Qaid Hum Sharminda HaiN - Article No. 1603

Qaid Hum Sharminda HaiN

قائد ہم شرمندہ ہیں - تحریر نمبر 1603

پاکستان کو وجود میں آئے 70 برس ہونے کو ہیں شہدا ہم سے سوال کر رہے ہیں کیا اس پاکستان کے لئے ہم نے اپنی عزتوں مال اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی جمعرات 23 نومبر 2017

فرمانِ قائد ہے:
”یہ مشیت ایزدی ہے۔ یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیضان ہے۔“
جن دنوں علامہ شبیر احمد عثمانی حیدرآباد دکن میں حدیث نبوی پر کام کر رہے تھے تو متعدد بار قائداعظم نے ان سے پیغامات اور خط و کتابت کے ذریعے ملنے کی کوشش کی لیکن علامہ شبیر احمد عثمانی قائداعظمؒ کو مغربی تعلیم یافتہ تصور کرتے ہوئے نظرانداز کرتے رہے اور نہ پیغام اور خطوط کا جواب بھیجا اور نہ ہی ان کی ملاقات کی خواہش کا کوئی خاطر خواہ جواب دیا، اس صورت حال کے پیش نظر قائداعظم نے اللہ رب العزت کی بارگاہ اور سرورِ کائنات حضور اکرم کے حضور علامہ صاحب کی اس بے رخی کو سامنے رکھتے ہوئے گڑگڑا کر دعا کی ہوگی چنانچہ ان کی یہ ”دعا“ مستجاب ہوئی، کس قدر خوش قسمت ہیں ہمارے قائداعظمؒ کہ ایک رات آقائے نامدار تاجدارِ دوعالم حضور اکرم سے ”شرفِ ملاقات“ کرتے ہیں اور حضور اکرم قائداعظمؒ کو تسلی و تشفی دیتے ہیں اور بالکل اسی رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم علامہ شبیر احمد عثمانی کو (جو حیدر آباد دکن میں مقیم تھے) خواب میں شرفِ ملاقات بخشے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ ”ہمارا ایک امتی آپ سے ملنا اور رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے، آپ بمبئی جائیں اور اس سے ملاقات کریں اور اس کی رہنمائی کریں۔

(جاری ہے)


حضور اکرم کا حکم ہو اور انسان پس و پیش کرے ایک مومن اور مسلمان تو کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا اور پھر علامہ شبیر احمد عثمانی اور قائداعظمؒ جیسے عاشقانِ رسول تو سمجھتے تھے کہ انہیں دونوں جہاں کی دولت مل گئی، حضور اکرم کا ”دیدار“ اور نبی آخر الزماں کی ”بشارت“، انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، ان کی خوش قسمتی کا کوئی حساب نہ تھا۔
شاداں و فرحاں مولانا شبیر احمد عثمانی سب کچھ چھوڑ کر بمبئی پہنچتے ہیں اور جب قائداعظم کے در دولت پر پہنچتے اور ملازم کو اپنے آنے اور قائداعظمؒ سے ملاقات کی خبر دیتے ہیں تو قائداعظم سراپا آنکھیں بچھائے ان کے انتظار میں اپنے ”لان“ میں منتظر ہوتے ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانی اندر تشریف لاتے ہیں تو قائداعظمؒ کو ”سراپا انتظار“ دیکھتے ہیں اور پھر دونوں ”عاشقانِ رسول“ کے درمیان مندرجہ ذیل ”مکالمہ“ ہوتا ہے:
قائداعظمؒ: حضور والا میں جب مسلسل آپ کو پیغامات اور خطوط ارسال کرتا رہا اور آپ سے ملاقات اور رہنمائی کا متمنی رہا تو آپ نے توجہ نہیں فرمائی لیکن جب ”ان“ (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کا حکم ہوا ہے تو تشریف لے آئے ہیں۔

علامہ شبیر احمد عثمانی: کپا آپ کو بھی حضور سرورِ دوعالم کی ”بشارت“ ہوئی ہے؟
قائداعظم: میں آپ (حضور اکرم) کے ”ارشاد“ کے مطابق ہی آپ سے ملاقات کے لئے کوشش کرتا رہا ہوں۔
علامہ شبیر احمد عثمانی: کیا یہ سچ ہے؟
قائداعظم: یہ حقیقت ہے۔
مشہور امریکی مورخ سٹینلے والپرٹ قائداعظمؒ کی عظمت کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

”بہت کم شخصیات تاریخ کے دھارے کو قابلِ ذکر انداز میں موڑتی ہیں، اس سے بھی کم وہ افراد ہیں جو دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جسے ایک قومی ریاست تخلیق کرنے کا اعزاز حاصل ہو، جناح نے یہ تینوں کام کر دکھائے۔“
میرا قائد کیا سوچتا ہے؟
”میری آرزو ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ایک ایسی مملکت بن جائے کہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے فاروقِ اعظمؓ کے سنہری دور کی تصویر عملی طور پر کھنچ جائے، خدا میری اس آرزو کو پورا کرے۔

میں عمر بھر بت پرستی کے مندر اور توحید کے کعبہ کے درمیان معلق رہا، اس دن زندگی میں پہلی بار ہمت کرکے اور باوضو ہو کر قائد کی آنکھوں میں جھانکا اور پھر میری میان توحید کی شمشیر سے بھر گئی، میرے قائد کی آنکھوں میں ایک پراسرار سا عزم تھا ”کن فیکون“ جیسا عزم، مگر ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سا گلہ بھی تھا، جیسے تیر کھا کر مڑ کر دیکھیں اور اپنوں سے ملاقات ہو جائے، جیسے اولاد باپ کے احسانات بھول جائے، جیسے کوئی امین خیانت کا مرتکب ہو جائے۔
آج پہلی بار میں نے حوصلہ کرکے قلم پکڑا تو شعورِ ذات نے مجھے وقت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور میں نے شرمندگی کے کاغذ پر آنسوﺅں اور ہچکیوں کی زبان میں آب دیدہ لفظوں کی سیاہی سے ندامت کے قلم سے لکھا:
قائد ہم شرمندہ ہیں!
میں بیک وقت کئی کیفیات سے گزر رہا ہوں، کبھی اپنی بے بسی پر ہنسنے کو دل چاہتا ہے تو کبھی جی چاہتا ہے ایسا ماتم کروں کہ دیکھنے والی ہر آنکھ برسوں پرنم ہو جائے۔

1947ء میں ”شیو سینا نگر“ کے درندوں اور راہزنوں سے لٹنے والا مسافر بھی نہ جانے کیوں خوش تھا، شاید اس کی امید بھری آنکھوں میں ہزاروں سہانے خواب چھپے تھے، شاید پوری قوم قائد کی پرعزم آنکھوں سے دیکھنے کی عادی ہو چکی تھی، میرے قائد کی آنکھوں کو غور سے دیکھو، عزم و استقلال کے شاہین جیسی آنکھیں، شفیق باپ کی شفقت اور پیار لئے درویش آنکھیں، میرا قائد آہنی کہسار کی مانند تھا جس سے ٹکرا کر ہر طوفان راستہ بدل جایا کرتا تھا، جس کے عزم سے ”سفید بنیا“ اور ”سیاہ بنیا“ دونوں خوفزدہ تھے۔

میرا قائد مردِ مومن تھا، اقبال کا مردِ مومن، جو سراپا خودی تھا، جس کا کردار ہمالیہ تھا، صوفی برکت علی کے بقول مومن کا عزم کن فیکون کا درجہ رکھتا ہے مگر ہمارا عزم کہاں ہے؟ اب تو سوال پیدا ہوتا ہے ہماری کچھ سوچ ہے بھی یا نہیں، چار مارشل لاﺅں کی ڈسی یہ قوم اب قوم رہی بھی ہے یا ہجوم بن گئی ہے۔ اس کی سوچ کہاں گئی، اس نے تو ملتِ اسلامیہ کے سر کا تاج بننا تھا کیوں آٹے اور چینی کی لائنوں میں لگی دھکے اور لاٹھیاں کھا رہی ہے۔

