Qatil - Article No. 1198

Qatil

قاتل - تحریر نمبر 1198

میں تیز بھاگ رہا تھا پولیس میرے پیچھے تھی میں ایک گلی سے دوسری گلی ہوتے ہوئے مین روڈ پر آگیا تھا ۔روڈ پر بہت ٹریفک تھی میں نے جلدی سی سڑک عبور کی اور پھر دوسری سڑک نکل آیا ایک بس میں جلدی سے گھس گیا سیٹ تو نہیں ملی مگر پولیس کے ہاتھ لگنے سے محفوظ ہو گیا اب پولیس سے میں بہت دور نکل چکا تھا ۔میری آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا

Babar Saleem Nayab بابر سلیم نایاب جمعہ 17 فروری 2017

بابر نایاب
میں تیز بھاگ رہا تھا پولیس میرے پیچھے تھی میں ایک گلی سے دوسری گلی ہوتے ہوئے مین روڈ پر آگیا تھا ۔روڈ پر بہت ٹریفک تھی میں نے جلدی سی سڑک عبور کی اور پھر دوسری سڑک نکل آیا ایک بس میں جلدی سے گھس گیا سیٹ تو نہیں ملی مگر پولیس کے ہاتھ لگنے سے محفوظ ہو گیا اب پولیس سے میں بہت دور نکل چکا تھا ۔میری آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا ۔
میں ایک قتل کر کے بھاگا تھا قتل بھی کسی اور کا نہیں میں نے اپنی بہن کا قتل کیا تھا اور مجھے زرا برابر بھی افسوس نہیں بلکہ خوشی ہے کہ میں ایک غیرت مند انسان ہوں ،میری بہن مجھ سے اپنی زندگی کی بھیک مانگتی رہی خدا کے واسطے دیتی رہی اور اپنی صفائی دیتی رہی مگر اُس کی سزا یہی تھی اُس نے جرت کیسے کی کہ وہ کسی اجنبی سے کوئی ناجائز تعلق رکھے ۔

(جاری ہے)

۔
اچانک کندیکٹر کی آواز آئی کہ کس سٹاپ پر اُترنا ہے میں نے چونک کر اُسے دیکھا اور کہا۔۔آخری سٹاپ پر اُتار دو اور جیب سے پیسے نکال کر اُسے کرایہ دے دیا آخری سٹاپ آگیا تو میں اُتر گیا مغرب ہو چکی تھی میں نے جیب سے موبائل فون نکالا اور کال ملائی دوسری طرف سے شبیر بولا ۔۔ کیسے یاد کر لیا میرے جگر ۔۔یار تو کہاں ہے تیری مدد چاہیے ۔میں نے کہا۔

خیر تو ہے کہیں پھر کسی سے جھگڑا تو نہیں ہو گیا تیرا ۔۔شبیر نے ہنستے ہوئے کہا۔۔ نہیں یار اس سے بھی بڑا کام کر بیٹھا ہوں ۔
اچھا تو ایسا کر فرید کے ہوٹل ا ٓ جا میں تجھے وہیں ملوں گا ۔۔میں نے فون بند کر دیا اور رکشہ والے کو روکا اور فرید کے ہوٹل کی طرف چل پڑا ۔۔میں سوچ رہا تھا کہ اب گھر میں کہرام مچ چکا ہو گا کتنی بدنامی ہو گئی ہماری جب پتا چلے گا کہ میری بہن کا کسی غیر مرد سے کوئی تعلق تھا میرے دل کر رہا تھا میری بہن پھر سے زندہ ہو جائے میں پھر اُسے دوبارہ سے گولیا ں مارو یا اُس کے جسم کے ٹکڑے کر دوں ۔
۔فرید کے ہوٹل پہنچ کر میں نے پھر شبیر کو کال کی شبیر نے آگے سے فون مصروف کر دیا تھوڑی دیر بعد فرید ہوٹل سے باہر نکلااور سیدھا میری طرف آیا اور سنجیدگی سے کہا۔۔ اکمل کیا ہوا ہے سب خیر تو ہے ۔میں نے کہا۔۔ یار میں میری بہن ٹھیک نہیں تھی میں نے اُسے مار دیا ہے پولیس میرے پیچھے لگی ہے ابھی میں پولیس کے ہاتھ نہیں لگنا چاہتا ابھی اُس کے یار کو ما ر کر ہی پولیس کر گرفتاری دوں گا ۔
۔کیا تو نے اپنی بہن کو مار دیا ۔۔شبیر نے حیرت پوچھا ۔۔۔ہاں کاش میں بہت پہلے مار چکا ہوتا جب مجھے صرف شک ہوا تھا ۔۔ میں نے غصے سے کہا ۔۔ شبیر نے میری طرف عجیب سے نظروں سے دیکھا اور کہا۔۔ ٹھیک ہے میں تجھے صرف ایک دن کی پناہ دے سکتا ہوں آجکل پولیس نے میرے اُوپر بڑی سخت نظر رکھی ہوئی ہے تجھے تو پتا ہے ابھی تو میری ضمانت ہوئی ہے پھر میں نے کوئی پنگا کر لیا تو میرا جیل سے باہر آنا مشکل ہو گا ۔
۔ چلا آ میرے ساتھ شبیر نے مجھے کہا۔۔ میں اُس کے پیچھے چل پڑا اُس نے ہوٹل کی پارکنگ سے اپنی کار نکالی اورپھر مجھے بٹھا کر چل پڑا ۔۔ہم کہاں جا رہے ہیں ۔میں نے راستے میں پوچھا ۔۔ میرے پرانے والے ٹھکانے پر تو پولیس کی نظر ہے مگر میری ایک معشوقہ ہے اُس کے پاس تجھے چھوڈوں گا وہاں تو محفوظ رہے گا ۔۔باقی کا سفر خاموشی سے کٹا ۔۔ شبیر میرا کوئی بہت گہرا دوست نہیں تھا بس ایک دفعہ شبیر پر کافی لوگوں نے حملہ کر دیا تو میں اتفاق سے اُدھر ہی اپنے دوستوں کے ساتھ موجود تھا میں نے شبیر کو اُن لوگوں سے بچایا تب سے شبیر میرے دوست بن گیا تھا شبیر چرس کا دھندا کرتا تھا ابھی کچھ دن پہلے ہی جیل سے باہر آیا تھا ۔
مجھے پتا تھا شبیر پر جو میں نے احسان کیا ہے وہ احسان کا بدلہ ضرور چکائے گا اور ایسا ہی ہوا وہ ایک قاتل کو پناہ دے ر ہا تھا جس کے پیچھے پولیس لگی ہوئی تھی۔ہم شہر کے پوش علاقے میں داخل ہو گئے ایک خوبصورت بنے گھر کے پاس اُس نے کار روک دی اُس نے ہارن بجایا تھوڑی ہی دیر بعد مین گیٹ کھل گیا اور چوکیدار نے شبیر کو سلام کیا۔۔ شبیر نے کار اندر کھڑی کی اور مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کیا میں اُس کی تقلید کرتا ہوا چل پڑا ۔

گھر کافی خوبصورت بنا ہوا تھا شبیر مجھے سیدھا اندر لے گیا ایک کمرے سے عورت باہر آئی وہ کافی دلکش لگ رہی تھی شبیر نے اُسے میرا تعارف کروایا اور کہا ۔۔آج یہ ہمارے ساتھ رہے گا ۔۔عورت نے جواب دیا ۔ٹھیک ہے ۔۔شبیر نے مجھے ایک کمرا دکھایا اور کہا۔تھوڑی دیر آرام کر لو پھر اکٹھے کھانا کھاتے ہیں ۔۔میں لیٹ گیا ابھی مجھے لیٹے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک دھڑام سے دروازہ کھلا اور پولیس کی وردی میں ملبوس انسپکٹر اور سپاہی اندر داخل ہوئے ۔
انھوں نے مجھے گرفتار کر لیا اور مجھے ہتھکڑی لگا دی اور باہر لے جانے لگے باہر شبیر اور وہ عورت اکٹھے کھڑے تھے میں نے شبیر کو غصے سے دیکھا اور کہا ۔۔یہ غداری تجھے بڑی مہنگی پڑے گئی تو نے اچھا نہیں کیا۔شبیر نے کہا ۔۔میں نے یہ زندگی میں پہلی بار کوئی اچھا کام کیا ہے کہ تجھ جیسے ظالم انسان کو اُس کے انجام تک پہنچا رہا ہوں تو کیا سمجھتا ہے تو نے اپنی بہن کو مار کر ٹھیک کیا ہے جس راجو نے تجھے تیری بہن کے خلاف بھڑکایا تھا کہ تیری بہن کا کسی سے غلط تعلق ہے وہی کمینہ تیری بہن کو آتے جاتے تنگ کرتا تھا اور تیری بہن نے اس لیے تجھے نہیں بتایا کہ کہیں تو غصے میں آ کر راجو کو مار نہ دے جب راجو کی دال نہیں گلی تو اُس نے تجھے تیری بہن کے خلاف بھڑکا یا اور تو نے بغیر سوچے سمجھے اپنی بہن کو قتل کر دیا ہم نے بھی غلط کام کیا ہیں مگر کسی کی زندگی نہیں چھینی اور وہ بھی اپنے خون کے رشتے کی لعنت ہے تجھ پر اور یہ سب راجو نے میرے ایک دوست کو بتایا تھا آج میرے دوست نے وہ سب مجھے بتایا اور میں نے تجھے یہاں لا کر پولیس کو اطلاع کر دی اب تو جا اور اپنا انجام بھگت ۔
۔یہ سن کر میرے دماغ میں آندھیاں چلنی شروع ہو گئیں پولیس والے مجھے دھکے دیتے ہوئے لے گئے جیل میں مجھے بند کر کے انسپکٹر نے کہا ۔۔لوگ کہتے ہیں پولیس ظالم ہے مگر ظلم تو تم جیسے لوگ کر رہے ہو تیرے اس ظلم کی وجہ سے تیری ماں بھی اس دنیا سے جا چکی ہے تیری بہن کے قتل کا صدمہ وہ برداشت نہیں کر سکی اورہارٹ اٹیک سے مر گئی ۔۔میں جیل میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔
۔میری بہن کا چہرہ میرے سامنے آ رہا تھا وہی بہن جو مجھے کھانا بنا کر کھلاتی تھی میرے ساتھ ہنسی مذاق کرتی تھی میری شادی کے لیے لڑکی ڈھونڈ رہی تھی میں جب اُسے گولی مارنے لگا وہ کتنی تڑپ رہی تھی کس طرح زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی مجھے بھیا بھیا کہ رہی تھی کہ بھیا تیری بہن بے گناہ ہے بھیا تجھے کسی نے غلط کہا ہے میں نے اُس پر ذرا رحم نہیں کھایا اُس کے معصوم چہرے پر مجھے ذرا ترس نہیں آیا اور میری ماں وہ بھی میرے اس اقدام کی وجہ سے مر گئی میں نے پورا گھر اپنے ہاتھوں ہی جلا دیا ۔
۔میں یہ کہانی جیل میں بیٹھا لکھ رہا ہوں میرے خلاف فیصلہ آ گیا ہے عدالت نے مجھے موت کی سزا سنا دی ہے کچھ دن بعد مجھے پھانسی ہونے والی ہے یہ کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے اور یہ کہانی شاید جب شائع ہو تب میں پھانسی کے پھندے پر چڑھ چکا ہوں گا مگر یہ کہانی اس
دنیا میں میرے جیسے ظالم صفت بھائیوں کے لیے ایک سبق اور عبرت بن جائے کہ اپنے خون کے رشتوں پر اعتماد کرنا سیکھوں اور کبھی کسی کا قتل نہ کرو قتل ایک انسان کا نہیں ہوتا بلکہ پوری نسل کا ہوتا ہے میں تو ضمیر کی عدالت میں کب کا مر چکا ہوں اب بس جنازہ اُٹھنے والا ہے میرے گناہ کی معافی نہ مجھے اس دنیا میں ملے گئی اور نہ ہی آخرت میں۔۔۔۔۔۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles