Paesa Akhbar - Article No. 1521

Paesa Akhbar

پیسہ اخبار - تحریر نمبر 1521

ماں کہتی تھی جس کا اپنے ”مرکز“ سے رابطہ ٹوٹ جائے وہ گم ہو جایا کرتا ہے، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم بحیثیت انسان اور بحیثیت قوم گم ہو چکے ہیں

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی پیر 2 اکتوبر 2017

ماں کہتی تھی جس کا اپنے ”مرکز“ سے رابطہ ٹوٹ جائے وہ گم ہو جایا کرتا ہے، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہم بحیثیت انسان اور بحیثیت قوم گم ہو چکے ہیں۔ ایسا تعفن پھیلا ہے کہ اب تو قاتلوں سے بھی خون کی بو نہیں آتی۔ ساحلِ سمندر پر کھڑا یہ سوچ رہا ہوں قتل گاہوں اور صلیبوں کا اتنا ہجوم ہے کہ جی چاہتا ہے اتنا زہر پیؤں کہ سارا شہر مر جائے۔ ماں کہتی ہے اگر ملک بچانا ہے تو قوم کو قاتلوں کا خون پینے کی عادت ڈالنا ہوگی۔

میں اس دور کی بات کر رہا ہوں جب فاختہ جہاں چاہتی تھی اپنا گھونسلہ بنا لیتی تھی۔ یہ دور امن، محبت اور درخشاں روایات کا دور تھا۔ اس دور میں ذرداروں سے خون کی بو آیا کرتی تھی۔ اس دور میں جسموں پر چہروں کی روایت برقرار تھی اور لوگوں کے نام بھی ہوا کرتے تھے کیونکہ نام ہوتے ہی چہروں کے ہیں۔

(جاری ہے)

