Ek Saya - Article No. 1468

Ek Saya

اِک سایہ - تحریر نمبر 1468

رات کے گہرے سائے طوفانی بارش میں ”ساہل“ ایک قبرستان کے قریب سے گزررہا تھا ۔وہ بہت خوفزدہ تھا اُس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو رہی تھی۔

جمعرات 31 اگست 2017

عثمان ملک: رات کے گہرے سائے طوفانی بارش میں ”ساہل“ ایک قبرستان کے قریب سے گزررہا تھا ۔وہ بہت خوفزدہ تھا اُس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو رہی تھی وہ ہر قدم تیز تیز اُٹھاتا اور اُنچی آواز میں کچھ بولتا چلا جا رہا تھا ۔ ہر طرف نظر گھماتا اور اندھیری سڑک سے وہ جلدی جلدی جا رہا تھا۔کچھ فاصلے پر اُسے لگا کہ جیسے کوئی اُس کا پیچھا کر رہا ہے اُس نے اپنے موبائل کی ٹارچ جلائی اور گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا ۔
جب اُسے کوئی بھی شخص نظر نہ آیا تو وہ اور بھی خوفزدہ ہو گیا اُس کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو گئی اچانک اُسے کسی نے آواز دی ”ساہل “ اُس نے اِک دم پیچھے مُڑ کر دیکھا ”ساہل ، ساہل “ یہ آوازیں اُس کے کان میں گونج رہی تھیں مگر دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ کون اُسے پکار رہا ہے۔

(جاری ہے)

وہ سہم گیا اور ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہنے لگا کون ، کون ہے اُس کے قدم جیسے جم سے گئے ہوں لڑکھڑاتا ہوا دوڑنے کی کوشش میں گر پڑا۔

اُس نے دیکھا کے اِک سایہ اُس کی طرف بڑھ رہا ہے مگر سایہ کس کا ہے کچھ پتہ نہیں۔وہ جلدی سے اُٹھا اور بھاگنے لگا جیسے جیسے وہ قدم بڑھاتا آواز اُتنی ہی بلند ہوتی جاتی اس کا چلنا مشکل ہو گیا ۔اُسے محسوس ہوا کہ اُس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا ہے وہ کانپنے لگا ” ساہل ، ساہل ، کہاں جا رہے ہو “ وہ ڈر گیا مگر پیچھے دیکھنے کی اُس میں ہمت نہیں ہو رہی تھی کچھ دیر خاموشی کے بعد اُس نے دیکھا تو وہاں سوائے خود اُس کے کوئی بھی نہ تھا اچانک اُس کی نظر سنسان قبرستان پر پڑی جہاں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا وہاں ایک خوبرو لڑکی ہاتھ بڑھائے کہہ رہی تھی ” ساہل تم نے ایسا کیوںکیا ۔
۔۔“ وہ پریشان ہوا اور گھبراگیا کہ آدھی رات کو ایک لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے وہ اُس لڑکی کو دیکھ کر سوچ رہا تھا اُس نے اُسے کہاں دیکھا ہے وہ چہرہ دور جاتے جاتے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔ وہ تیز قدم ہوتا ہوا بھاگامگر بار بار پیچھے دیکھتاجا رہا تھا کہ اچانک وہی لڑکی اُس کے سامنے آ گئی اور کہنے لگی آخر میرا قصور کیا تھا ؟وہ چیخنے لگا وہ ایک جگہ ساکن ہو گیا جیسے اُس کے جسم کے جان ہی نہ رہی ہو۔
وہ جھٹ سے قریب آئی اور کہنے لگی جاو¿ چلے جاو¿ واپس پلٹ کر مت دیکھنا جاو¿و¿و¿و¿و¿۔ وہ وحشت زدہ ہو کر وہاں سے بھاگنے لگا اُسے کچھ خبرہی نہ ہوئی کہ وہ کہاں جا رہا ہے اچانک اُس کا پیر کسی چیز کے ساتھ ٹکرایا اور وہ منہ کے بل جا گرا۔خود کو سنبھالنے کے بعد اُسے احساس ہوا کہ وہ قبرستان میں موجود ہے اس کی نظر اپنے سامنے ایک قطبے پر پڑی جس پرجانا پہچانا نام تحریر تھا” یاسمین“۔اُس نے غیر دیہانی میں اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو وہ خون سے رنگے تھے یہ دیکھتے دیکھتے اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اُس رات بارش یوں ہی برستی رہی۔

Browse More Urdu Literature Articles