Dolat Rahi Na Shohrat - Article No. 1151

Dolat Rahi Na Shohrat

دولت رہی نہ شہرت - تحریر نمبر 1151

اب وہ گلیوں میں مارا مارا کیوں پھرتا ہے؟ احمد کے والد شہر کے امیر ترین آدمی تھے احمد کو اپنے والد کی دولت پر بڑا ناز تھا۔ معمول کی مطابق صبح اٹھا ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر سکول پہنچ گیا آج اس کا موڈ اچھا نہ تھا۔ اردو کا پیریڈ شروع ہوگیا آج اس کا عنوان تھا ”میں بڑا ہو کر کیا بنوں گا“ سر اسد نے شروع کیا کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے

جمعہ 20 جنوری 2017

حنا سراج:
اب وہ گلیوں میں مارا مارا کیوں پھرتا ہے؟ احمد کے والد شہر کے امیر ترین آدمی تھے احمد کو اپنے والد کی دولت پر بڑا ناز تھا۔ معمول کی مطابق صبح اٹھا ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر سکول پہنچ گیا آج اس کا موڈ اچھا نہ تھا۔ اردو کا پیریڈ شروع ہوگیا آج اس کا عنوان تھا ”میں بڑا ہو کر کیا بنوں گا“ سر اسد نے شروع کیا کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنو گے۔
کسی نے کہا میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا۔ کسی نے کہا میں فوج میں جاوٴں ،میں ٹیچر بنو ں گا۔ جب احمد کی باری آئی تو اس نے کہا مجھے کچھ بننے یانوکری کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے پاس دولت ہی اتنی ہے کہ گھر بیٹھ کر کھا سکیں۔ سر اسد نے اسے سمجھایا کہ محنت کرو اور اپنا نام روشن کرو ، دولت آنی جانی چیز ہے اپنے پاپا کی دولت پر ناز نہ کروں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔

(جاری ہے)

احمد پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اگلی کلاس انگلش کی تھی اتفاق سے انگلش کی کلاس میں بھی یہی عنوان تھا۔ مس عائشہ نے بھی سب سے باری باری یہی سوال کیا۔ سب بچوں نے وہی جواب دیا۔ احمد کا جواب سن کر مس کو بڑی حیرت ہوئی۔ مس نے احمد کو سمجھایا لیکن احمد کا موڈ خراب تھا اس لئے اس نے مس سے بدتمیزی کی وہ احمد کو ہیڈ ماسٹر کے پاس لے گئی۔ لیکن احمد نے ہیڈ ماسٹر سے بھی بدتمیزی کی اور سکول سے چلا گیا گھر جاتے ہی کمپیوٹر پر گیم کھیلنے لگا۔

دن گزرتے گئے اب وہ بیس سال کا تھا آوارہ لڑکوں کے ساتھ وقت گزارتا اور رات کو واپس آتا اس کے والد سمجھتے کہ وہ پڑھ کر تھک گیا ہے وہ حقیقت سے بے خبر تھے ان کا اکلوتا بیٹا کیا گل کھلا رہا ہے اپنا وقت کس طرح سے ضائع کررہا ہے۔ ایک دن احمد کے گھر ایک آدمی آیا اور اس نے بتایا کہ اس کے پاپا کی فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے اور وہ آگ مذاق مذاق میں تمہارے آوار دوستوں نے لگائی ہے۔
اب وہ وقت بھی آگیا والد ین دنیا سے کوچ کر گئے۔ اس پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی والدین کی وفات کے بعد اب وہ اکیلارہ گیا جب اس کو پتہ چلا کہ یہ گھر کسی اور کا ہے اور اس کے ابو پر بہت سے قرضے تھے یہ سنتے ہی وہ بے ہوش ہوگیا۔ اب وہ گلیوں میں مارا مارا پھرتا ہے،اس کے سر پر والدین کا سایہ نہ دولت رہی۔اب وہ کس بات پرغرور کرتا۔

Browse More Urdu Literature Articles