کیا ایسا تو نہیں ہم نے اپنا فرض ادا نہ کیا ہو؟
فرض کیا ہے
وقت کی آواز پہ لبیک کہنا
وقت کی آواز کیا ہے
قائد کے فرمان کی روشنی میں
خود شناسی اور خود احتسابی
خود شناسی اور خود احتسابی سے گریزاں قومیں سقوطِ ڈھاکا جیسے سانحات سے دوچار ہو جایا کرتی ہیں، سانحہ پشاور میری آنکھوں کی نیند چھین کر لے گیا ہے، ان معصوم بچوں کے خون نے میری آنکھوں کی سرخی کو اور بڑھا دیا ہے۔
یہ بچے مجھ سے پوچھتے ہیں انکل ہماری عمریں تو رنگوں سے کھیلنے، جگنوﺅں اور تتلیوں کے پیچھے دوڑنے اور ماں کی جھولی میں سر رکھ کر سونے کی تھیں، ہمیں یہ سفید لباس کیوں پہنا دیا گیا ہے۔ کیا تمام دنیا کو لڑنے کے لئے جنگ کے لئے ہمارا ہی ملک نظر آتا ہے۔ انکل ہمیں ڈالر نہیں چاہئیں، ہمیں امن چاہئے، ان معصوم بچوں کی شہید روحیں نوحہ گر ہیں اور پوچھتی ہیں بابائے قوم نے یہ ملک اس لئے بنایا تھا کہ ہمارے خون سے ہولی کھیلی جائے؟ انکل آپ دوسروں کی جنگ اپنے ذمے کیوں لیتے ہیں، انکل انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہے آپ سے اپنی ذات تو سمیٹی نہیں جاتی آپ خدائی کے طلبگار بن گئے ہیں۔

حقوق اور فرائض کی ذمہ داری میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
مادرِ وطن کا حق کیا ہے؟
بانی وطن سے محبت اور اس کے باسیوں سے محبت اور اس کے محسنوں کی عزت وگرنہ اس ملک میں دوبارہ کبھی محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر پیدا نہیں ہوگا۔ عزت کروانے کا شوق ہو تو عزت والے کام کرنا پڑتے ہیں اپنے کردار کو ”جناح“ کرنا پڑتا ہے۔ تحمل، برداشت، بردباری اور ایثار کے دانوں کو زندگی کی تسبیح میں پرونا پڑتا ہے ذہنوں اور گھروں کو کتابوں کے زیور سے آراستہ کرنا پڑتا ہے علم والی قومیں ہی قدآور قوموں کی صف میں کھڑی ہوتی ہیں وگرنہ دنیا کا کمزور اور غلام قوموں سے رویہ کیا ہوتا ہے؟
Stick or Carrot
Foe or Friend
تاریخ کے دستر خوان پر میں نے ہمیشہ غلام اور کمزور قوموں کو ہی طاقتور اور کتاب دوست قوموں کا نوالہ بنتے دیکھا ہے۔

میرے قائد کی فراست سے دشمن خوفزدہ تھا میرا قائد جانتا تھا رب اپنے بندوں کو غلام دیکھنا نہیں چاہتا اسی لئے تو قرآن میں غلامی کے آداب نہیں سکھائے گئے میرا قائد جانتا تھا غلام اور غلامی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا غلام قومیں اپنی روٹی کے لئے کشکول کی طرف دیکھتی ہیں اور آزاد قوموں کا رزق ان کے نیزے کی نوک پر ہوتا ہے۔
میرے قائد کی بصیرت جانتی تھی غلامی کے کھیت میں یا تو بھوک اگتی ہے یا گدائی کے کشکول تمام عیوب میں غلامی ہی ایک ایسا عیب ہے جو اخلاق کی پستی، دنایت اور بغض و عناد جیسے ناپاک رذائل انسان کے اندر پیدا کر دیتا ہے۔
میرا قائد جانتا تھا غلامی کرائے کا وہ گھر ہے جس کو جتنا بھی سجا لیں مگر اپنا نہیں ہوتا۔ غلامی کے پاﺅں میں سدا ذلت کی پائل چھنکتی ہے۔ غلاموں کی زندگی میں کوئی بڑا نصیب العین نہیں ہوتا مقصدِ حیات کے بغیر زندگی کوڑے دان کے سوا کچھ نہیں۔ میرے قائد کو علم تھا کہ غلام اگر کوزہ گری بھی سیکھ لے گا تو فقط کاسے ہی بنائے گا اور غلاموں کی صحبتیں نور سے خالی، شامیں خون میں ڈوبی اور قفس کی ہوائیں زہر سے بوجھل ہوتی ہیں میرا قائد جانتا تھا پرندہ زیادہ دیر قفس میں رہ جائے تو پھر قفس اس کے اندر رہنے لگتا ہے۔
میرے قائد کو علم تھا کہ غلامی ذہنوں کو صحرا بنا دیتی ہے اور لہجوں کو دسمبر، غلام کو آزاد بھی کر دو تو وہ صدیوں من و سلوٰی کا غلام رہے گا، اسے پنجرے میں پڑی سونے کی کٹوری بھاتی رہے گی۔
میرے پاس دیکھنے والی آنکھ ہوتی تو میں سمجھ سکتا کہ میرے قائد نے مجھے ملک نہیں ایک مینار والی مسجد لے کر دی تھی جس کے باسیوں کا مذہب پاکستان اور دین اسلام ہونا چاہئے تھا مگر میں غلام ہی رہا اور اس سجدہ گاہ کا احترام نہ کرسکا یہ ایک درویش کا تحفہ تھا مگر اس تحفے کی قدر نہ کرسکا اور ناقدرا اور بے مروت کہلوایا۔
یہ ملک ایک وعدہ تھا جسے میں ایفا نہ کرسکا۔
کبھی کبھی میں اپنے بیٹے عمر بلوچ سے خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ کہیں اس کا شعور نہ جاگ جائے اگر اس کا شعور جاگ گیا تو کہیں وہ میرا گریبان نہ پکڑ لے اور مجھے کہے بابا مجھے یہ دہشت گردی میں ڈوبا یہ پاکستان نہیں چاہئے مجھے یہ آدھا پاکستان نہیں چاہئے مجھے یہ قومیتوں میں بٹا پاکستان نہیں چاہئے مجھے رشوت، کرپشن، ماورائے آئین و قانون اقدامات، اقربا پروری، دوست نوازی ، بیرون ملک سرمائے کا سفر، ملاوٹ اور عام شہری کی بے بستی والا پاکستان نہی چاہئے مجھے وہ پاکستان چاہئے جو اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہو مجھے وہ پاکستان چاہئے جو میرے قائد نے ہمیں دیا تھا مجھے وہ پاکستان چاہئے جس کے سپنے میرے قائد کی آنکھوں میں چھپے ہیں مجھے وہ پاکستان چاہئے جو محبت و امن کا گہوارہ ہو۔

ہر آمر کا ایک المیہ ہوتا ہے ہر آمر اپنے ارد گرد بونے رکھتا ہے اور بونوں کی حکومتیں کبھی قدآور انسان پیدا نہیں کرسکتیں۔
اے قائد ہم شرمندہ ہیں ہم تیری امانت کی حفاظت نہ کرسکے اس ناخلف اولاد کی طرح جو اپنے باپ کی رحلت کے بعد اس کی تمام وراثت کو کوڑیوں کے بھاﺅ بیچ ڈالتی ہے اور اس کی عزت کو نیلام کر دیتی ہے۔
کھایا گیا ہے بانٹ کے کس اہتمام سے
جیسے مرا وطن کوئی چوری کا مال تھا
حضرت عمرؓ کے دور کا ایک واقعہ ہے کہ بستی کے رہنے والوں نے ایک پیاسے مسافر کو پانی نہ دیا اور وہ پیاس کے باعث مر گیا تو حضرت عمرؓ نے اس کا خون بہا خود دیا اور پھر بستی والوں سے وصول کیا اس فاروقی فیصلہ کی وجہ سے قانون بن گیا کہ اگر بستی میں کوئی شخص بھوک پیاس سے مر جائے تو اہل بستی اس کے خون کے ذمہ دار ہوں گے آج جو خود کشیاں ہو رہی ہیں قائد کے اس دیس میں ذمہ دار کون؟
حکومت، عوام یا سسٹم
دوش کس کو دیں
شاید ہم سب ہی قصور وار ہیں کیونکہ ہم سب نے اپنا اپنا فرض ادا نہیں کیا۔

فرض کیا ہے۔
وقت کی آواز پہ لبیک کہنا
اور وقت کیا کہتا ہے۔
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسمان کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے
اور
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
پاکستان کو وجود میں آئے 70 برس ہونے کو ہیں شہدا ہم سے سوال کر رہے ہیں کیا اس پاکستان کے لئے ہم نے اپنی عزتوں مال اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا جہاں افلاس، بھوک اور دہشت گردی کا بسیرا ہے جہاں لوگ قرآن رکھتے ہوئے بھی جہالت کا شکار ہیں جہاں محبت اور امن سہمے ہوئے ہیں ہم جتنے بھی دعوے کرلیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان تو ہے مگر یہ میرے قائد کا پاکستان نہیں۔
یہ زمین کا ٹکڑا تو ہے مگر اس میں نظریہ پاکستان کی روح نہیں۔ ہمارے پاس صرف اعتراف ہی اعتراف ہے اور ندامت کے آنسو
اے قائد ہم شرمندہ ہیں....
قائد ہم شرمندہ ہیں

Browse More Urdu Literature Articles