La Pata - Article No. 1599

La Pata

لاپتہ - تحریر نمبر 1599

لاہور شہر میں واقعی بانسوں والے اس بازار میں بانسوں والی کافی دوکانیں تھیں۔کس جگہ بانسوں سے گھریلو اشیا بنتی اور کسی جگہ بانسوں کی کڑھائی ہوتی کوئی رنگ چڑھاتا اور کوئی لکڑی کی سیڑھیاں بناتا۔بازار سالوں سے بانسوں کے کاروبار کی وجہ سے بانسوں والا بازار کہلاتا تھا

پیر 20 نومبر 2017

عزیر الطاف:
بانسوں والے بازار میں چاچے حمید کو کام کرتے ہوئے تقریباً پندرہ سال ہوگئے تھے۔وہ بانسوں پر رنگ چڑھا کر انہیں گرم بھٹھی میں سے گزاراکرتا تھا اور بڑے بانسوں کی چھانٹی کرکے انہیں علیحدہ کردیا کرتا تھا۔لاہور شہر میں واقعی بانسوں والے اس بازار میں بانسوں والی کافی دوکانیں تھیں۔کس جگہ بانسوں سے گھریلو اشیا بنتی اور کسی جگہ بانسوں کی کڑھائی ہوتی کوئی رنگ چڑھاتا اور کوئی لکڑی کی سیڑھیاں بناتا۔
بازار سالوں سے بانسوں کے کاروبار کی وجہ سے بانسوں والا بازار کہلاتا تھا۔جو ابھی بھی اس نام سے جانا جاتا ہے حمید سینئر مزدور ہونے کی وجہ سے پورے بازار میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور باقی مزدوروں سے زیادہ اجرات پر کام کرتا تھا ۔

(جاری ہے)

اگر ایک دوکان پر مزدور پورے ہوجاتے تو اسے آسانی سے پورے بازار میں سے کسی نہ کسی جگہ مزدوری مل جاتی تھی۔

حمید کی شادی اٹھارہ برس کی عمر میں رضیہ نامی ایک لڑکی سے ہوگئی تھی۔دس سال بعد ان کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام احمد رکھا گیا ۔حمید جوانی میں خوب کرکٹ کھیلا کرتا تھا اور پورے علاقے میں اپنی خوبصورت گیند بازی کی وجہ سے بہت مشہور تھامحلے کے میچ میں وہ حمید الیون کا کپتان ہوا کرتا تھا جب کبھی ان کا میچ گوالمنڈی کی ٹیم سے ہوتا تو وہ ضرور ہارتے۔
کیونکہ ہارنے کے بعد گوالمنڈی والے انہیں روایتی ناشتہ کروایا کرتے حمید لاہور سیکر ٹریٹ کے قریب سنت نگر کا رہائشی تھا اور کئی سالوں سے وہاں رہتا تھا۔ ان کا گھر ایک بوسیدہ عمارت پر مشتمل تھامکان اینٹوں سے بنایا گیا تھا جسے یہ کہہ کر چھوڑدیا گیا تھا کہ دیواریں سوکھ جائیں تو رنگ کروا ئیں گے۔پھر کئی سال گزرگے مکان کارنگ نہ ہوسکا اور وہ یونہی پڑا رہا مکان حمید کے باپ نے ریلوے سے ملنے والی پینشن جمع کرکے بنایا تھااور گھر مکمل ہونے کے کچھ عرصے بعد وہ وفات پاگیا تھا اس مکان میں اب تین لوگ رہائش پذیر تھے حمید اس کی بیٹی رضیہ اور ان کا بیٹا احمد۔
چار مرلے کے اس مکان کے سامنے ایک سیٹھ کی بہت بڑی کوٹھی تھی۔جس پر سفید رنگ کا پتھر چمک رہا تھابڑے گیٹ کے ساتھ منسلک پیلر پر اس کا نام آویزاں تھا اور گیٹ کے قریب سیکیورٹی گارڈ چوکس کھڑا تھا۔سیٹھ بادامی باغ کا مشہور تاجر تھا جسے روپے کی کوئی کمی نہ تھی۔ اس کی اولاد اس کے پیسے پر خوب عیش کررہی تھی۔احمد سات سال کا ہوا تو رضیہ نے اسے مدرسے میں بھیج دیا وہ صبح صبح مدرسے سے اپنے باپ کے ساتھ چلا جایا کرتا تھا اورواپسی پر حمید اسے گھر لے آتا تھا دوپہر کا کھانا احمد مسجد میں پکی دال یا سبزی سے کھایا کرتا تھا۔