جسموں کے نام نہیں ہوا کرتے۔ بے چہرگی کے اس موسم میں اب کسی کا کوئی نام نہیں رہا۔

انسانی فطرت ہے انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کا نِک نیم ضرور رکھتا ہے۔ میری ماں مجھے ہمیشہ Parrot کہہ کر بلاتی تھی۔ وہ کہتی تھی یہ میرا باتیں کرنے والا طوطا ہے۔ ہر آدمی کے کئی نک نیم ہوا کرتے تھے۔ کل میں بیٹھا سوچ رہا تھا پروردگارِ عالم اپنے حبیب کملی والے سے کتنا پیار کرتا ہے کہ قرآن پاک میں چار مرتبہ آپ کا ذکر مبارک نام محمد سے کیا ہے اور ساڑھے تین سو سے زیادہ مرتبہ آپ کا ذکر مبارک صفاتی ناموں اور القابات سے فرمایا ہے۔
ہم اس وقت پیسہ اخبار میں رہتے تھے۔ پیسہ اخبار لاہور انارکلی کے ساتھ ایک محلے کا نام ہے۔ یہاں کسی دور میں ایک اخبار نکلتا تھا جو ایک پیسے کا ہوتا تھا اور اس اخبار کا نام بھی پیسہ اخبار تھا۔ برسوں پہلے یہاں ایک روایت تھی کہ شہر لاہور میں جس کسی کو بھی کوئی گمشدہ بچہ ملتا تھا وہ اسے لے کر پیسہ اخبار پہنچ جاتا تھا اور جن والدین کا بچہ گم ہو جاتا تھا وہ بھی پیسہ اخبار پہنچ جاتے تھے اور پھر اس محلے کے ساتھ منسلک ایک گلی میں کسی مخیر آدمی نے ایک ادارہ قائم کیا جس کا نام ادارہ خدمت خلق تھا۔
جب تک گمشدہ بچے کے والدین نہیں پہنچتے تھے بچہ اس ادارے میں رہتا تھا، وہاں اس کی دیکھ بھال کی جاتی تھی اور پھر یہ ادارہ خدمت خلق گمشدہ بچوں کو تلاش کرنے میں والدین کی مدد بھی کرتا تھا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں چند سالوں کی مہلت پہ آیا ہوا انسان بجائے شکر ادا کرنے کے قزاق اور خرکار بن بیٹھا ہے۔ میں اس وقت بہت ہنسا تھا جب بچپن میں ماں نے مجھے ایک کہانی سنائی تھی۔
اس کہانی کا ہیرو گم ہو جاتا ہے اور سب سے عجیب بات یہ تھی کہ وہ اپنا گھر اور نام بھی بھول جاتا ہے۔ میں نے کہا ماں جی مجھے اس کہانی سے اختلاف ہے، بھلا کوئی اپنے گھر اور نام کو بھی بھول سکتا ہے۔ ماں مسکرائی او ربولی پتر وہ اپنا چہرہ گم کر چکا تھا، نام تو ہوتے ہی چہروں کے ہیں اور گھر مکینوں سے ہوتے ہیں۔ گھر، کردار اور وطن ایمان کی طرح ہوتے ہیں، ایمان گم ہو جانے سے یہ بھی گم ہو جاتے ہیں۔
پُتر اختلاف کرنا تیرا حق ہے، خالق سے زیادہ مخلوق کا کوئی خیر خواہ نہیں ہوسکتا، رب نے اس دنیا کو اختلاف کے حسن سے پیدا کیا ہے۔ اختلاف کے ان رنگوں سے زندگی کی کہکشاں بناﺅ مگر خیال رہے اختلاف کے رنگوں میں کبھی سرخ رنگ نہیں ہوتا۔ مجھے اب بھی یاد ہے جب ہم گلی میں کھیل رہے ہوتے تھے تو ماں سمیت دوسرے بچوں کی مائیں کھڑکیوں سے جھانک کر ہمیں دیکھتی رہتیں اور وقفے وقفے سے ہمیں آوازیں دیتی رہتیں کہ بیٹا آجاﺅ گرمی زیادہ ہو گئی، بیٹا روٹی کھا لو، بیٹا دودھ پی لو، بیٹا پانی پی لو تمہیں پیاس لگ رہی ہوگی۔
میں کہتا ماں جی آپ کیوں مجھے کھڑکی سے دیکھتی رہتی ہیں، بھلا کیا میں گم ہو جاﺅنگا؟ ماں مسکراتی اور کہتی اللہ نہ کرے پُتر تو کہیں گم ہو جائے، پُتر میں اپنے Parrot کے بغیر اداس ہو جاتی ہوں۔ پُتر کھڑکیوں کے پیڑ پر صرف ”جھانکنے“ کا پھل ہی لگتا ہے، پُتر گھر میں کھڑکیاں اور ان کھڑکیوں میں کوئی جھانکنے والا نہ ہو تو گلیاں اداس ہو کر بوڑھی ہو جاتی ہیں اور شہر قبرستان بن جایا کرتے ہیں اور دلوں کی عمارتیں پرانے کھنڈرات میں بدل جایا کرتی ہیں۔
اب میں کبھی کبھی سوچتا ہوں دولت کے سامری نے محلوں اور گلیوں کو بازاروں اور پلازوں میں بدل دیا ہے۔ پلازوں اور بازاروں میں کھڑکیاں نہیں ہوتیں۔ باراتیں اب بھی یہاں سے گزرتی ہیں مگر لڑکیاں دروازوں اور کھڑکیوں کی اوٹ سے جھانک کر اب دولہا اور باراتیوں کو نہیں دیکھتیں۔ وہ دور بھی عجیب دور تھا لڑکیاں آنچل کی طرح ہوتی تھیں۔ ذرا سا آنچل سرک جانے سے چھوئی موئی بن جایا کرتی تھیں۔
شاید ان کا خمیر رات کی رانی سے اٹھایا گیا ہوتا تھا۔ شام ڈھلتے ہی ان کی یادوں کی خوشبو روح کو بے خود کر دیا کرتی تھی۔ یہ مائیں بھی کیسی مسیحا ہوتی ہیں، یہ اس دعا کی طرح ہوتی ہیں جس میں ہر پریشانی اور بیماری کا حل موجود ہوتا ہے۔ میں اور ماں ہر وقت ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہتے تھے۔ مجھے اس وقت ماں کی اکثر باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ مگر مجھے یوں لگتا تھا جیسے مجھے سب کچھ سمجھ آ رہا ہو۔
ماں کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا۔ ایک دن میں نیکر پہن کر سپارہ پڑھنے مسجد چلا گیا۔ مولوی صاحب غصے میں آگئے۔ بولے، تم مسجد میں نیکر پہن کر کیوں آئے ہو، ایسا کرو گے تو جہنم میں جاﺅ گے۔ میں نے گھر آکر ماں جی کو بتایا تو ماں بولی پُتر مولوی صاحب غصے میں ہوں گے۔ بیٹا جہنم میں جانے کے لئے بڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پُتر جہنم حاصل کرنے کے لئے بڑا پتھر دل ہونا پڑتا ہے۔
پُتر جہنم لینے کے لئے تو دوسروں کا حق مارنا پڑتا ہے، اس کے لئے قاتل بننا پڑتا ہے، فساد پھیلانا پڑتا ہے، مخلوق خدا کو اذیت دینی پڑتی ہے، نہتے انسانوں پر آگ اور بارود کی بارش کرنا پڑتی ہے، شیطان کا پیروکار بن کر محبت سے نفرت اور نفرت سے محبت کرنا پڑتی ہے۔ پُتر اس کے لئے قزاق بننا پڑتا ہے، پُتر اس کے لئے ماﺅں کی زندگیاں گم کرنے کے لئے خرکار بننا پڑتا ہے۔
خالق اور رحمت اللعالمین سے تعلق توڑنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر یہ جہنم ملتی ہے۔ پُتر تُو تو اتنا کاہل ہے پانی بھی خود نہیں پیتا، تجھ سے یہ محنت کیونکر ہوسکے گی۔ تُو تو چڑیا کی موت پر ہفتوں روتا رہتا ہے، تو اتنا پتھر دل کیسے بن سکتا ہے۔ اور پھر مجھے گود میں لے کر اتنا پیار کیا کہ مجھے نیند آگئی۔ مجھے نہیں یاد جب کبھی میں بیمار ہوا ہوں اور میں نے ماں کو سوتے دیکھا ہو یا اس کی آنکھیں نم نہ دیکھی ہوں۔
میں نے ایک دن ماں جی سے پوچھا ماں تو کتنا پڑھی ہے، تیرے پاس اتنا علم کہاں سے آیا۔ پُتر جب میں نے ایف اے کیا تو میں بہت پڑھنا چاہتی تھی مگر میری دادی نے ایک بات کی جو میری سمجھ میں آگئی۔ کہنے لگی، علم بہت زیادہ اور عمر کم لہٰذا وہ کچھ سیکھ جس سے سب کچھ علم میں آ جائے۔ میں نے کہا دادو وہ کیسے؟ کہنے لگی، علم دو طریقوں سے آتا ہے، محبت کرنے سے اور دوسرا اللہ کو راضی کرنے سے۔
آپ جس سے محبت کرتے ہیں اس کے متعلق سب کچھ علم میں آجاتا ہے اور دوسرا جب رب کسی سے راضی ہوتا ہے تو اسے علم کا تحفہ عطا کرتا ہے اور پھر پُتر میں نے محبت کرنا سیکھ لیا۔ میں نے کہا: ماں جی میں نہیں مانتا، بھلا آپ جس سے محبت کرتے ہیں اس کا سب کچھ آپ کے علم میں کیسے آجاتا ہے۔ ماں مسکرائی اور بولی پُتر میں تجھ سے محبت کرتی ہوں ناں اسی لئے تو تیرے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں۔
تو نے تو آج تک مجھے کچھ نہیں بتایا مگر میں جانتی ہوں تیری راتیں زیبو کی یاد کی رات کی رانی سے مہکتی ہیں، وہ آنچل جیسی لڑکی جس کی ہنسی اور چوڑیوں کی کھنک میں کوئی فرق نہیں، جو تیرا نام سن کر گلاب ہو جاتی ہے۔ پُتر میری اور تیرے باپ کی رفاقت پچیس سال پرانی ہے۔ ان پچیس سالوں میں تیرے باپ نے مجھے کبھی کچھ نہیں بتایا کہ اس نے کیا پہننا ہے اور کیا کھانا ہے اور پچیس سالوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب تیرے باپ نے وہ نہ کھایا ہو جو اس دن اس کا دل نہ کر رہا ہو، وہ نہ پہنا ہو جو اس نے چاہا نہ ہو۔
ماں صحیح کہتی تھی، میرے باپ نے بھی مجھے ایک دن یہی کہا تھا اس نیک بخت کو نہ جانے کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ آج میں نے کیا کھانا ہے اور کیا پہننا ہے۔ میں زیبو والا ماں کا سچ سن کر حیران بھی ہوا اور شرما بھی گیا۔ ماں بولی: پُتر اللہ کے سامنے سچ بولنا سیکھ لو وگرنہ مخلوق کے آگے جھوٹ بولنا پڑے گا۔ یہ ماں کی محبت اور کوشش ہی تھی کہ میں اور زیبو آج زندگی کے ہم سفر ہیں۔
میں اور میری ماں دونوں دنیا سے الگ سے تھے، میں سمندر کو ڈوبتا دیکھنا چاہتا تھا، ماں کہتی تھی ریت بونے سے صرف صحرا اگتے ہیں۔ کہتی تھی خاموش راستوں پر صداﺅں کے نشان کبھی نہیں جاتے۔ کہتی تھی دستک کے منتظر دروازوں کو تو دیمک بھی نہیں کھاتی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا میں وہ پیڑ ہوں جس پر دو نام کندہ کئے ہوئے ہیں، میں نے ایک دن ماں سے پوچھا ماں عوام کون ہوتے ہیں۔
کہنے لگی پتر! ان کو زندگی کے سٹیج پر خاموش اداکار کا کردار دیا جاتا ہے مگر جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دوسروں کو جرات گفتار اور شعلہ بیانی کا سرٹیفکیٹ دکھاتے ہیں۔ اس دن ہمارے ماموں کراچی سے آئے تھے، ہم تمام لوگ شاہی قلعہ دیکھنے گئے تھے، قلعہ کی پرشکوہ اور عظمتِ رفتہ کی شاہد عمارت کو دیکھ کر ماں کہنے لگی چراغ جب بھی جلاﺅ ہواﺅں کے تیور بدل جاتے ہیں۔
دیپ آندھیوں کو جنم دیتے ہیں۔ فانی جب لافانی کو بھلا کر گردنوں پر حکومت کرنا چاہتا ہے تو آندھیاں سارے چراغ بجھا دیا کرتی ہیں۔ واپسی پر ہم پیسہ اخبار گئے جہاں کبھی ہمارا پرانا گھر ہوتا تھا۔ سب کچھ بدل گیا تھا۔ ہمارے گھر اور پیسہ اخبار کا دفتر پر ایک بڑا پلازہ کرنل پلازہ کے نام سے بن چکا تھا۔ سب کچھ ہی گم ہو چکا میں بڑبڑایا، ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
میری طرف دیکھا اور بولی پُتر! وہ سرکنڈوں کے جنگل جل چکے جن سے لکھنے کے لئے قلمیں بناتے تھے۔ دولت کا دیو سب تہذیبوں کو کھا گیا، ہوس کی ایسی آندھی چلی ہے کہ سب کچھ گم ہوگیا ہے۔ پھر مجھے یوں لگا جیسے رفتہ رفتہ میں زمین میں دھنستا جا رہا ہوں۔ مجھے لگا جیسے میں گم ہو رہا ہوں، جو آخری آواز میں نے سنی وہ میری ماں کی چیخ تھی اور پھر مجھے ہوش نہ رہا۔
پھر ایک دن مجھے یوں لگا جیسے کسی فرشتے نے میرا ہاتھ پکڑ کر واپس دنیا میں بھیج دیا ہو۔ میں نے اپنے لباس کو دیکھا تو بہت حیران ہوا، لباس پھٹا ہوا تھا۔ سر اور داڑھی کے بال بے تحاشا بڑھے ہوئے تھے اور میں پیسہ اخبار میں کرنل پلازہ کی سیڑھیوں پہ بیٹھا ہوا تھا۔ پھر میں بھاگا بھاگا اپنے گھر میں پہنچا تو دیکھا زیبو آنکھیں بند کئے کچھ پڑھ رہی ہے۔
میری ماں ہاتھ میں تسبیح لئے مصلے پر بیٹھی رو رہی تھی۔ میں نے دھوپ میں لپٹے سورج کی روشنی میں دیکھا اس کے بالوں کے جنگل میں چاندی اتر چکی تھی اور میرا بیٹا اپنے دوست کو روتے ہوئے بتا رہا تھا۔ پیسہ اخبار میں ایک ملنگ صدائیں لگاتا پھر رہا ہے۔ ہے کوئی مجھے ڈھونڈنے والا، ہے کوئی مجھ کو مجھ سے ملانے والا، ہے کوئی جو مرکز سے میرا رابطہ جوڑ دے۔
ہم سب گم ہو چکے ہیں، دولت کے سامری نے ہم سے ہمارے چہرے چھین لئے ہیں، اب ہمارے نام نہیں رہے، نام تو چہروں کے ہوتے ہیں۔ ہے کوئی جو مجھے ڈھونڈ کر دے دے۔ یہ ملنگ میرا باپ ہے۔ میں نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا اور ماں کے قدموں میں جا کر سر رکھ دیا، ماں میں واپس آگیا ہوں، تیری دعائیں مجھے واپس لے آئی ہیں۔ ماں میں نے خود کو ڈھونڈ لیا ہے، ماں تو ہی تو کہتی تھی خود کو ڈھونڈنے کے لئے پہلے گم ہونا پڑتا ہے۔
اس دن ماں جی نے مجھے اتنا پیار کیا کہ میری روح سیراب ہو گئی۔ ماں کو جدا ہوئے سال ہو چکا ہے، یوں لگتا ہے جیسے صدیاں بیت گئی ہوں۔ سارا دن پیسہ اخبار میں جا کر بیٹھا رہتا ہوں۔ لگتا ہے ابھی آواز آئے گی بیٹا! آجاﺅ گرمی لگ جائے گی۔ بیٹا! سردی بہت ہو گئی گھر آجاﺅ۔ بیٹا! بھوک لگ گئی ہوگی، روٹی کھالو۔ بیٹا! آکر دودھ پی جاﺅ۔ بیٹا! گرمی بہت ہے، پانی پی لو۔ پانی اب بھی بہت ہے مگر وہ میری آنکھوں سے نکل کر پتھریلی زمین کو سیراب کرتا رہتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles