Do Lamhay - Article No. 1175

Do Lamhay

دو لمحے - تحریر نمبر 1175

وہ باتھ روم کے آئینے میں اپنی ہی آنکھوں میں رات دیکھے خواب کی پرچھائیاں تلاش کررہاتھا۔ ڈھلتی عمرکے ساتھ آنکھوں میں خواب کی جگہ آسیب اتر آتے ہیں۔

جمعہ 3 فروری 2017

ارشد محمود:
وہ باتھ روم کے آئینے میں اپنی ہی آنکھوں میں رات دیکھے خواب کی پرچھائیاں تلاش کررہاتھا۔ ڈھلتی عمرکے ساتھ آنکھوں میں خواب کی جگہ آسیب اتر آتے ہیں۔ اچھے برے اعمال کا بوجھ۔ کندھوں پر رکھی بینگھی کے دونوں پلڑوں کی جنبش اور پل صراط پر توازن برقرار رکھنے کی کوشش۔ خوف سے لرزاں تھکن سے چور اور ندامت کے پسینہ میں شرابور بدن۔

۔۔۔۔ ہاتھ پر پانی کی دھار نے خیال کی رو کو حقیقی دنیا سے جوڑ دیا۔ نظر واش بیسن پر گئی۔ اور سامنے کے منظر سے ایک چھناکا ہوا۔ کبھی کبھی اچانک لمحے وارد ہوتے ہیں ، ہاتھ تھام کر ساتھ بہا لے جاتے ہیں ، اْس گھڑی اس کے ہاتھ میں پانی کی ٹھنڈی دھار کے ساتھ کسی بچھڑے لمحہ کا لمس بھی آن ٹکا۔۔۔۔۔ بجلی کی سی تیزی سے اسکا بایاں ہاتھ پانی کے بہاوکو روکنے کے لی? ٹونٹی کے ہینڈل پر گھوما اور اس سے کئی گنا تیزی سے دائیں ہاتھ سے اس نے چیونٹی کو شہادت کی انگلی پر اٹھا لیا، چیونٹی بے سدھ اسکی انگلی پر ساکت پڑی تھی۔

(جاری ہے)

۔۔۔ وہ بھی تو اس دن یونہی ساکت تھا۔۔۔۔۔ چڑیا کا وہ ننھا سا بچہ۔۔۔۔ ایک اوربھولے بسرے لمحے نے اس کا ہاتھ تھام لیا، 7 سال کی بالی عمر کے وہ دن تھے جب دیکھ کر سیکھنے اور کر گزرنے کا جنوں جا بجا بھٹکائے رکھتا ہے ،جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں ہر ذی روح اپنی اپنی پناہ گاہ میں دبکا ہوا تھا، وہ ایر کنڈیشن کی نرم خنکی میں گھلتی سانسیں اور بند پپوٹوں کو نظر انداز کرتا پیاس سے بلبلاتے چڑیا کے بچے کی دھیمی پڑتی آواز کے تعاقب میں اس گھنے پیڑ تک جا پہنچا جہاں چڑیا نے بچے دے رکھے تھے۔
پیلی پڑتی گھاس پر گرا چڑیا کا وہ بے بال و پر بچہ گرمی اور پیاس سے نڈھال تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی پسینے سیبھیگی ہتھیلی پر رکھ لیا۔۔۔۔۔۔ نرم گوشت کے اس پار ننھے سے دل کی دھڑکن صاف محسوس کی جا سکتی تھی کچھ دیر اس کو ہاتھوں میں لی? گھومنے کے بعد اچانک اسکے ذہن میں ایک خیال آیا، جو دو روز قبل اس کے چچا کے مرغی ذبحہ کرنے کے تجربہ سے منسلک تھا۔
اگلے ہی لمحہ وہ سبزی کاٹنے والی چھری سے چڑیا کے بچے کا گلا کاٹ چکا تھا۔ ننھا سا بدن لمحے بھر کو تڑپ کر ہمیشہ کے لیئے ساکت ہو گیا۔۔۔۔۔۔ لیکن اس ہولناک تجربہ کے اختتام سے قبل ہی اسے وہ سکوت اپنی روح میں اترتا ہوا محسوس یوا۔۔۔۔۔۔ وہ بوجھ۔۔۔۔۔ وہ اذیت۔۔۔۔۔ جوناحق جان لینے والے ہر شخص کا مقدر ہوتی ہوگی۔ احساسِ گناہ نے اسے اوّلین انسانی قتل کے بعد نعش کو زمین گھود کر ٹھکانے لگانے کی ترغیب دی۔
۔۔۔۔۔کوّے کی ان سنی ان دیکھی واردات کی طرح۔۔۔۔۔۔۔ وہ شاید بھلے زمانے تھے۔۔۔۔۔۔انسان تو کیا انسانی لاشوں کی بے حرمتی بھی ممنوع تھی۔۔۔۔۔۔ اس نے اْسے گھر کے ایک غیر آباد کونے میں مٹی تلے دبا تو دیا۔ لیکن وہ کونا ہمیشہ اسکے دل میں قدیم قبرستان کی طرح آباد رہا۔۔۔۔۔۔۔ منظر دھندلانے لگا۔۔۔۔۔۔ شہادت کی انگلی پر دھری چیونٹی کو اس نے انتہائی آہستگی سیواش بیسن کے خشک حصہ پر اتارا۔۔۔۔۔ نہ جانے کتنی صدیاں بیت گئیں یاس و بیم میں۔ پھر چیونٹی نے ڈھلوان کی جانب سفر شروع کیا۔۔۔۔۔۔اس نے دھندلائے ہوئے آئینے پر ہاتھ پھیرا۔۔۔۔۔۔آنکھوں کے نم گوشوں کے باوجود۔۔۔۔۔۔سانس میں سکینت بھری ہوئی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles