Dukh Bhari Dunia - Article No. 1518

Dukh Bhari Dunia

دکھ بھری دنیا - تحریر نمبر 1518

ڈسکو گانے کی تیز آواز سن کر میں جاگ اٹھی غصے سے میرا دماغ پھٹنے لگا آخر اس لڑکی کو کب عقل آئے گی میں بڑبڑاتی ہوئی اٹھی

جمعرات 28 ستمبر 2017

دکھ بھری دنیا
مسرت واحد خان:
ہمسائیوں کے گھر سے ڈسکو گانے کی تیز آواز سن کر میں جاگ اٹھی غصے سے میرا دماغ پھٹنے لگا آخر اس لڑکی کو کب عقل آئے گی میں بڑبڑاتی ہوئی اٹھی اور باہر کھلنے والی کھڑکی بند کردی جس سے قدرے شور کم ہوا ۔ لیکن میری نیند اچاٹ ہوچکی تھی۔ اس لڑکی رینا کا کیا بنے گاجو ہمارے معاشرے کے رسم ورواج گلیوں سے بالکل مخالف چل رہی ہے ناچنا گانا لڑکوں کے ساتھ دوستی رکھناگلیوں میں آزاد نہ گھومنا اس لڑکی میں کوئی بھی مشرقی لڑکیوں والی بات نہیں تھی۔
ماں باپ اس کی حرکتیں دیکھ کر بجائے اس کی اصلاح کرنے کے اس کا ساتھ دیتے ۔ بات صرف یہ تھی کہ وہ والدین کی اکلوتی اولاد تھی ایک اولاد ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ اسے سر پہ سوار کرلو۔

(جاری ہے)

میں خود سوچے جارہی تھی مجھے رینا کی اس طرح کی حرکتیں دیکھ کر بہت افسوس ہوتا تھا کئی بار اسے سمجھا بھی چکی تھی کہ تمہاری عادتیں تمہاری دشمن ہیں ۔ ان کو چھوڑ دو وہ میری بات کو ہنسی میں اڑا دیتی۔

باجی یہی تو زندگی ہے مجھے اپنی مرضی سے جینا اچھا لگتا ہے۔ میرا دل جو چاہتا ہے میں وہی کرتی ہوں۔ ہنسو گاؤ کھاؤ اور عیش اڑاؤ میں یہی کرتی ہوں ۔ باجی مجھے وہ لڑکیاں زہر لگتی ہیں جو کس کے دوپٹہ اوڑھے آنکھیں جھکائے اپنے بڑوں کی ہر نصیحت پر عمل کرکے جو زندگی گزارتی ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے پہلے ماں باپ کے شکنجوں میں جکڑی ہوتی ہیں اور پھر شوہر کے پنجے کے نیچے آجاتی ہیں اور پھر بھی بے وقوف خوش اور مطمئن رہتی ہیں وہ طنزیہ ہنسی ہستی ہوئی بولی۔
لیکن ہمارا دین ہمارا معاشرہ ہماری ثقافت یہی تو چاہتی ہے میں نے کہا۔ وہ بولی مجھے تو مغربی لڑکیاں اچھی لگتی ہیں اپنی مرضی کی مالک ۔ تم مغرب کی بات کرتی ہو مغرب میں جا کر ان عورتوں کے نزدیک رہ کر دیکھو تو تمہیں پتہ چلے کہ وہ کتنی دکھی ہوتی ہیں۔ ان کو زندگی گزارنے کے لئے کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ میری مانورینا تم اپنے زندگی کے رخ کو صحیح کرلو یہ تھوڑا سا ٹیڑھا ہوگیا ہے اگر تم چاہو تو یہ صحیح ہوسکتا ہے لیکن یہ الٹا ہوگیا تو سیدھا کرنا مشکل ہوگا میں اسے سمجھاتی لیکن وہ میری نصیحتوں کو ہنسی مین اڑادیتی اور میں ٹھنڈی سانس بھر کر رہ جاتی۔
دن پہ دن گزرتے گئے رینا کی آزادی بڑھتی گئی ایک دن میرے پاس آئی تو بہت خوش تھی کہنے لگی باجی میں آنٹی انکل کے ساتھ مری جارہی ہوں۔ میں پوچھا ارے۔ باجی آپ بھی کتنی بھولی ہیں امی ابو کے ساتھ مری جاتے مجھے خاک مزہ آئے گا وہ ہنستے ہوئے بولی۔ تو پھر کس کے ساتھ جارہی ہو میں استفسار کیا۔ خالد کے ساتھ جارہی ہوں وہ بولی یہ کوئی نیا دوست بنایا ہے ۔
تم نے میں نے پوچھا۔ باجی ہے تو نیا دوست لیکن ہے زبردست چیز۔ اتنا سمارٹ اور خوبصورت ہے کہ بس ایک دفعہ آپ دیکھئے تو دیکھتی رہ جائیں۔ اوپر سے اتنا دولت مند کروڑوں کا بزنس ہے پیسے کی تو اس کے پاس کوئی کمی نہیں وہ بہت مرعوب نظر آرہی تھی۔ مجھ سے بہت متاثر ہے کہتا ہے کہ جس کی مجھے تلاش تھی وہ مل گئی۔ اب کچھ دنوں کے لئے سیر سپاٹے کے لئے جارہی ہوں۔
آنٹی نے اجازت دے دی میں نے پوچھا۔ امی کوتو میں نے جھوٹ بولا ہے کہ کالج کے ٹرپ کے ساتھ جارہی ہوں میں اسے پھر زمانے کی اونچ نیچ سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ میری بات سنی ان سنی کرتی چلی گئی۔ ایک ہفتہ بعد مری سے واپس آئی تو سیدھی میرے پاس آئی آتے ہی کہنے لگی میں نے خوب انجوائے کیا۔ ہر جگہ گھومی وہ مجھے خوشی خوشی بتارہی تھی لیکن مجھے اس کی باتیں ناگوار محسوس ہورہی تھیں۔
ایک لڑکی کو یہ زیب نہیں دیتا کے کسی غیر لڑکے کے ساتھ جا کر سیر سپاٹے کرے۔ رینا ابھی وقت ہے سدھر جاؤ ورنہ بہت پچھتاؤ گی۔ مجھے نجانے اس لڑکی سے کیوں اتنی محبت تھی ہر وقت اسے سیدھی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کرتی اب حسب معمول پھر نصیحت کی تو وہ برا مان گئی کہنے لگی باجی آپ کو میری اتنی فکر کیوں ہے؟ یہی تو زندگی کے مزے ہیں سوسائٹی کے تقاضے ہیں اب وہ وقت آگیا ہے کہ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں۔
شانہ بشانہ کے لئے لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ مل کرسیر سپاٹے کریں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سڑکوں میں گھومیں۔ کلبوں میں جاکر ڈانس کریں۔ قدم سے قدم چلنے کا مطلب ہے کہ ترقی کے مدارج میں ساتھ ساتھ قدم بڑھائیں۔ ہر شعبے میں تعلیم،طب،سائنس اور انجنیئرنگ کے ترقی کا مطلب جو تمہارے ذہن میں ہے وہ غلط ہے اس کی نہ ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ہمارا معاشرہ۔
رینا پھر یہ مشرقی معاشرہ ہے ان بڑھتے ہوئے قدموں کو روک لو۔ میں نے کہا تو وہ منہ بنا کے چلی گئی۔ اس دفعہ اے میری باتیں بہت بری لگیں اور پھر وہ کبھی میرے گھر نہ آئی۔ کچھ عرصے کے بعد پتہ چلا کہ رینا گھر سے غائب ہے یہ خبر سن کرمیں نے اس کے گھر بھاگی۔ آنٹی بری طرح رورہی تھی۔ انکل کو دل کا دورہ پڑچکا تھا رینا گھر سے بھاگ گئی تھی۔ اس کے کمرے میں ایک رقعہ ملا کہ مجھے ڈھونڈنے کی کوشش نہ کی جائے میں اپنی مرضی سے جارہی ہوں ۔
آنٹی اور انکل منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ لوگوں نے طرح طرح کی باتیں شروع کردیں کہ آنٹی زیادہ بچیوں کو آزادی دینے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ۔ بڑے کہتے تھے کہ بیٹی کو کھلاؤ سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی آنکھ۔ ایک عورت نے کہا غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لوگو ں کی باتیں سن سن کر آنٹی غم اور ندامت سے بالکل نڈھاچکی تھیں۔ وہ تو شکر ہوا کہ ڈاکٹر نے آنٹی کو بے ہوشی کا انجکشن لگایا تو کچھ دیر کے لئے غم کا سایہ ا ن کے دماغ سے ہٹا۔
اس طرح سال گزر گیا۔ رینا کا کچھ پتہ نہ چلا۔ لوگ تو رینا کو بھول گئے لیکن ماں باپ کو جووہ جیتے جی غم دے گئی تھی وہ انہیں کسی لمحے نہیں بھولتی تھی۔وہ مرنے کی دعائیں مانگتے لیکن موت بھی جیسے ان سے روٹھ گئی تھی وہ ہر وقت غم کی دھوپ میں جلتے رہتے۔ ایک روز دوپہر کو ڈاکیا نے مجھے ایک خط لاکردیا میں نے لفافہ چاک کیا تو رینا کا خط نکلا۔ رینا کا خط دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی لیکن جوں جوں خط پڑھتی گئی غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتی گئیں۔
خط میں لکھا تھا۔ پیاری باجی! آپ کو میرا خط ملے گا تو آپ یہ ضرور سوچیں گی کہ میں اتنی مدت کے بعد کہاں سے ٹپک پڑی لیکن باجی وہی پرانی عادت جو آپ کو ہر بات بتایا کرتی تھی اور اس کے بدلے آپ مجھے کوئی نہ کوئی نصیحت کرتی تھی اورمیں ہمیشہ آپ کی باتیں ہنسی میں اڑا دیتی اور اب آپ کی باتیں یاد آتیں ہیں تو دل پھٹتا ہے اور پچھتاوا ہوتا ہے کہ آپ کی نصیحتوں پر عمل کیوں نہیں کیا۔
لیکن اب وقت میرے ہاتھوں سے نکل چکا ہے وہی آپ کی بات یاد آتی ہے کہ اس بے راہ روی میں تمہاری زندگی کا رخ الٹ نہ جائے تو پیاری باجی واقعی میری زندگی کا رخ الٹ گیا ہے میں نے جو خود بویا ہے وہ کاٹ رہی ہوں۔ کاش میرے ماں باپ مجھے اتنا پیار نہ کرتے۔ میری ہر ناجائز خواہشوں کے آگے سر تسلیم خم نہ کرتے اور مجھے بچپن ہی سے راہ راست پر رکھتے تو آج میرا یہ حشر نہ ہوتا۔
باجی آپ کو پتہ ہے کہ میں خالدسے دیوانہ وار محبت کرتی تھی۔ اپنی اس والہانہ محبت میں اتنی گم تھی کہ خالد کی شخصیت کے راز مجھ پہ نہ کھل سکے۔ میں آنکھیں بند کرکے اس کی ہر بات مانتی وہ مجھے جو کہتا میں ویسے ہی کرتی ایک روز اس نے مجھے گھر سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا تو میں نے بخوشی قبول کرلیا۔ ہم نے ملک سے باہر جانے کا پلان بنایا۔ اس نے دھڑا دھڑ میں پاسپورٹ اور ویزہ لگوایا۔
ہم نے لندن جانے کا پروگرام بنایا تھا مجھے تو ویسے آپ کو پتہ ہے کہ مغربی ممالک دیکھنے کا بہت شوق تھا میں بہت خوش تھی جب اس نے میرا پاسپورٹ ویزہ اور ٹکٹ لاکردیا اور کہنے لگا کہ ہم وہاں جا کے سب سے پہلے شادی کریں گے۔ جہاز میں ایک ہی سیٹ ملی میں نے تمہارے لئے بک کراوئی ہے ۔ میں پرسوں کی فلائٹ سے پہنچ جاؤں گا۔ ائیر پورٹ پر میرا ایک دوست ماجد لینے آئے گا تم اس کے ساتھ چلی جانا۔
اس نے مجھے اپنے دوست کی تصویر دی تاکہ میں اسے پہچان سکوں۔ میں نے تھوڑا سا تکرار کیا کہ ہم اکھٹے جائیں گے لیکن اس نے مجھے رضا مند کرلیا اور پھر ایک بریف کیس میرے ہاتھ میں دیا کہ میرے دوست ماجد کو دے دینا دوسرے روز میری فلائیٹ تھی کے وہ مجھے ائیر پورٹ پر خدا حافظ کہنے آیا اور میں جہاز پر بیٹھ گئی۔ لمبے سفر کے بعد جب میں منزل مقصود پر پہنچی تو ایئر پورٹ سے باہر نکلنے سے پہلے ہی مجھے بریف کیس سمیت پولیس نے پکڑ لیا۔
میں سخت حیران ہوئی لیکن جب مجھ پر انکشاف ہوا کہ اس بریف کیس میں ہیروئن کی تھیلیاں ہیں تو ساری بات میری سمجھ میں آگئی میں نے لاکھ ان کو اپنی صفائی پیش کی لیکن انہوں نے مجھے جیل میں ڈال دیا اس کے بعد میں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اب مجھے اتنی لمبی قید ہوئی ہے کہ اگر میں زندگی میں نکلی بھی تو بڑھاپے کی لپیٹ میں ہوں گی۔ یہ ہے باجی میری داستان جو مجھ پر گزری اور ہا ں باجی امی ابو کو ہرگز نہ پتہ چلے کہ میں زندہ ہوں اور آپ کو خط لکھا ہے۔ وقت کے ساتھ وہ مجھے بھول جائیں گے۔ فقط بدنصیب رینا۔

Browse More Urdu Literature Articles