک پر ہی لشکر کشی کیوں کرتا ہے؟
وہ مسکرایا اور بولا
جہاں مردار ہوگا وہاں گدھ تو آئیں گے ناں
میں اس کا جواب سن کر لرز گئی، میرے اندر بھی تو بدنما خیالوں کے گدھ اترتے ہیں، کہیں میرے اندر بھی تو مردار نہیں۔

اس کا حل کیا ہے؟ میں نے سنبھل کر سوال کیا!
دیکھیں کمزور کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ طاقتور کے ساتھ جڑا رہے اور فانی کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ لافانی سے اپنا تعلق نہ توڑے اور اسی سے جڑا رہے ورنہ فطرت کا قانونِ متبادل ہر لمحہ جاری ہے۔ ذرے ذرے کی Replacement موجود ہے، جو بھی اپنی جگہ چھوڑے گا دوسرا اس کی جگہ لے لے گا، ہماری نادانی یہ ہے کہ ہم اپنی جگہ چھوڑ کر یہ توقع رکھتے ہیں کہ کوئی ہماری جگہ نہ لے۔

یہ ہماری پہلی ملاقات تھی اور پھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ چل نکلا، میں جب بھی لارنس آتی تو اس کے پاس جا بیٹھتی، اپنے سوالوں کی خار دار ٹہنیاں اس کو دے دیتی اور وہ اس پہ جوابوں کے گلاب ٹانک دیتا۔ ایک اور بات بڑی عجیب ہوئی اور وہ عام سا عام سی شکل و صورت والا شخص مجھے انتہائی خوبصورت لگنے لگ گیا تھا۔
میں نے ایک دن اس سے سوال کیا چیزیں خوبصورت کیوں لگتی ہیں، وہ مسکرایا اور بولا محبت سے دیکھنے سے۔
محبت میں سب سے اہم اجمال ہے، خالقِ کائنات سب سے بڑا جمال والا ہے، محبت ہر چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہے اور سنو چاہے جانے سے شباہتیں ملنے لگتی ہیں۔
ایک دن کہنے لگا اس شخص سے شادی کرنا جو آپ کو لکھنے سے نہ روکے بلکہ حوصلہ افزائی کرے مگر میں تو لکھتی ہی نہیں۔
آپ کو لکھنا چاہیے آپ بہت اچھا لکھیں گی۔
وہ صحیح کہتا تھا، اب میرا شمار دیس کے اچھے لکھنے والوں میں سرِفہرست ہے۔

جب میں دو ماہ یورپ میں رہنے کے بعد واپس پہنچی تو وہ اسی طرح بنچ پہ بیٹھا سوچ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر پہلی بار اس کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر آئے۔ میں نے کہا اس معاشرے میں ہر کوئی تنہا ہے، اپنی ذات کا اکیلا ذمہ دار، اپنی ہی ذات کے گرد گھومتا تنہا معاشرہ ہر فرد تنہا اور اکیلا ہے مجھے تو اپنے لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک اپنا ہی ملک اچھا لگتا ہے۔
آپ کو کیا اچھا لگتا ہے؟ میں نے سوال کیا۔ کہنے لگا جس قوم کے حروفِ تہجی الگ الگ ہوں گے ان کا معاشرہ اکٹھا کیسے رہ سکے گا اور پھر اس نے میری آنکھوں میں جھانکا اور بولا مجھے جھیلیں اچھی لگتی ہیں۔
اور پھر میرے سرخ گالوں نے ایک نئے جنم کو جنم دیا۔ میں نے کہا میں روز آپ سے سوال پوچھنے آتی ہوں مگر میں آج آپ سے ایک سوال کرنے آئی ہوں۔
وہ مسکرایا اور کہنے لگا۔

ہم دونوں میں ایک چیز مشترک ہے ہم دونوں دعا ہیں اور دعاﺅں پر کبھی بدنصیبی کی دھول بھی نہیں پڑ سکتی، میں ایک غریب ماں باپ کی دعا ہوں اور آپ ایک مصور کی دعا ہیں، آپ سے درخواست ہے آپ لکھنا نہیں چھوڑیں گی۔
آج ہماری شادی کی دسویں سالگرہ ہے، تمام مہمان جا چکے ہیں، سامنے لان میں وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ میں من کے مندر میں اپنے ہم سفر کے بت کی پوجا کر رہی ہوں جس نے جگنوﺅں کے قلم سے محبت کی روشنائی سے میری زندگی کے اجالے لکھے اور اس رب ذوالجلال کا شکر ادا کر رہی ہوں جس نے کرنوں کی انگلی پکڑ کر میری جھولی میں ڈال دی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ شادی سے کچھ دن پہلے مجھے معلوم ہوا بنچ پر بیٹھنے والا وہ شخص جو میرے بچوں کا باپ اور میرا ہمسفر ہے، وہی میرا پسندیدہ رائٹر عکس بخاری تھا جس نے مجھے مجھ کو متعارف کروا کے اتنا امیر کر دیا ہے کہ اب مجھے اپنے ہونے کی گواہی مل گئی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles