Chandni - Article No. 1497

Chandni

چاندنی - تحریر نمبر 1497

کریم بخش اپنے گھر کے صحن میں بے قراری سے ٹہل رہا تھا۔ پریشانی کے عالم میں بار بار اس کے ماتھے پر پسینہ آجاتا جسے وہ اپنے ہاتھوں سے پونچھ لیتا

پیر 18 ستمبر 2017

چاندنی:
مسرت واحد خان:
کریم بخش اپنے گھر کے صحن میں بے قراری سے ٹہل رہا تھا۔ پریشانی کے عالم میں بار بار اس کے ماتھے پر پسینہ آجاتا جسے وہ اپنے ہاتھوں سے پونچھ لیتا۔ پریشانی اس کی بجا تھی کیونکہ اس کے گھر میں نیا بچہ آنے والا تھا۔ اوراس کے لب دعا کررہے تھے۔پہلے اس کی دوبیٹیا تھی اب اس کی بیوی رشیدہ کی دلی خواہش تھی کہ خدا ان کو بیٹا دے۔
ان کے لب باربار بیٹا ہونے کی دعا نکلتی ۔ لیکن اس بار بھی بیٹی ہوئی ہے دائی نے کہا۔دیکھو کتنی خوبصورت ہے کہ چاند بھی اسے دیکھ کر شرما جائے اس نے کی طرف بچی بڑھائی۔کریم بخش پر بچی کے پیدا ہونے کا سن کر اوس پڑگئی۔ بے دلی سے بچی کو گود میں لیا اور منظوراں سے بیوی کی خیریت کا پوچھنے لگا۔

(جاری ہے)

وہ بالکل خیریت سے ہے پر بیٹی ہونے سے افسردہ ہے۔ تم ہی جاکے اسے سمجھاؤ۔

یہ تو خدا کی دین ہے اس میں بھلا بندے کا کیا قصور ہے۔ منظوراں کریم بخش کو سمجھاتے ہوئے بولی اور وہ بوجھل بوجھل قدموں کے ساتھ کمرے کے اندر گیا اور بیوی کو تسلی دینے لگا۔ بچی کو اس کے پہلو میں لٹایا اور اسے نظر بھر کے دیکھا تو حیران رہ گیا واقعی منظوراں سچ کہتی ہے سرخ سفید رنگ،تیکھے نقش والی بڑی پیاری بچی تھی۔اس طرف اپنی پیاری پیاری آنکھوں سے دیکھ رہی تھی وہ اسے غور سے دیکھ کر بیٹا نہ ہونے کا غم بھول گیا اور بے اختیار بیوی سے کہنے لگا دیکھ کتنی پیاری بچی اللہ نے ہمیں عطا کی ہے۔
اس کا نام تو میں چاندنی رکھوں گا۔ چاندنی اس گھر میں کیا آئی جیسے اس گھر میں رحمت آگئی۔کریم بخش کو دفتر میں ترقی ملی اور اللہ ے اس کی دیرینہ خواہش بھی پوری کی۔اس کے ہاں بیٹا ہوا تو چاندنی کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ۔خوبصورتی تو اسے قدرت کی طرف سے ملی تھی۔پیار محبت والدین سے وافر مقدار میں ملا تو وہ مغرور ہوگئی اس کی دوبڑی بہنیں سکول جاتی تھی اب چاندنی کی بھی سکول جانے کی عمر ہوئی تو کریم بخش نے رشیدہ کو کہا کہ چاندنی کوسکول میں داخل کرایا جائے۔
رشیدہ نے کریم بخش کو انکار کردیا کہ میری بہت خوبصورت بچی ہے میں اسے سکول نہیں بھیجوں گی کہیں کوئی اسے اٹھا کر ہی نہ لے جائے یہ چاندنی کے مستقبل میں پہلا روڑا تھا جو اس کی ماں نے اٹکایا اور یوں کریم بخش خاموش ہوگیا۔ چاندنی سارا دن ماں کے ساتھ لگی رہتی اس کی بہنیں رفتہ رفتہ پڑھتی گئیں اور یوں دبے پاؤں وقت گزرتا گیا اور رشیدہ کریم بخش بوڑھے ہوگئے ان کے بچے جوان ہوگئے ۔
کریم بخش نے اپنی دو بڑی بیٹیوں کی شادی اپنی سروس کے زمانے میں کردی۔ اب وہ ریٹائر ہوگئے چاندنی کی انہیں کوئی فکر نہ تھی کیونکہ بقول ان کے کہ وہ چاند کا ٹکڑا ہے ۔ اس کیلئے رشتوں کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ جب وہ چاہیں گے شادی کردیں گے۔ چاندنی ان پڑھ تو تھی لیکن گھر میں رہ کے گھر کے کاموں میں بھی دلچسپی نہ لی۔ ہر وقت بناؤ سنگھار کرتی رہتی اور بڑے سہانے خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھتی کہ کوئی شہزادہ آئے گا جس کے پاس بڑی گاڑی ہوگی رہنے کے لئے ایک بہت بڑا محل ہوگا آگے پیچھے نوکر چاکر ہوں گے۔
وہ اسے اس جھونپڑی سے بیاہ کر اپنے محل لے جائے گا۔ ایک دن خدا کا کرنا کیا ہواکہ کریم بخش سڑک عبور کرتے تیز رفتار ٹرک کے نیچے آگیا اور بری طرح کچلا گیا۔ رشیدہ پہ تو غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اس نے تو کبھی سو چا ہی نہیں تھا اسے ایسے دن بھی دیکھنے پڑیں گے۔ کریم بخش کے مرنے کے بعد گھر میں انتشار سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اس کا بیٹا جسے وہ بڑھاپے کا سہا را سمجھتی تھی ۔
باپ کے مرنے کے بعد ایسی بری صحبت میں پڑا بالکل بے کار اور نکما ہوگیا بلکہ چھوٹی چھوٹی چوریاں بھی کرنے لگا۔ جس کی وجہ سے ان کا گھر جو کبھی عزت دار گھرانہ کہلاتا تھا۔ لوگوں کی نظروں میں کھٹکنے لگا۔ محلے کے لڑکے ان اس گھر کے ارد گرد منڈلانے لگے کیونکہ پورے محلے میں چاندنی کے حسن کی دھوم تھی کریم بخش کے زندہ ہونے تک تو کوئی اس گھر کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا تھا۔
اب گھر کے سربراہ کا سایہ اٹھ جانے سے لوگ بھی شیر ہوگئے تھے۔ رشیدہ یہ سب کچھ دیکھ کر بوکھلا گئی۔ وہ بیٹی جس کا بوجھ کبھی پھولوں سے بھی ہلکا لگتا تھا اب منوں بھاری لگنے لگا۔ چاندنی کی تو ایک دم دنیا بدل گئی۔ ماں جو اس کے صدقے واری جاتے نہ تھکتی تھی اب اس کی نظروں میں وہ خارسی بن گئی۔ بات بات پہ ٹوکنا اور جھڑکیں دینا اس کا معمول بن گیا۔
اب تو ماں کو اس کے حسن سے خوف آنے لگا تھا۔ دوپٹہ ٹھیک طرح سے اوڑھو، آنکھیں نیچی رکھو، بال کھلے نے چھوڑو، دروازے کے باہر نہ جھانکو۔ ماں اسے ہر وقت اسی طرح ٹوکتی وہ تو ایسی باتیں سننے کی عادی نہ تھی اسی وجہ سے وہ چڑ چڑی ہوگئی اور ماں کے سامنے بولنے لگی تھی۔ رشیدہ چاہتی تھی کہ جلد از جلد کوئی رشتہ آئے اور وہ چاندنی کے فرض سے سبکدوش ہوجائے رشتہ کرانے والی مائی کو کہا تو وہ ان گنت رشتے لے آئی ۔
چاندنی پسند تو سب کو آجاتی لیکن ساتھ کوئی جہیز کی فرمائش کرتا تو کوئی چاندنی کی تعلیم نہ ہونے پہ اعتراض کرتا اور کوئی گھر کی غربت دیکھ کر ناک بھوں چڑھاتا۔ آخر ایک رشتہ رشیدہ کو پسند آگیا متوسط گھرانے کا لڑکا تھا۔ گاؤں کے رہنے والے تھے۔ لڑکے کی شکل وصورت واجبی سے تھی۔ رشیدہ نے سوچ سمجھ کر ہاں کردی اور چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کردیا۔ شادی والے دن آس پڑوس ے دلہا کی شکل دیکھی تو چاندنی کے مقابل وہ انہیں کچھ بھی نہ لگا۔
وہ چاندنی کی قسمت پہ افسوس کرنے لگے۔ چاندنی نے جب لوگوں کی باتیں سنی جو دلہن بنی آسمان کی حور لگ رہی تھی۔ آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر رونے لگی میں اتنی خوبصورت اور میرا شوہر بدصورت یہ کہاں کا انصاف ہے۔ وہ خود ہی سے سوال کرکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کے خوابوں کے محل ٹوٹ کر چکنا چور ہوگئے تھے اور وہ جب اپنے میکے گھر سے رخصت ہوئی اور سسرال میں قدم رکھا تو اسے سسرال والوں سے اسی لمحے نفرت ہوگئی اور شوہر کو اس نے دل سے قبول نہ کیا۔
حالانکہ وہ اس سے بے تحاشہ محبت کرتا اس کے ہر ناز نخرے برداشت کرتا لیکن چاندنی پھر بھی خوش نہ ہوتی۔ اس طرح دن گزرتے گئے لیکن چاندنی ہروقت مغموم اور اداس رہتی ایک دن اداسی کے عالم میں وہ چھت پر چلی گئی اس کے لمبے لمبے بال کھلے ہوئے تھے اور ایسے لگ رہے تھے جیسے چاند کے آگے پیچھے کالے بادل آگئے ہون۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی کہ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اسے کوئی دیکھ رہا ہے۔
اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے والی حویلی میں سے لمبا اونچا سرخ وسفید لڑکا اس کی طرف دیکھ رہا تھا بالکل اس کے خوابوں جیسا شہزادہ ، وہ بھی اسے دیکھنے لگی وہ مسکر ااٹھا تو چاندنی ہڑ بڑا سی گئی اور اپنی نظریں نیچی کرکے سڑھیوں کی طرف بھاگی۔ اس کا دل بے تحاشہ دھڑک رہا تھا وہ سیدھی اپنے کمرے میں آئی اور پلنگ پر لیٹ کر اپنی بے ترتیب سانسوں کو درست کرنے لگی۔
دوسرے روز ٹھیک اسی وقت وہ بے قرار ہوگئی اور مقناطیسی انداز میں اس کے قدم چھت کی طرف اٹھنے لگے اور وہ بھی اس کے انتظار میں کھڑا تھا جیسے وہ ضرور آئے گی۔ دونوں نے بے خودی کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر دونوں کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ اور چاندنی شرما کے بھاگ آئی اور پھر رفتہ رفتہ دونوں کے تعلقات استوار ہونے لگے وہ سامنے والی حویلی جو ایک بہت بڑے زمیندار کی تھی ان کا لڑکا رحمن تھا جو شہر میں تعلیم حاصل کررہا تھا ۔
اب چھٹیاں ہونے پہ گاؤں چلا آیا تھا۔ چاندنی کے رحمن کے ساتھ جب سے تعلقات ہوئے تو کھل اٹھی اور چوکڑیاں بھرنے لگی۔ اس کے شوہر نے خدا کا شکر ادا کیا کہ چاندنی خوش تو ہوئی وہ تو اس کی ادائیں دیکھ کرمرنے لگا اور اس قدر حسین بیوی ملنے پر خدا کا شکر ادا کرتا لیکن اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ اس کی حسین وجمیل بیوی کیا گل کھلا رہی ہے۔ اپنی نوکرانی سے رحمن کے گھر کا کھوج لگایا تواسے پتہ چلا کہ رحمن اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے سینکڑوں مربع زمین کا واحد مالک ہے۔
شہر میں ایک بہت بڑی کوٹھی میں رہتا ہے۔ نوکر چاکر کسی چیز کی کمی نہیں۔ چاندنی نے جب یہ سنا تو اسے اپنے خواب پورے ہوتے ہوئے نظر آئے ۔ اس نے دل میں تہیہ کرلیا کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے کر رحمن سے بیاہ کرے گی خواہ دنیا کچھ بھی کہے۔ اب وہ وقتاََ فوقتاََ چھت پہ جا کے رحمن سے اشاروں میں باتیں کرتی۔ آخرایک روز اس نے ملنے کا رحمن سے اقرار کرلیا۔
وہ پہلی اور آخری بار اس طریقے سے اس سے ملنا چاہتی تھی اور اسے بتادینا چاہتی تھی کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے کرتمہارے ساتھ شادی پر رضا مند ہے۔ رحمن نے اسے اس کے گھر کے پیچھے کھیتوں کے قریب ایک بھوسے کی ٹوٹی پھوٹی کوٹھری میں رات کو ملنے کا کہا تو اس نے کہہ دیا کہ وہ ضرور آئے گی۔ سارادن اس کا پریشانی کے عالم میں گزرا۔ رات کو جب ملنے کا وقت ہوا تو وہ بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اس کا شوہر جو بے خبری کے عالم میں سویا ہوا تھا سے بہت معصوم لگا پہلی بار اسے اس سے ہمدردی کا احساس ہوا۔
تمہیں بہت چاہتا ہے۔ چاندنی سے اس کے ضمیر نے کہا۔ آخر میں ہوں ہی چاہے جانے کے قابل اتنی خوبصورت ہوں اس کا اندر کا غرور بولا اس نے چادر اپنے اردگرد لپیٹی ابھی وہ باہر نکلنے کو تھی کہاس کی ساس کے کھانسنے کی آواز آئی وہ رک گئی اس کی ساس نے اٹھ کر پانی پیا پھر سو گئی۔ چاندنی نے اس کا پندرہ منٹ انتظار کیا تاکہ وہ اچھی طرح سوجائے اور پھر گھر کے باہر کے دروازے کی چٹخنی کھول کے وہ باہر گلی میں نکل آئی اس کے قدم ڈگمگارہے تھے۔
وہ تیزی سے اس کو کوٹھری کی طرف چلنے لگی وہ پسینہ سے شرابور ہوگئی تھی۔ کوٹھری کے قریب اسے ایک کتا کھڑا نظر آیا تو وہ کوٹھری کی پچھلی جانب سے گئی ابھی وہ نزدیک ہی پہنچی تھی تو اسے باتوں کی آواز سنائی دی تو ٹھٹک کررک گئی۔ اندر سے نشے میں لڑکھڑاتی ہوئی آواز آئی یار اتنی دیر ہوگئی ہے سالی کہاں مرگئی۔ تم تو کہتے تھے وہ ضرور آئے گی۔ ہاں یار وہ ضرور آئے گی میں نے محبت کا پرفریب ڈھونگ رچایا ہے۔
اس کے حصار سے وہ نکل نہیں سکتی دیکھنا وہ ضرور آئے گی۔ رحمن نے کہا تو چاندنی جہاں تھی وہ رک گئی ۔ وہ سکتے کے عالم میں تھوڑی دیر کے لئے چلی گئی ۔ ایک دم اسے ہوش آیا میں نے ایسا تو نہیں چاہا تھا جیسا رحمن نے سوچا اس نے اپنے آپ سے کہا اور گھر کی طرف بھاگیاس پناہ گاہ کی طرف جہاں اس کی عزت تھی اس پہ جان نچھاور کرنے والا شوہر تھ۔ جہاں اس کے حسن کر پرستش کرنے والا شوہر تھا اور یہی پرستش اس جیسی عزت دار عورت کی فخر کی علامت تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles