Bdalty Din - Article No. 1621

Bdalty Din

بدلتے دن - تحریر نمبر 1621

ہر طرف برف ہی برف نظر آتی تھی صنوبر کے لمبے لمبے درخت برف کی چادر اوڑھے ہوئے تھے سطح زمین سے سات ہزار فٹ کی بلندی پرواقع ایک چھوٹے سے گھر کے مکین بھی سردی اس شدت کی وجہ سے پریشان تھے

اے حمید جمعہ 8 دسمبر 2017

عزیز الطاف:
جاڑا عروج پر تھا اور ہر طرف برف ہی برف نظر آتی تھی صنوبر کے لمبے لمبے درخت برف کی چادر اوڑھے ہوئے تھے سطح زمین سے سات ہزار فٹ کی بلندی پرواقع ایک چھوٹے سے گھر کے مکین بھی سردی اس شدت کی وجہ سے پریشان تھے پرندے اپنے گھونسلوں میں دبک کر بیٹھے ہوئے تھے ہو ا بہت تیز تھی دور دور تک برف کے علاوہ کچھ اور نہیں نظر آتا تھا ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ایک خاتون اس کے گھر سے باہر نکلتی جس کے ہاتھ میں لوہے کا بیلچہ ہوتا وہ برف کو گھر کے صحن سے باہر دھکیلتی اور جلدی سے اندر لوٹ جاتی، اس دفعہ جاڑا پچھلے سال کی نسبت زیادہ پڑرہا تھا اوپر پہاڑوں پر برف بہت تیز تھی سات ہزار کی بلندی پر واقع اس مکان میں تین لوگ رہتے تھے گل خان گل نسیم اور ان کی پانچ سالہ بیٹی عائشہ ان کے مکان کی دیواریں صنوبر کی لکڑی سے بنائی گئیں تھیں جس کی چھت پر سٹیل کی چادر ڈالی گئی تھیں سٹیل کی چادر برف کو اوپر سے ٹھہرنے نہ دیتی تھیں۔

(جاری ہے)

مگر اس بار ان کی چھت پر برف رک جاتی تھی جسے بار بار اوپر جاکر اتارنا پڑتا تھا۔یہ کام گل خان خود کرتا تھا گل خان کے گھر کے پاس ہی آلو بخارے سیب اور اخروٹ کے کئی درخت تھے گل خان ان درختوں پر لگے پھل اتارتا تھا اور مالک سے اس کی مزدوری وصول کرتا تھا وہ انہیں روپوں سے گھر کا سامان خریدتا تھا سامان میں سے بیچ جانے والے روپوں کے خشک میوہ جات خریدلیتا تھا وہ پہاڑیوں سے نیچے وادی میں مہینے میں صرف ایک دو بار جایا کرتا تھا وادی سے ہی وہ سامان اور میوہ جات لے کر سات ہزار کلومیٹر کی بلندی پر واپس لوٹ جایا کرتا تھا اسی سامان سے وہ پورا مہینہ گزارا کیا کرتے تھے گل خان کے پاس ایک بکری تھیں جس کا رنگ سفید اور کالا تھا بکری کی کھال لمبے لمبے خوبصورت بال تھے ااور اس کے سر پر لگے دو سینگ اسے مشکلات سے بچاتے تھے بکری عائشہ کے دودھ کے لیے کام آتی تھی۔
عائشہ اس بکری سے خوب کھیلا کرتی تھی اور ماں کے روکنے کے باوجود اسے اندر کمرے میں لے آیا کرتی تھی،گل خان کو مالک کی طرف سے پھل اتر جانے کے بعد کوئی اور اجرت نہ ملتی تھی اور وہ اسی مزدوری پر باقی مہینے گزارا کرتا تھا گل خان خشک میوہ جات گھر کے باہر ایک چھوٹی سی ٹوکری میں سجا کر رکھتا تھا جب کوئی سیاح اوپر کا رخ کرتا تو کبھی کبھار اس کا ڈرائی فروٹ بک جایا کرتا تھامگر چند دنوں میں کوئی سیاح پہاڑوں پر نہیں آیا تھا گل خان بار بار کھڑے ہوکر نیچے دیکھتا کہ شاید کوئی سیاح اوپر آتا ہو مگر وہ مایوس ہوکر دوبارہ ٹوکری کے پاس بیٹھ جایا کرتا تھا سیاح اور موسم کی شدت کی وجہ سے آدھے راستے میں مڑ کر واپس چلے جایا کرتے تھے۔
پہاڑوں پر برف تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور سردی بڑھتی چلی جارہی تھیں سیاحوں کی آمدورفت میں بھی تیزی سے کمی ہورہی تھیں گل خان کے پاس صرف چند دنوں کا راشن بچا تھا اور کچھ خشک ڈرائی فروٹ جو وہ ٹوکری میں لگایا کرتا تھا ایک رات گل خان اسی پریشانی میں اپنے بستر پر پڑاتھا باہر ہوکا عالم تھا چھوٹے سے گھر کے اندر وہ تینوں سہم کر بیٹھے ہوئے تھے شدید بارش ہونے لگی اور اس کے ساتھ تیز ہوائیں چلنے لگیں،تیز ہوا کی وجہ سے صنوبر کے درختوں کے پتوں کی آوازیں اندر تک سنائی دیتیں تھیں عائشہ جو صرف پانچ برس کی تھیں بجلی کے گرجنے کی آواز سن کر رونے لگ پڑی اور ماں اُسے تسلی دیتے ہوئے بولی:
”چپ کرو بیٹا دیکھو صبح ہونے والی ہے صبح سورج نکلے گا تمہیں ابا کے ساتھ باغ میں سیر کے لیے جانے دوں گی اب سوجاؤں ۔
مگر ننھی عائشہ اس رات کافی دیر تک روتی رہی اور پھر روتے روتے خود ہی سوگئی اتنی بلندی پر اگر کسی صبح سورج اپنا دیدار کرادے تو وہ ان لوگوں کے لیے بڑا حسین دن ہوتا تھا ابھی آدھی رات باقی تھیں اور صحن پر برف جم چکی تھیں اوپر چھت پر بھی کافی برف رکی ہوئی تھیں گل خان بار بار باہر جاتا تھااور برف کو گھر کے صحن اور چھت سے ہٹا کر واپس اندر آجاتا تھا وہ اپنی بیوی کے منع کرنے کے باوجود یہ عمل بار بار دہراتا تھا ساری رات وہ برف ہٹاتا رہا اور فجر کے قریب وہ بستر پر آکر لیٹ گیا بارش رک چکی تھی اور ہلکی ہلکی برف باری دوبارہ ہونے لگی تھی گل خان نے اپنی بیوی اور عائشہ کو سوتے ہوئے دیکھاتوکچھ دیرکے لئے خود بھی سونا چاہا مگر وہ سردی سے شدید کانپ رہا تھا وہ بستر سے اٹھا اور سٹیل کے چھوٹے سے صندوق سے ایک پرانی گرم چادر نکالی اور اسے رضائی کے اوپر ڈال کر پھر لیٹ گیا ان کے لکڑی کے دروازے کے نیچے سے تیز ہوا اندر آرہی تھی جسے اندر سے روکنے میں وہ ناکام رہا تھا۔
وہ کچھ دیر ہی لیٹا تھا کہ دروازے کے نیچے سے سفید روشنی اندر آنے لگی وہ جان گیا تھا کہ صبح ہوگئی ہے گل خان تیز بخار اور سر میں درد کی وجہ سے لیٹا رہا مگر وہ سونہ پایا تھا اس کا پورا بدن کانپ رہا تھا اور جسم میں درد ہونے لگ گئی تھی گل خان نے اپنی بیوی جوعائشہ کے ساتھ دوسری چارپائی پر سورہی تھی اسے آواز دی: ”گل نسیم مگر وہ سن نہ پائی وہ دوبارہ بولا: عائشہ کی ماں،”لیکن جوان ندارد گل خان نے چارپائی سے اٹھنے کی بھرپور کوشش کی تاکہ وہ سٹیل کے صندوق کے اوپر پڑا گلاس اٹھاسکے وہ ناکام رہا رات کو تیز ہوا ور برف کی وجہ سے اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تھیں وہ وہیں پڑا رہا پچھلی رات سردی کی بھرپور شدت اس کی جان لے چکی تھی اور اپنی چارپائی پر مردہ حالت میں پڑا تھا صبح گل نسیم کی آنکھ کھلی تو اس نے گل خان کو کہا۔
اٹھیں اب دیکھے دن اتر آیا ہے لیکن کوئی جواب نہیں ۔گل نسیم اپنے شوہر کی چارپائی کے قریب گئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بولی جاگ جائیں اس کی بیوی کو گل خان کا ہاتھ برف سے زیادہ ٹھنڈا لگا تو وہ اچانک بولی کیا ہوا آپ کو؟“ مگر جواب ندارد۔پھر گل نسیم گل خان کے سرہانے کے قریب بیٹھ کر روتی رہی عائشہ اٹھی تو ماں نے اسے کہا ادھر آؤ عائشہ وہ آئی اس کی ماں بولی دیکھو تمہارے ابا ہمیں چھوڑکر چلے گئے ہیں یہ کہتے ہی گل نسیم رونے لگی عائشہ جو چھوٹی سی پانچ سال کی بچی تھی ماں کی بات کو سمجھ نہ سکی اور اپنی بکری کے قریب چلے گئی سات ہزار فٹ کی بلندی پر گل نسیم اکیلی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اب کیا کرے ،اچانک سے ان کا دروازہ کھٹکا اور وہ ڈر گئی کیونکہ اتنی بلندی پر ان کا کوئی جاننے والا نہیں تھا اور سیاح بھی کم ہی اوپر آتے تھے،پھر یکدم سے اسے خیال آیا کہ شاید کوئی سیاح ہی ہوں ،اس نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک نوجوان سردی میں شدید کانپ رہا تھا دروازہ کھلتے ہی وہ بنا اجازت جلدی سے اندر داخل ہوگیا،گل نسیم نے اس کے اندر آتے ہی فوراً دروازہ بند کردیا تاکہ سردی سے بچا جاسکے نسیم اب پریشان بھی تھی اور ساتھ ہی ساتھ مطمن بھی تھی۔
پریشان اس وجہ سے تھی کہ گل خان کی لاش بستر پر پڑی تھی وہ گل خان جوان کا واحد سہارا تھا اور مطمن اس واسطے تھی کہ شاید اللہ نے اس کی مدد کے لئے کسی کو اس کی طرف بھیجا ہوتا کہ گل خان کی تدفین ہوسکے۔گل نسیم نے اسے بیٹھنے کا کہا اور جلدی سے کتیلی میں سے گرم قہوہ ڈال کر اسے ہاتھ میں تھما دیا نوجوان قہوہ پینے کے بعد آپنے آپ کو پرسکون محسوس کرنے لگا،گل نسیم اس طرف دیکھتے ہوئے بولی:تم کون ہوں ؟یہاں کیسے پہنچے؟ اجنبی نوجوان نے گل نسیم کو بتایا کہ وہ اپنے گروپ کے ساتھ اوپر پہاڑوں پر آیا تھا اور راستے میں اپنے گروپ سے جدا ہوگیا تھا۔
اسے نہیں معلوم کہ اس کا باقی گروپ کہاں ہے اور کس حالت میں ہے وہ بولا:‘ میں تو بس اس چھوٹے سے گھر کو دیکھ کر ادھر آگیا ہوں اور اب اکیلا ہوں۔پھر اس اجنبی نوجوان نے پوچھا وہ چارپائی پر کون لیٹا ہے؟اس کی یہ بات سنتے ہی نسیم رو پڑی اور بولی وہ میرے میاں ہیں اور چپ ہوگئی اچانک اجنبی بولا آپ رونے کیوں لگی ہیں؟سب خیریت تو ہے؟گل نسیم بولی گل خان پچھلی رات شدید سردی برداشت نہیں کرسکا اور ہمیں چھوڑ گیا ہے۔
یہ سنتے ہی وہ بولا مجھے معاف کیجیے گا مجھ سے غلطی ہوگئی وہ بولی نہیں کوئی بات نہیں پھر اجنبی نوجوان نے گل خان کو غسل دیا اور ان کے گھر کے باہر والے صحن میں دفنا دیا۔گل نسیم اب اتنی بلندی پر عائشہ کے ساتھ اکیلی تھی اور اب وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا کرے نوجوان راستہ بھولا ہوا تھا اور گل نسیم سارے راستوں سے واقف تھی ادھر برف تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی گھنٹہ رکتی تو دو گھنٹے پڑتی تھی۔
گل نسیم نے اجنبی نوجوان سے رکنے کو کہا اور اس سے وعدہ کیا کہ برف رکتے ہی وہ اسے نیچے وادی کا راستہ بتادے گی اجنبی بھی راضی ہوگیا وہ گل نسیم کے ہاں دودن رکا اس دوران عائشہ اس کی اچھی دوست بن چکی تھی اخر نوجوان نے تیسرے دن گل نسیم سے اسے پہاڑوں کے نیچے لیے جانے کا کہا تاکہ وہ واپس اپنے گھر لوٹ سکے گل نسیم مان گئی پر چھوٹی عائشہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا دوست چلا جائے۔
وہ رونے لگی جس پر نسیم نے اسے کہا”عائشہ رومت“تمہارے دوست کل دوبارہ آئیں گے ابھی انہیں کام سے نیچے وادی تک جانا ہے نوجوان نے گل نسیم کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگا دو دن کے دوران گل نسیم اور اجنبی نوجوان نے ناصرف ایک دوسرے کی مدد کو پسند کیا بلکہ ایک دوسرے کو بھی پسند کرنے لگے تھے اور اب عائشہ نوجوان کے رکنے کا ایک اور بہانہ بن گئی تھی۔
عمیر پہاڑیوں پر رہنے کا پہلے ہی شوقین تھا وہ ہر سیزن برف باری دیکھنے آیاکرتا تھااور اس کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کا پہاڑیوں پر گھر ہو جہاں ٹریفک کا دھواں اور ہارن بجاتی گاڑیوں کی آوازیں اس کے کانوں تک نہ پہنچ سکیں اس کی یہ خواہش پوری ہوگئی تھی۔اب وہ چاروں گل نسیم،عمیر(اجنبی)عائشہ اور ان کی بکری سات ہزار کی بلندی پر رہنے لگے تھے عمیر انہیں سیب آلو بخارے اور اخروٹ کے درختوں کی طرف روز جایا کرتا تھا اور وہاں سے سوکھی لکڑیاں لیے آیا کرتا تھا وہ مہینے میں ایک بار نیچے وادی میں جاکر لکڑیاں بیچ آیا کرتا تھا سردی کم ہوئی تو سورج اپنی جھلک دکھانے لگ گیا عائشہ سارا دن اپنی بکری سے کھیلا کرتی تھی جب سے عمیر ان کے گھر آیا تھا تب ہی سے سیاح بھی اوپر آنے لگے تھے اور گل خان کی وہ ٹوکری جسے لے کر وہ باہر بیٹھا کرتا تھا اب اکثر سامان سے خالی رہتی تھی۔
کچھ عرصے کے بعد گل نسیم کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تو ان کے گھر میں مزید خوشیاں آگئیں۔

Browse More Urdu Literature Articles