ان مکان میں دو کمرئے ایک لیٹرین ایک باورچی خانہ اورباہر چھوٹا سا صحن تھا۔صحن کے اندر بیری کا ایک درخت لگا تھا جوان کو گرمی سے محفوظ رکھتا تھا دونوں کمروں میں دو دو چارپائیاں پڑیں تھیں جس پر پرانے لحاف ہر وقت بے ترتیب پڑے رہتے تھے گھر کے صحن میں پانی کا ایک نلکا لگا تھا جو ان کی پانی ضروریات کو پورا کرتا تھا ساتھ ہی مرغیوں کا ایک ٹوکرا موجود تھا جس کے نیچے دو مرغیاں موجود تھیں باہر لگا لکڑی کا دروازہ ٹاہلی کی لکڑی سے حمید نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا اگرچہ دروازہ اتنا خوبصورت نہ تھا مگر مضبوط بہت تھا وہ مزدوری سے واپسی پر گھر کے لیے فروٹ یا دودھ وغیرہ لایا کرتا تھا حمید اپنے بیٹے سے بے حد پیار کرتا تھا ان کے ہاں اولاد شادی کے دس سال بعد ہوئی تھی سو دونوں اپنے بیٹے سے خوب محبت کرتے تھے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احمد جوان ہوتا گیا اور خود مدرسے جانے لگ گیا اس نے قرآن کے پندرہ سپارے زبانی یاد کرلیے تھے اوروہ پورے قرآن کو حفظ کرنا چاہتا تھا اس کے باپ کی یہ خواہش تھی کہ اس کا بیٹا حافظ قرآن بنے اور ان کی عاقبت سنور جانے کا بہانہ بنے۔
ایک روز وہ مزدوری سے فارغ ہوکر گھر آیا اور آتے ساتھ چارپائی پرلیٹ گیا۔اس کا سر شدید چکر ا رہا تھا اور ٹانگوں میں درد ہورہی تھی کچھ دیر بعد اس کی بیوی صحن سے اندر آئی اور دروازے کے قریب آ کر بولی:آج آپ جلدی آگے ہیں کیا بات ہے مزدوری تو مل گئی تھی نا؟حمید بولا ہاں مزدوری تو مل گئی تھی مگر میں اب اس کام سے تنگ آچکا ہوں۔وہ کیوں؟اب میرے میں اتنی ہمت نہیں رہی کہ بھاری بانس کندھوں پر اٹھا سکوں۔
وہ بولی یہ تو ٹھیک کہہ رہے ہیںآ پ پر گھر کا واحد سہارا آپ ہی تو ہیں۔وہ تو میں ہی ہوں۔چند منٹ کی خاموشی کے بعد بولا:سوچا تھا احمد قرآن حفظ کرلیتا تو اسے کسی سکول میں داخل کروادیتا پر اب یہ بھی ممکن نہیں ۔”آپ فکر نہ کریں وہ قرآن حفظ کرکے آپ کا سہارا بنے گا۔ہمارے پاس اتنے روپے کہاں ہے کہ اسے پڑھایا لکھا سکیں خواہش تو تو میری بھی تھی۔
وہ بولا ہاں یہ تو ہے اتنے روپے کہاں سے لاتے بس اب مجھ سے مزدوری نہیں ہوتی۔آپ کوئی کام ڈھونڈ لیں وزن مت اٹھایا کریں۔حمید مسکراتے ہوئے بولا اور کیا کام کروں یہی کام آتا ہے مجھے اب میں اس عمر میں لوہار یا نائی تو بننے سے رہا۔وہ تو ٹھیک مگر کوئی مزدوری ڈھونڈلیں۔“ہاں کرتا ہوں کچھ حمید نے کھانا کھایا اور سو گیا صبح اٹھا تو وہ یکدم اور کل والے سارے مکالمے کو بھول چکا تھا اٹھتے ساتھ وہ بولا:رضیہ“آگے سے جواب آیا جی میں آتی ہوں کچھ دیر بعد وہ کمرے میں آئی اس کے ہاتھ میں مرغیوں کا دانا تھا جو اس نے ساتھ پڑی چارپائی پر رکھ دیا اور بولی۔
آج آپ کام پر نہ جائیں آپ کی صحت خراب ہوجائے گی۔اس نے کہا کیوں کیا ہوا مجھے؟ٹھیک تو ہوں میں آپ خود تو کل کہہ رہے تھے اب میں یہ کام نہیں کروں گا؟اس کے شوہر کو کل کا واقع بھول چکا تھا۔وہ بولا میں نے کب کہا مزدوری کی کیا اوقات کہ وہ کام نہ کرے تم چائے دو تاکہ میں نکلوں اس کی بیوی نے اسے چائے دی جسے پینے کے بعد وہ کام پر چلا گیا۔احمد جو پہلے ہی مدرسے سے جاچکا تھا بغیر ناشتے مدرسے جایا کرتا تھا اور وہاں جاکر چائے رس کھایا کرتا تھا۔
بانسوں والے بازار میں بانسوں کے کئی ٹرک روزانہ بازار میں آیا کرتے تھے حمید انہیں ٹرک سے اتارنے کا ٹھیکہ لیا کرتا تھا اور اپنے ساتھ چند مزدوروں کو لگا کر ٹرک خالی کردیا کرتا تھا۔ایک روز وہ ٹرک سے بانس اتار رہا تھا کہ اس کے کندھے پر بانس آگرے وہ بانسوں کے نیچے بری طرح دب گیا پاس کھڑے مزدوروں نے جلدی سے بانس بٹائے اور اسے میو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے گئے ۔
وہاں ڈاکٹروں نے اس کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر مریض کو شیخ زید ہسپتال لے جانے کا کہا اس کے ساتھی مزدوروں نے اسے رکشے پر لادا اور ادھر لے گئے ادھر پہنچنے کے بعد وہاں کے ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ اس کا بائیاں بازو مکمل طور پرناکارہ ہوچکا ہے ۔ہسپتال سے پٹی کروانے کے بعد اس نے ساتھی مزدوروں کا شکریہ ادا کیا اور واپس گھر لوٹ گیا۔گھر کے باہر پہنچا تو اس نے دائیں ہاتھ سے دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے اس کی بیوی دروازے کے قریب آئی اور بولی:کون؟دروازہ کھولو احمد کی اماں۔
رضیہ نے دروازہ کھولو تو دیکھا اس کے شوہر کے بازوؤں پر پٹی بندھی ہے اور کپڑے خون آلودہ ہیں اس کی چیخ نکلی اور وہ بولی۔ کیا ہوا آپ کو؟آپ کے کپڑوں پر خون کس کا ہے اور یہ آپ کے بازوں پر پٹی کیوں بندھی ہوئی ہے۔وہ بولا آج بانس کندھے پر گر گئے تھے خدا بھلا کرے میرے ساتھیوں کا جو جلدی سے مجھے ہسپتال لے گئے ورنہ میں ادھر ہی مرجاتا۔اللہ نہ کرئے آپ یہ کیسی باتیں کررہے ہیں چلیں اندر آئیں،اس کی بیوی نے اپنے شوہر کو اندر کمرے میں چارپائی پر لٹا دیا اور خود اس کی ٹانگوں کے قریب بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد حمید بولا احمد ابھی واپس نہیں آیا۔بس آنے والا ہے اچھا جب وہ آجائے تو اسے میری طرف بھجوادینا تم باہر چلی جاؤ اور یہ دروازہ بند کرل دو۔اس کی بیوی نے ٹھیک ہے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔کچھ دیر بعد وہ دوبارہ اندر آئی اس کے ہاتھ میں دودھ کی ایک پیالی تھی اندر آتے ساتھ بولی۔یہ گرم گرم دودھ پی لیں درد کم ہوجائے گی۔ہاں رکھ دو ادھر ،اس کی بیوی نے دودھ پاس پڑے ٹیبل پر رکھ دیا اور باہر جانے لگی پیچھے سے آواز آئی:احمد نہیں آیا۔
اس نے کہا نہیں کیوں خیریت ہے آپ پہلے بھی اس کا پوچھ رہے تھے اور اب پھر؟ہاں خیریت ہی ہے۔اس کی بیوی کو لگا کہ اس کے شوہر اس سے کچھ چھپا رہے ہیں مگر وہ پھر بھی چپ رہی اور باہر چلی گئی۔کچھ دیر بعد احمد آیا آتے ساتھ ہی اس کی ماں نے اسے بتایا کہ اس کے باپ کو چوٹ لگی ہے اور وہ اسے اندر بلارہے ہیں۔احمد جلدی سے اندر ابا کے پاس چلا گیا اندر داخل ہوتے سمے بولا:ابا کیا ہوا آپ کو؟زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟نہیں کچھ نہیں ہوا تو ں ادھر آ میرے پاس۔
احمد نے سر پر سفید رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی ہاتھ میں چھوٹی سی تسبیح موجود تھی اس نے تسبیح اپنی قمیض کی جیبہ میں ڈالی اور باپ کے قریب جاکر زمین پر بیٹھ گیا وہ اپنے والد کی بہت عزت کرتا تھا اور مدرسے سے آتے ہی ان کے پاؤں دبایا کرتا تھا کچھ دیر کئے بعد اس کا باپ بولا۔چارپائی پر آؤ ۔ ابا آپ کو زخم دکھ جائے گا میں ادھر ٹھیک ہوں۔حمید بولا بیٹا میں نے تجھ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
ہاں ابا بولیں۔بیٹا میرا ایک بازو ناکارہ ہوچکا ہے اور اب بانسوں والی مزدوری نہیں کرسکتا تو ابھی حفظ کررہا ہے گھر کا انتظام کیسے چلے گا؟چند منٹ خاموشی کے بعد وہ بولا۔ ابا آپ فکرنہ کریں آپ آرام کریں اورسب کام چھوڑدیں میں گھر میں دوکان بنالیتا ہوں کچھ روپے میرے پاس ہے۔حمید حیرانگی سے بولا کہاں سے آئے تیرے پاس روپے اور کتنے ہیں؟وہ بولا ابا جو خرچہ توں مجھے دیتا تھا ان میں سے دو سو روپے ہیں میرے پاس اس کا سودا خرید لیتا ہوں جب سودا بکنے لگے گا تو اور لیں آئیں گے۔
اس کے باپ کی آنکھوں میںآ نسو ٹپک آئے وہ خاموشی سے اپنے بیٹے کی ننھی ننھی باتیں سنتا رہا اتنے میں اس کی بیوی اندر آگئی اورساتھ کھڑی چارپائی زمین پر ڈال کر اس کے اوپر بیٹھ گئی احمد چارپائی پر بیٹھ گیا۔حمید بولا بیٹا تو مدرسہ نہیں جائے گا؟ابا صبح کے ٹائم مدرسے چلا جایا کروں گا تب ہم دوکان بند رکھیں گے رات کو آکر کھول لیا کروں گا۔حمید ہنسا اور بولا بیٹا رات کو کون سامان خریدنے آگا،میں صبح دکان پر بیٹھ جاؤں گا جب تم مدرسے سے واپس آیا کرو گے تو تم سنبھال لیا کرنا۔
ہاں ابا ٹھیک ہے۔اس کی بیوی پاس بیٹھی دونوں کی باتیں سن رہی۔آخر وہ بولی کچھ روپے مجھ سے لے لینا سودا زیادہ خرید لانا۔حمید نے کہا تم نے بھی خرچہ جمع کیا تھا؟وہ ہنسی اور بولی ہاں۔وہ تینوں مسکرائے اور خاموش ہوگئے چند لمحوں کے بعد حمید نے دونوں کو باہر چلے جانے کا کہاں تاکہ وہ آرام کرسکیں دونوں باہر چلے گئے اور وہ سوگیا۔صبح سورج آب و تاب سے چمک رہا تھا اور مرغیاں صحن میں دانا کھارہیں تھیں احمد اٹھا اور اپنے بابا کے کمرے میں چلا گیا جہاں حمید ابھی تک سو رہا تھا اس نے اپنے باپ کو اٹھانا مناسب نہیں سمجھا اور ماں سے روپے لے کر دوکان کے لیے سودا خرید لایا اس نے سودا باہر والے دروازے کے قریب چارپائی پر بڑے نفیس انداز سے جوڑ دیا اور خود بھی اس چارپائی پر بیٹھ گیا کچھ دیر بعد حمید جاگا اور اس اپنی بیوی کے سہارے باہر احمد کے پاس چلا گیا اس نے دیکھا کہ بہت ساری چیزیں چارپائی پر خوبصورت انداز میں جڑئی ہوئی ہیں وہ مسکرایا اور کہا۔
واہ احمد تو نے تو چارپائی پر رونق لگائی کوئی گاہک بھی آیا ہے کہ نہیں؟جی ابا کچھ سودا بک گیا ہے۔حمید بولا تم مدرسے نہیں گئے؟احمد نے ڈرتے ہوئے کہا نہیں ابا آج دوکان کا پہلا دن تھا اس لیے چھٹی کی ہے کل جاؤ گا۔چلو ٹھیک ہے۔احمد کی ماں اپنے شوہر کے لیے دروازے کے قریب چارپائی لے آئی تاکہ وہ بیٹھ کر دوکان کو دیکھتا رہے۔اگلے روز ان کا بیٹا صبح مدرسے چلا گیا اور حمید خود چیزوں والی چارپائی پر بیٹھ گیا ارد گرد کی گلیوں میں پتا لگ چکا تھا کہ ساتھ والی گلی میں دوکان لگی ہیں سو آہستہ آہستہ ادھرلوگ آنے لگے چند دنوں کے بعد انہوں نے پیسے ملاکر سودا خرید لیا اور اب دو چارپائیاں سامان سے بھر گئیں گلی میں آمدورفت بھی بڑھنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی سیل میں بھی اضافہ ہوگیا پھر ایک دن سامنے والی کوٹھی کے سیٹھ ان کی دو چارپائیوں پر محیط دوکان پر آئے اور بولے۔
حمید سنا ہے تمہارا بازو وخمی ہوگیا ہے اب کیا حال ہے تمہارا؟وہ چارپائی سے اٹھا اور بولا سلا م سیٹھ صاحب ٹھیک ہوں۔بس وہ بانس اتار رہے تھے کہ کچھ بانس پھسل کر میرے اوپر آگرے اب ٹھیک ہوں شکریہ آپ کا۔اچھا حمید میں نے تم سے ایک بات کرنی تھی۔اس نے کہا جی سیٹھ جی بولیں۔دیکھو حمید یہ جو تمہارے سامنے کوٹھی ہے نہ یہ پورے دس لاکھ کی بنی ہوئی ہے جانتے ہو تم؟جی نہیں سیٹھ جی میں تو نہیں جانتا تھا،پر اب آپ بتارہے ہیں تو دس لاکھ کی ہی ہوگئی۔
جی دس لاکھ کی ہے اور بڑی محنت سے بنائی گئی ہے۔سیٹھ خاموش ہوگیا۔حمید سوچنے لگا کہ سیٹھ اسے کوٹھی کی قیمت کیوں بتا رہا ہے سیٹھ بولا:یہ اس لیے نہیں بنائی کہ آپ اس کے سامنے دو چارپائیوں پر دکان سجالیں۔حمید چونک گیا اور سر نیچے کرلیا۔سیٹھ بولا دیکھو حمید میرے گھر بہن بیٹیاں ہیں طرح طرح کے لوگ ادھر آتے ہیں اور دروازے کے سامنے کھڑے رہتے ہیں تم یہ کام بند کرو۔
وہ بولا سیٹھ صاحب وہ تو ٹھیک ہے مگر آپ کو پتہ ہے میرے پاس کوئی اورکام نہیں ہے میرا بازو ناکارہ ہوچکا ہے میں مزدوری بھی نہیں کرسکتا۔سیٹھ نے اس کی بات کاٹی اور کہا دیکھو مجھے اس بات کا دکھ ہے مگر تم یہ چارپائیاں اٹھاؤں یہاں سے وہ ہاتھ ہلاتے ہوئے بولا۔اگر دوکان بنانی ہے تو باہر جاکر بناؤ۔یہ کہتے ہی وہ کوٹھی کی طرف چل پڑا اپنے دروازے کے قریب پہنچ گیا اس نے گارڈ کے کان میں کچھ کہا اور اندر چلا گیا شام کو جب احمد گھر آیا تو اس کے باپ نے اس سے کہا:جو سامان پڑ ا ہے اسے واپس کل واپس کر آن کل سے باہر سودا نہیں لگانا ہم نے۔
احمد کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا اس نے گلاس چارپائی پر رکھا اور بولا پر کیوں ابا اب تو کافی گاہک آرہے ہیں اورسیل بھی اچھی ہورہی ہیں۔وہ بولا بیٹا سامنے والے سیٹھ صاحب نے چارپائیاں باہر لگانے سے منع کیا ہے بس تم یہ سودا کل واپس کر آنا ،پر ابا اس کا کیا مطلب ۔بیٹا بحث مت کرو ہم غریب لوگ ہیں ان سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔احمد اکڑتے ہوئے بولا نہیں ابا دکان تو لگے گی چاہے مجھے مدرسہ کیوں نہ چھوڑنا پڑے۔
پاگل نہ بن ان سے لڑے گا کیا؟پر ابا یہ کیا بات ہوئی ہم نے دکان اپنے گھر کے سامنے لگائی ہے ان کے آگے تو نہیں۔حمید رضائی اوپر اوڑھتے ہوئے بولا چلو تمہارا لڑکے کا دل ہے تو لگا لینا کان اور اب یہاں سے باہر جاؤ اور مجھے آرام کرنے دو۔وہ باہر ماں کے پاس گیا اس کی ماں باہر بیٹھی چنے کی دال صاف کرنے میں مصروف تھی پاس ہی مرغیاں کھڑی دانا کھارہی تھیں اس نے بھی احمد کو روکا کہ وہ باپ کا کہا مانے اور سامان واپس کر آئے جس پر اس نے انکار کردیا۔
اس کی ماں بولی چل دکان لگالینا اب موڈ ٹھیک کراپنا اوت یہ دال باورچی خانے میں رکھ دے۔اور اٹھا اور دال باورچی خانے میں رکھ دیں،اس کی ماں اپنے شوہر کے پاس اندر چلی گئی اور اس کی چارپائی پر بیٹھ کر اس کے پاؤں دبانے لگ گئی ،اتنے میں باہر سے آواز آئی ماں دہی گھر ہے کہ لے آؤں۔بیٹا پانچ روپے کا لے آؤ بس تم نے کھا نا ہے۔پیچھے سے احمد کی ماں نے اپنے شوہر کو بیٹے کی ضد سے آگاہ کیا اور اسے دکان لگائے رکھنے کی فرمائش کی پر وہ نہ بولا۔
اس رات ان کی گلی میں پولیس والے کافی دیر سیٹھ صاحب کے ساتھ کھڑے رہیں اور اونچی آواز میں قہقہے لگا تے رہے۔صبح احمد نے مدرسے سے چھٹی کی اور باپ کے منع کرنے کے باوجود باہر دکان لگا لی وہ سارا دن ادھر بیٹھا رہا اور شام کو دکان سمیٹ کر چارپائیاں اندر لے گیا۔سیٹھ کے گارڈ نے اسے سب کچھ بتادیا تھا اور وہ شدید غصے میں تھا۔اس رات تیز ہو اکی وجہ سے حمید کے صحن میں لگا بیری کا درخت ٹوٹ گیا جس کی لمبی لمبی شاخیں اندر کمرے میں آگئیں حمید بیٹے کے منع کرنے کے باوجود ان شاخوں کی لکڑیوں کا کاٹتا رہا اور آخر شاخیں کمرے سے باہر پھینک دیں۔
موسم خوبصورت ہونے کی وجہ سے رضیہ سے اس رات پکوڑے بنائے ہوئے تھے جس کے ساتھ احمد کے پسندیدہ تڑکے والے چاول بھی بنے ہوئے تھے جسے کھانے کے بعد سوگئے آدھی رات کو تیز ہوا چلنے سے کچن میں برتن گرنے والی کی آواز آئی تو رضیہ ڈر گئی اور بولی۔کون؟مگر کوئی جواب نہ آیا۔اس نے یکدم اتھ پڑی اپنے بیٹے کی چارپائی پر نظر ڈالی تو وہ خالی پڑی تھی۔وہ پریشان ہوگئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گئی پھر اس نے سوچا کہ شاید احمد اپنے باپ کے ساتھ پڑی چارپائی پر سوگیا ہو وہ اسے دیکھنے ساتھ والے کمرے میں چلی گئی مگر وہ چارپائی بھی خالی تھی اور حمید اپنی چارپائی پر آرام سے سورہا تھا۔
وہ پریشان ہوگئی کیونکہ آدھی رات ہوئی تھی اور احمد مدرسے صبح صبح جایا کرتا تھا پھر وہ لیٹرین کی طرف گئی مگر اس کا دروازہ بھی کھلا تھا۔رضیہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی اور وہ دوڑتی ہوئی واپس اپنے شوہر والے کمرے میں گئی۔وہ چلاتے ہوئے بولی۔احمد کے ابا اٹھیں دیکھیں احمد گھر پر نہیں وہ جلدی سے اٹھا اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا مگر احمد گھر پر نہیں تھا آدھی رات تھی وہ کہاں جاسکتا تھا۔
پھر اس کی ماں بولی ہوسکتا ہے وہ مدرسے چلا گیا ہو؟حمید بولا آدھی رات کو اس کا ادھر کیا کام پر میں جاکے پتا کروں تم اندر سے دروازہ بند کرلو۔وہ باہر نکلا اور دیکھا تو سامنے کوٹھی کے گلوب پوری آب و تاب سے روشن تھے اور گارڈ دروازے کے باہر چوکناکھڑا تھا،اس نے گارڈ سے بیٹے کے متعلق پوچھا مگر کوئی مناسب جواب نہ مل سکا اور وہ مایوسی کی سی کیفیت میں گلی سے باہر بازار میں نکل کر مدرسے کی جانب چلنے لگا۔
بازار میں ساری دکانیں بند تھی اور کافی اندھیرا تھا۔کچھ دیر وہ مدرسے کے دروازے کے قریب پہنچ گیا گھر رضیہ پریشان بیٹھی تھی اس نے مدرسے کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر دروازہ نہ کھلا اس نے دو تین مرتبہ دروازہ زور زور سے تھپتھپایا مگر جواب ندارد۔وہ مایوسی کی سی کیفیت میں واپس مڑنے لگا ابھی وہ چند قدم آگے گیا تھا کہ پیچھے سے لوہے کے دروازے کی کنڈی کھلنے کی آواز آئی وہ مڑا اور جلدی سے بولا اسلام و علیکم قاری صاحب۔
جی و علیکم سلام خیریت آپ اتنی رات گئے ادھر؟وہ بولاا حمد ادھر مدرسے میں ہے۔نہیں وہ تو صبح صبح آتا ہے ابھی تو تین بجے ہیں۔حمید بولا اچھا وہ گھر پر بھی نہیں ہے۔قاری صاحب نے کہا آپ گھر جا کے سو جائیں وہ کسی دوست کی طرف چلا گیا ہوگا۔وہ وہاں سے گھر کی طرف چلنے لگا وہ جانتا تھا کہ احمد کبھی کسی کے گھر رات نہیں رکا اور جب بھی کسی جگہ جاتا انہیں بتا کے جایا کرتا تھا۔
وہ اپنے دروازے کے پاس پہنچ گیا اور باہر گلی کنڈی کو کھٹکھٹایا رضیہ جلدی سے دوڑتی ہوئی باہر آئی اور کنڈی کھولتے ہوئے بولی۔احمد ملا آپ کو؟کہاں ہے وہ؟نہیں ابھی ادھر بھی نہیں وہ سنتے ساتھ زور زور سے رونے لگ گئی اس کا شوہر اسے اندر لے گیا اور دروازہ بند کردیا ساری رات دونوں جاگتے رہے اور اس کے آنے کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہ آیااور صبح ہوگئی۔
صبح وہ دوبارہ مدرسے گیا اور قاری سے اپنے بیٹے ک متعلق دریافت کیا مگر مایوسی سے واپس لوٹ آیا احمد کی ماں رو رو کے ہلکان ہورہی تھی۔انہوں نے مسجدوں میں اعلانات کروائے اور پورے محلے میں احمد کی تلاش کے لیے گھر گھر چکر لگائے مگر کچھ پتانہ چل سکا احمد کی ماں کے کہنے پر حمید قریبی تھانے میں چلا گیا تاکہ پولیس والوں کی مدد لی جاسکے وہ وہاں پہنچا تو دیکھا ایس ایچ او صاحب کرسی پے بیٹھے سگریٹ پی رہے ہیں اور پاس ہی دواور جوان وردی پہنے کھڑے ہیں اس نے ایس ایچ او کو بیٹے کے بارے میں بتایا تو وہ بولا:لونڈا کہیں پھرنے گیا ہوگا خود ہی گھر آجائے گا۔
یہ بات اسے بری لگی مگر وہ خاموش رہا کچھ دیر بعد وہ پھر بولا سر اس کو کوئی دوست نہیں آپ لگا دیں،شکریہ۔“ہاں ہاں شکریہ سے کام نہیں چلے گا۔ہم نے ایندھن جلا کے اسے ڈھونڈنا ہے کچھ خیال کریں آپ۔مگر میرے پاس اتنے روپے نہیں کہ آپ کو دے سکوں۔تھانے دار بولا پھر ادھر خیر سے آئے روپے تو لگیں گے۔وہ مایوسی سے تھانے سے واپس گھر لوٹ آیا اس نے اپنی بیوی کو پولیس والوں کے نارواسلوک کے بارے میں بتایا تو وہ بولی۔
آپ انہیں کچھ روپے دے دیں اگلے روز حمید تھانے گیا اور ایس ایچ او کو پیسوں کے بھرا رومال پیش کردیا۔تھانے دار نے مسکراتے ہوئے کہا یہ ہوئی نہ بات اب آپ گھر جائیں ہم کوشش کرتے ہیں وہ مل جائے۔سر وہ مل جائے گا ناں۔بھائی میرے پاس تو نہیں ہم تو کوشش کریں گے مل گیا تو آپ کو اطلاع مل جائے گی وہ تھانے سے باہر نکلا اور واپس گھر آگیا ۔دو دن گزگئے مگر ان کے بیٹے کا کوئی سراغ نہ مل سکا پھر تیسرے دن صبح سویرے ان کا دروازہ کھٹکا دونوں جلدی سے باہر گئے تاکہ دروازہ کھول سکیں ہوسکتا ہے احمد آیا ہو حمید نے دروازہ کھولا تو سامنے سیٹھ کھٹا تھا دروازہ کھلتے ساتھ ہی وہ بولا۔
حمید سنا ہے احمد لاپتہ ہے؟کدھر ہے وہ؟سیٹھ جی ہمیں خود معلوم نہیں کدھر ہے وہ آپ کچھ کریں مہربانی،سیٹھ ماتھے پے بل چڑھاتے ہوئے بولا ہاں میں آج فارغ ہوکر تھانے جاؤں گا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو گارڈ سے منگوالیجیے گا۔ٹھیک ہے جی۔اسی روز رات گئے ایس ایچ او ان کے گھر آیا اور حمید سے کہا:تمہارا بیٹا بلوچستان کی طرف ہے اور وہماری رینج سے باہر ہے ادھر ایف سی ہوتی ہیں۔
احمد پڑھا لکھا نہ تھا اسے کیا پتہ ایف سی کس مرض کی دعا ہے وہ بولا۔سر میں سمجھا نہیں ادھر وہ کیا کررہا ہے؟بھائی مجھے کیا پتہ وہ کیا کررہا ہے ہمارے پاس خفیہ معلومات آئیں ہیں ان کے مطابق احمد نامی لڑکے کو چند شدت پسند اٹھا کر لے گئے ہیں۔ماں سنتے ہی زور زور سے رونے لگیں ایس ایچ او وہاں سے اٹھا اور سامنے سیٹھ کی طرف چلا گیا۔کئی دن گزرگئے احمد نہ آیا۔
دونوں بیٹے کی راہوں کو تکتے رہے مگر وہ نہ آیا چند دنوں کے بعدلاپتہ افراد کی نئی فہرست جاری ہوئی جس پر احمد کا نام بھی درج تھا۔اب وہ ان ہزار لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہوچکا تھا جن کا آج تک کسی کو کوئی پتہ نہ چل سکا کچھ عرصے بعد چاچا حمید دل کے اٹیک سے چل بسا اور رضیہ اکیلی ہوگئی حمید کی وفات کے چند دنوں بعد سیٹھ نے سامنے والے چار مرلے کے گھر کو اپنے نام کروالیا پھر میں نہیں جانتا رضیہ کا کیا بنا۔ہوسکتا ہے وہ بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل ہوگئی ہو یا کسی فٹ پاتھ میں بھیک مانگ رہی ہو۔

Browse More Urdu Literature Articles