Bila Unwaan - Article No. 1499

Bila Unwaan

بلا عنوان - تحریر نمبر 1499

جب مائیں بچوں کو صداﺅں میں رکھنا چھوڑ دیں تو بچے گم ہو جایا کرتے ہیں اور جب راستے ہی سفر چھپانا شروع کر دیں تو قدموں کے کارواں بے توقیر ہو جایا کرتے ہیں

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی منگل 19 ستمبر 2017

جب مائیں بچوں کو صداﺅں میں رکھنا چھوڑ دیں تو بچے گم ہو جایا کرتے ہیں اور جب راستے ہی سفر چھپانا شروع کر دیں تو قدموں کے کارواں بے توقیر ہو جایا کرتے ہیں، شاید وہ صحیح کہتی تھی، سفر ہوتا ہی پگڈنڈیوں کا ہے، باقی تو صرف دھول اڑتی ہے۔ جب بیک وقت کئی منظر آپ کے سامنے ہوں اور اطراف میں کھیل تماشے اور میلے ہوں تو سفر رک جاتا ہے اور پھر کوئی منزل تک نہیں پہنچ پاتا اور جب منزل نہ ملے تو زندگی اجنبی ہو کر کوری کتاب بن جایا کرتی ہے جس کا کوئی عنوان نہیں ہوتا۔


میری ذات کے ساتھ کئی المیے وابستہ ہیں۔ ابھی آنکھوں کی عدت پوری نہیں ہوتی اور میرا ایک اور خواب مٹی اوڑھ لیتا ہے۔ کبھی کبھی دل و دماغ کی سرسبز زمین بنجر ہو جاتی ہے اور پھر اس ریگستان میں عرصہ دراز تک خوابوں اور خیالوں کی فصل نہیں اگتی۔

(جاری ہے)

مجھے یوں لگتا ہے میری زندگی صرف پیاس کی وجہ سے ہے میں جس دن سیراب ہوا مر جاﺅں گا۔ مجھے مادے سے نفرت اور انسانوں سے محبت ہے مگر مجھے انسانوں کو ڈھونڈنے کے لئے تاریخ میں جانا پڑتا ہے۔

اگرچہ میں سگ گزیدہ اور مردم گزیدہ ہوں مگر میرا دل چاہتا ہے کہ پیاسے ہونٹوں کے مقبروں پر شفاف میٹھے چشموں کے ہار ڈالوں نہ جانے میرا دل یہ کیوں چاہتا ہے کہ کوئی تو مجھ کو بھی ایسا ملے جو مجھ کو مجھ سے بھی زیادہ چاہے کوئی تو مجھ سے لپٹ کے ایسا بھی روئے کہ مجھ کو ہی مار ڈالے۔ کوئی تو مجھ کو بھی ایسا کندھا ملے جس پہ میں سر رکھ کر پھوٹ کر روﺅں اور تتلی سے بھی ہلکا ہو جاﺅں۔
کوئی تو مجھے ایسا بھی ملے جو مجھے ریشمی لہجے میں پکارے اور میرے ہونٹوں پہ کھڑی فصیلوں کو گرا دے۔ کوئی تو ہو ایسا بھی جس کی مہکتی یاد میرے دل کے کاسنی زینے پر دبے پاﺅں اتر کر بیٹھ جائے۔
دیے کی بینائی دھندلا گئی تھی سیاہ شب نے صبح کا سفید آنچل پہن لیا تھا مگر آج بھی میری آنکھوں کی خواب گاہ میں نیند کی پریاں نہیں اتری تھیں جب بادِ صبا نے میری پلکوں کی ردا کو چھوا تو میں سوچ رہا تھا میں بھی کتنا سادہ تھا مکان بھی بنایا تو صرف ایک ستون کا اور جب وہی ایک تھم گرا تو سارا مکان ہی ملبہ بن گیا اور میں اس مکان کے ملبے تلے دبا سوچ رہا ہوں کہ میں کون ہوں میں خود سے اجنبی کیسے ہوا لوگ مجھ سے اجنبی کیوں ہوئے کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ میں نفرت کے اظہار میں بدلحاظ اور محبت کے اظہار میں گونگا تھا۔
کہیں میرا کوئی لمحہ محبت کے بغیر تو نہیں گزر گیا کہیں میں نے تجارت کو محبت پہ ترجیح تو نہیں دے دی۔ میری ماں نے مجھے صداﺅں میں رکھنا کیوں چھوڑا شاید مجھ سے غلطی ہو گئی تھی میں اسے یقین دلا بیٹھا تھا کہ اب میں بڑا ہوگیا ہوں اب مجھے فیصلوں کا اختیار مل گیا ہے۔ فضاﺅں میں لہراتی ہر پتنگ کو بھی یہ زعم ہو جاتا ہے کہ اب اسے ڈور کی ضرورت نہیں۔
میں کیا ہوں؟ کنواں، پیاسا یا ڈول مگر ان تینوں کا آپس میں تعلق کیسے بنا وہ سچ کہتی تھی غریب لڑکی جس کی آنکھوں میں جادو تھا۔ بلندیوں کے سحر میں تم مجھ کو چھوڑ کر جا تو رہے ہو مگر یاد رکھنا کنویں کو معتبر ہمیشہ پیاس ہی بناتی ہے۔ میں اس کی بات سمجھ نہ سکا کیونکہ میں غلام کا بیٹا تھا غلامی ذہنوں کو صحرا بنا دیتی ہے اور لہجوں کو دسمبر غلام کے پاس تعبیر دیکھنے والی آنکھ نہیں ہوتی غلام کو آزاد بھی کر دو تو وہ صدیوں من و سلوٰی کا غلام رہے گا اسے پنجرے میں پڑی سونے کی کٹوری بھاتی رہے گی۔
ایک انجانے خوف کا بھوت اس کا پیچھا کرتا رہے گا۔ میرے پاس آنکھ ہوتی تو میں سمجھ پاتا کہ میرے قائد نے تو مجھے ملک نہیں ایک مینار والی مسجد لے کر دی تھی جس کے باسیوں کا مذہب پاکستان اور دین اسلام ہونا چاہئے تھا مگر میں غلام ہی رہا اور اس سجدہ گاہ کا احترام نہ کرسکا یہ ایک درویش کی طرف سے تحفہ تھا مگر میں اس تحفے کی قدر نہ کرسکا اور ناقدر اور بے مروت کہلایا۔
یہ ملک ایک عہد تھا جسے میں ایفا نہ کرسکا اور پھر آسمان والا شاید ہم سے ناراض ہوگیا۔ شاید اسی لئے ہمارے دلوں کی گلیاں سونی پڑی ہیں ہمارے گھر مکان بن گئے ہیں اب کوئی کوا منڈیر پر آکر نہیں بولتا ہماری درس گاہوں کی فصیلیں بادلوں کو چھو رہی ہیں جون میں بھی خوف کی دھند نہیں چھٹتی۔ وہ کہتی تھی جب انسان مادہ بن جائے اور سر نہ رکھنے والے بھی خود سر ہو جائیں تو فطرت انتقام لیتی ہے اور پھر برف راستوں پر جمے خواب کبھی نہیں پگھلتے گیسﺅں میں سجے پھول کسی کی توجہ کا مرکز نہیںبنتے اور مرجھا جایا کرتے ہیں اور پھر لفظوں کا سفر قوموں کو تھکا دیتا ہے۔
ہر شخص دوسرے کے لئے اجنبی بن جاتا ہے لفظ کنکر اور لہجے آتش فشاں بن جاتے ہیں اور تہذیبیں وحشت میں بدل جاتی ہیں انسان انسانوں کو نگلنا شروع کر دیتے ہیں ماں اپنی مالکن کو جنم دینے لگتی ہے۔ منزلیں خواب اور راستے سراب بن جاتے ہیں۔ دل مردہ اور غم زندہ ہو جاتے ہیں ۔ خامشی کا اژدھا سب کو نگل جاتا ہے۔ سناٹا کاٹنے کو دوڑتا ہے اور پھر انسان خاموش چٹانوں سے جا کر زور زور سے بولتا ہے اور دیر تلک ان کی گونج سن کر خود کو زندہ ہونے کا احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے۔

اور پھر وہ چلی گئی اب اس کی آنکھیں خشک تھیں مگر آنچل سارا بھیگ چکا تھا جاتے جاتے اس نے میرے آنگن میں لگے پیڑ کو دیکھا اور بولی سنو اشجار کو بھی رداﺅں کی ضرورت ہوتی ہے وگرنہ اس کے پتے بکھر جاتے ہیں۔ تم بھی تاجر ہی نکلے جو کہتے ہو مجھے محبت میں کیا ملا۔محبت تو خود ایک منزل ہے اس میں حاصل یا لاحاصل کا ذکر کیسا تمہارے اندر بے یقینی کا اندھیرا کیوں ہے یادوں کے چراغ تو سارے اندھیرے مٹا دیا کرتے ہیں۔
محبت کے بغیر زندگی گزارنے والے معاشرے مرنے والوں پر نہیں جینے والوں کی بے کسی پر روتے ہیں اور یاد رکھو سیلاب کے بہاﺅ کے ساتھ بہنے والے تنکوں اور محبت کے بغیر زندگی کا کوئی عنوان نہیں ہوتا۔ صرف بلاعنوان ہوتا ہے۔ کئی دن سے اخبار کے ایڈیٹر کا فون آ رہا تھا کہ میگزین کے لئے کوئی نیا افسانہ بھیجیں مگر نہ جانے کیوں کئی مہینوں سے ذہن ماﺅف سا ہوگیا تھا کوئی نیا آئیڈیا کوئی نیا خیال نہیں آ رہا تھا یوں لگتا تھا وقت تھم گیا ہو ذہن کی زمین بنجر ہو گئی ہے۔
کئی بار قلم اٹھایا بھی مگر کوئی نئی سوچ نہیں آئی اور قلم دوبارہ رکھ دیا کبھی کرداروں کا ایک ہجوم میرے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتا تھا اور التجا کرتا تھا میری کہانی لکھو مگر اب میرے بلانے پر بھی آنے کو تیار نہ تھے اور گونگے بن گئے تھے۔ کبھی رات ہوتے ہی لفظوں کا ایک اژدھام میری خواب گاہ میں پہنچ جاتا تھا مگر اب ان سب کے چہروں پر بے رخی تھی شاید زمینوں کی طرح ذہنوں پر بھی موسم خزاں آتا ہے۔
پھر میں نے سوچا دوسرے لکھنے والوں کی طرح میں بھی لکھوں کہ وہ ایک غریب لڑکی تھی اس پر سسرال والے جہیز کم لانے پر ظلم کرتے تھے اور پھر ایک اور چولہا پھٹ گیا مگر پھر میں نے سوچا جب ہم اللہ کے دیے حق وراثت کو چھوڑ کر ایک غیر اسلامی جہیز کی رسم کو اپنائیں گے تو پھر نتائج بھی ایسے ہی نکلیں گے۔
پھر میں نے سوچا میں ایک مظلوم مزارع کی کہانی لکھوں کہ وہ ایک غریب مزارع تھا اس کا وڈیرہ جاگیردار اس پر بہت ظلم کرتا تھا اسے بہت کم معاوضہ دیتا تھا جس سے اس کی دو وقت کی روٹی بمشکل پوری ہوتی تھی۔
پھر میں نے سوچا مظلوم سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہوتا جو ظلم سہہ کر ظالم کا حوصلہ بڑھا دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر بھی اسی طرح ظلم کرے۔ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے اور ہجرت میں برکت بھی ہے یہ مزارع اپنے رب کو نہ پہچان سکا جو اس کے وڈیرے کو بھی رزق دیتا ہے اور یقینا اسے بھی دے گا۔
پھر میں نے سوچا عورت کی مظلومیت پر لکھوں، حقوق نسواں پہ لکھوں کہ پاکستان میں عورت بہت مظلوم ہے پھر میں نے سوچا اس ملک میں مرد بھی تو مظلوم ہے وہ باہر سے ملنے والا ظلم گھر میں منتقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ساس بہو کی لڑائی۔ نند بھابھی کی لڑائی، دیورانی اور جیٹھانی کی لڑائی تو کیا عورت ہی عورت کی دشمن ہے اتنے دشمن رکھنے والا یقینا کمزور ہو جائیگا اور ظلم کا شکار ہوگا۔
پھر میں نے سوچا اس بچے پر لکھوں جس کو میں نے کل گاﺅں میں دیکھا تھا اس ننھے سے بچے کو اس کی ماں گھر دیر سے آنے پر مار رہی تھی اور ماں کے ساتھ ہی چمٹتا اور لپٹتا جا رہا تھا اور پھر ماں نے اسے سینے سے لگالیا اور خود رونے لگ گئی اور بولی پتر میں تیرے بغیر اداس ہو جاتی ہوں ۔
دور مت جایا کر گم ہو جائے گا اور پھر اس کو اتنا پیار کیا کہ بچہ ماں کی گود میں سکون سے سوگیا۔ مگر پھر میں شرمندہ ہوگیا اور قلم رکھ دیا اور سوچنے لگا میں بھی کتنا کم ظرف اور برا ہوں ستر (70) ماﺅں سے زیادہ پیار کرنے والا میرا پروردگار مجھے ہر لمحہ سرگوشیوں اور پانچ مرتبہ میری فلاح کے لئے اونچی آواز میں بلا رہا ہے اور میں مسلسل سمتِ مخالف میں بھاگ رہا ہوں۔

اور پھرمیں نے فیصلہ کیا کہ آج کا افسانہ میں اپنی ذات کے اوپر لکھوں گا۔ اور پھر میں نے یہ افسانہ لکھ کر ایڈیٹر کو دے دیا۔
ایڈیٹر نے میرے دیئے ہوئے کاغذ کو حیرانی سے دیکھا اور پھر پریشانی سے میری طرف دیکھا اور بولا عجمی صاحب یہ کیا ہے؟ آپ کا افسانہ کہاں ہے صفحے کے اوپر لکھا ہے ”بلاعنوان“ اور سارا صفحہ خالی ہے اور نیچے صرف آپ کا نام لکھا ہے یہ سب کیا ہے عجمی صاحب
میں نے کہا :
ایڈیٹر صاحب یہ افسانہ میں نے اپنے اوپر لکھا ہے یہ صرف میری ہی نہیں کروڑوں اور اربوں لوگوں کی کہانی ہے۔
یہ سارے لوگ مجھ سمیت پیدا ہوتے ہیں کھاتے پیتے ہیں معاشرے کے دباﺅ اور وقت کے بہاﺅ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں اور مر جاتے ہیں اور وقت کی کتاب پر کچھ بھی نہیں لکھ پاتے یہ سب کوری کتاب کی طرح ہوتے ہیں اور کوری کتاب کبھی بھی کسی لائبریری کا حصہ نہیں ہوتی۔ ایڈیٹر صاحب پھروقت کی برسات ان کی قبروں تک کے نشانات مٹا دیتی ہے اور چند ہی سالوں بعد یہ ایسے ہی ہو جاتے ہیں جیسے دنیا میں کبھی آئے ہی نہیں تھے۔
کہانی بننے کے لئے اور تاریخ میں رہنے کے لئے ہر جگہ اور بلندی پر پہنچنا پڑتا ہے جہاں صرف گرد اور دھول ہی جاسکتی ہے مگر یہ بات ہم اور آپ نہیں سمجھ سکتے یہ بات صرف عاجز ہی سمجھ سکتے ہیں۔
ایڈیٹر صاحب میرا افسانہ بھی ایسا ہی ہے میں بھی لاش کی طرح وقت کے بہاﺅ کے ساتھ بہتا رہا ہوں میں نے بھی ہر انا رکھنے والے کی طرح اینٹ کا جواب پتھر سے دیا ہے۔ میں نے عمر نفرت کے صحرا میں گزاری ہے اور میں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فرشتے سچ کہتے تھے کہ اللہ تو اس کو پیدا تو کر رہا ہے مگر یہ زمین پر فساد کرے گا۔
وہ صحیح کہتی تھی۔
بہاﺅ کے ساتھ بہنے والے تنکوں اور محبت کے بغیر زندگی کا کوئی عنوان نہیں ہوتا صرف بلاعنوان ہوتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles