Qaza - Article No. 1556

Qaza

قضا - تحریر نمبر 1556

میرا باپ کہتا ہے: عقل کی آنکھ سے دیکھو گے تو صرف اپنا ہی گھر نظر آتا ہے مگر عشق جب بھی دکھاتا ہے محبوب کا گھر ہی دکھاتا ہے

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی بدھ 25 اکتوبر 2017

جب میں یونیورسٹی کا امتحان پاس کرکے گاﺅں پہنچا تو ماں صحن میں پرندوں کے لیے دانہ ڈال رہی تھی۔ ہمارے گھر کے آنگن میں سرسبز پیڑوں اور منڈیر پر بیٹھے پرندے سب اڑ کر دانہ چگنے میں مصروف ہوگئے۔ مجھے دیکھ کر میری ماں کے چہرے پر بہار آگئی۔ اس نے میرا ماتھا چوما اور دُعا کے پھولوں کے ڈھیروں ہار میرے گلے میں ڈال دیئے۔ میں نے پوچھا: ماں! تم ہر وقت اِن پرندوں کا اتنا خیال کیوں کرتی ہو؟ ماں نے پرندوں کے لیے رکھے گئے برتن میں پانی ڈالتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بولی: بیٹا! جس کو بھوک کے عذاب کا پتہ ہو وہی اپنی فصل پرندوں کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

ماں جی شہر میں میرے ایک دوست نے بہت سے پرندے پالے ہوئے ہیں، اس کا صحن پرندوں کے پنجروں سے بھرا پڑا ہے۔
ماں غمزدہ لہجے میں بولی:
پالتو پرندے کو اپنی غلامی کا غم نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)


پُتر رب کو پسند نہیں، اس کا بندہ اس کے علاوہ کسی اور کی بندگی کرے۔ غلامی کے اسیروں کی دبے پاﺅں چلنے کی عادت نہیں جاتی مگر ماں جی دنیا کی غلامی سے کیسے نکلا جاسکتا ہے؟
ماں بولی: پُتر! دنیا کے کام بھی الٹے ہیں جو اس کے قیدی ہیں لوگ اسے شاہ کہتے ہیں جو شاہ ہیں لوگ انہیں فقیر اور گدا کہتے ہیں۔

رب جس کو دنیا کی غلامی سے نجات دلانا چاہتا ہے اسے مقام شکر عطا فرما دیتا ہے اور یہ اعزاز اس کو ضرور ملتا ہے جن کی خدمت قضا نہیں ہوتی اور شکر کا درخت صبر کی زمین میں ہی اگتا ہے۔
ہمارا گاﺅں لاہور سے تیس کوس دُور دریائے راوی کے کنارے آباد ہے۔ کناروں کی روایت کے امین کو دریا کہتے ہیں اور اس کے باغی کو سمندر، راوی کنارے رہنے والے اس گاﺅں کے لوگ بھی روایت پسند ہیں۔
میرے باپ کو جب کسی نے مشورہ دیا کہ زمین بیچ کر شہر چلے جاﺅ تو میرے والد نے فوراً جواب دیا: میں گاﺅں کا ہرا بھرا جنگل چھوڑ کر شہر کی آلائشوں میں نہیں جانا چاہتا۔ شہر کی بھیڑ میں تو جنگل بھی گم ہوجاتے ہیں، میں سایہ کہاں سے ڈھونڈوں گا۔ کہنے لگا: گاﺅں میں زیادہ سے زیادہ فصلیں خراب ہوتی ہیں مگر شہر میں نسلیں خراب ہوجاتی ہیں۔ شہر میں تو لوگوں کا لَمس بھی تلوار جیسا ہے۔
کہنے لگا شہروں میں سفر کی حکمرانی ہے اور جس سفر کا مقصد ”تلاش“ نہ ہو وہ سفر نہیں ہوتا۔ سفر تو صرف اندر کا ہوتا ہے کیونکہ سارے خزانے تو صرف انسان کے اندر ہیں باہر تو صرف سانپ بیٹھے ہیں۔ کہنے لگا کچھ تو ایسا ہے جسے تلاش کرنا ہے اسی لئے تو انسان کو مسافر پیدا کیا گیا ہے، خالق سے تعلق کے بغیر انسان قبروں کی رکھوالی کرنے والے چوکیدار کی طرح ہے اور ملتا انہی کو ہے جو رب کو محبت اور احسان مندی سے پکارے۔

اس رات چاند نے کالی گھٹا اوڑھ رکھی تھی، اندھیرے نے چپ سادھ لی تھی، جگنوﺅں کا قافلہ لئے اس گہری اداس شب نے میرے اندر کے سوالوں کے سارے چراغ روشن کر دیئے تھے۔ ماضی کی یادوں کے سارے ستارے میرے اندر چمکنے لگے تھے اور میری جاگتی آنکھوں میں خواب سونے لگے تھے۔ خواب ریشم اور مخمل کے ہوں تو بھلے لگتے ہیں، کانچ کے خواب تو آنکھوں کو زخمی کردیا کرتے ہیں۔
میں اپنے کمرے میں لیٹا سوچ رہا تھا یہ سفر کیا ہے، بعض لوگ اپنا سفر اتنی جلدی کیسے مکمل کر لیتے ہیں۔ منزل مل جائے اور سفر کی تھکان بھی رہے تو کیا اسے منزل کہیں گے؟ کیا سمجھوتہ غلامی کی پہلی قسط تو نہیں، اگر یہ غلط ہے تو پھر قلم میں لُکنت کیوں آجاتی ہے۔ کہنیوں کے زور پر دوڑ جیتنے والوں سے قدرت انتقام کیسے لیتی ہے، کچھ چیزوں کی قضا کیوں نہیں ہوتی؟ میری ماں اور میری بہن اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں تو وہ میکے میں آکر رونے کیوں لگتی ہیں؟ عقل اور عشق میں لڑائی کیوں ہے؟ میرا باپ کہتا ہے: عقل کی آنکھ سے دیکھو گے تو صرف اپنا ہی گھر نظر آتا ہے مگر عشق جب بھی دکھاتا ہے محبوب کا گھر ہی دکھاتا ہے۔
بینائی کا قحط پڑے تو صرف زر اور زردار ہی کیوں نظر آتے ہیں، رحمان کا ایک نام منتقم بھی ہے، وہ انتقام کیسے لیتا ہے؟ باپ اپنی بیٹیوں سے زیادہ پیار کیوں کرتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ بیٹیاں اپنے باپ سے زیادہ پیار کرتی ہیں۔ مجھے لندن جانے کا جنون کیوں ہے؟ مگر میرے ماں باپ کیوں نہیں چاہتے۔ عائزہ لندن کی زندگی چھوڑ کر گاﺅں کیوں آگئی ہے؟ وہ کیوں کہتی ہے بڑے شہروں کی تھکان نہیں جاتی اور یہاں ہر شخص کے چہرے پر اجنبیت کی کائی جمی ہے۔
کیا انسان صرف دنیا میں روٹی کمانے کے لیے ہی آیا ہے۔ اگر معیشت ہی سب کچھ ہے تو انسان کا علم چوہے کے علم جتنا ہی ہے کیونکہ چوہے کے پاس صرف خوراک کا علم ہی ہوتا ہے۔ میرے باپ کو دھرتی سے اتنا عشق کیوں ہے؟ اگر عائزہ مجھ سے محبت کرتی ہے تو وہ زبان سے کیوں نہیں کہتی، آنکھوں سے کیوں بولتی ہے۔ ماں کہتی ہے تو عائزہ سے شادی کرلے۔ اس کے دل کی کلائیوں میں تیری ہی محبت کی چوڑیاں کھنکھتی ہیں، اس کے دل کے آنچل کے پلو سے تیری ہی یاد بندھی ہے اور اس کے دل کے نگار خانے میں تیری ہی تصویر سجی ہے۔

میں بچپن سے ہی ماں سے سوال کرتا آیا ہوں اور ہمیشہ کی طرح ماں نے مجھے ہنس کر اور پوری توجہ سے ہر سوال کا جواب دیا ہے۔ میں نے ایک دن ماں سے پوچھا: ماں! تو ہر ایک کو اچھا ہی کہتی ہے، تیری نظر میں کوئی بھی برا نہیں؟ ماں نے جواب دیا: بیٹا! اگر تم کسی کو برا کہو گے تو اس کو برا ثابت کرنا تمہاری ذمہ داری ہے وگرنہ گنہگار ٹھہرو گے۔ اگر کسی کو اچھا کہو گے تو خود کو اچھا ثابت کرنا اس کی ذمہ داری ہے، تم کیوں کسی کی ذمہ داری لیتے ہو؟ میں نے ایک دن پوچھا: ماں! یہ شہد اتنا میٹھا اور مزیدار کیوں ہوتا ہے؟ ماں بولی: میں نے سنا ہے شہد کی مکھی اپنے چھتے میں داخل ہونے سے پہلے آپﷺ پر درود و سلام بھیجتی ہے۔

ماں نے مجھے کبھی T.Vدیکھنے سے منع نہیں کیا مگر مجھے ٹیلی ویژن پر ٹاک شو دیکھنے سے منع کرتی تھی۔ کہتی ہے بیٹا یہ مناظرے ہیں اور مناظرے قلب کو سیاہ کر دیتے ہیں۔
میں نے ایک دن ماں سے پوچھا: ماں تو یہاں اور بہن اپنے گھر میں بہت خوش ہیں مگر جب بہن یہاں آتی ہے تو رونے کیوں لگ جاتی ہے اور تو نانا کے گھر جا کر کیوں روتی ہے؟ ماں مسکرائی اور بولی بیٹا! اس روئے ارضی پر جتنے مہندی کے پودے ہیں وہ سب بی بی حوّا کے آنسوﺅں کا فیض ہیں، وہ نت کی یاد میں بہنے والے آنسوﺅں سے گرنے پر اگے ہیں اور جو بھی مہندی کو اپنی ہتھیلیوں پہ لگائے گا وہ سدا اپنے ماں باپ کے گھر کی جنت کو یاد کرکے آنسو بہاتا رہے گا۔

میرے باپ کی خواہش تھی کہ میں اس کے ساتھ مل کر زمینوں کی دیکھ بھال کروں، میری ماں بھی یہی چاہتی تھی کہ میں باپ کے ساتھ اس کا ہاتھ بٹاﺅں مگر مجھے لندن جانے کا جنون تھا تاکہ بہت سا پیسہ کما سکوں۔ میرے بے حد اصرار پر والدین نے اجازت تو دے دی مگر میں جانتا تھا یہ اجازت انہوں نے نہایت دُکھی دل کے ساتھ دی ہے۔
اس شام میری لندن کے لیے فلائٹ تھی۔
میں گاﺅں والوں سے ملنے کے بعد اپنے نانا کے گھر پہنچا۔ میرے نانا نانی اپنے بالوں میں سوت لئے عمر کا چرخہ کات رہے تھے، دونوں نے میرا استقبال ماتمی جوش و خروش سے کیا۔ میں نے کہا: نانا میں شام کو لندن جا رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے، نانا بولا۔ میں آپ کو خدا حافظ کہنے آیا تھا، میں نے کہا۔ اللہ تمہیں کامیاب کرے، دونوں بولے۔
مجھے بھی ایک بار موقع ملا تھا مگر دھرتی کا قرض اتنا زیادہ تھا کہ قرض اتارتے اتارتے عمر بیت گئی مگر میں اور مقروض ہوتا گیا۔
نانا مجھے سمجھ نہیں آئی۔ میری ماں جب بھی آپ کی طرف آتی ہے تو آپ کہتے ہیں ”وہ میرا دروازہ کھولنے والی آئی“ اس کا کیا مطلب ہے؟
لَسّی پینے کے بعد نانا نے گلاس زمین پر رکھا اور بولا: تمہیں ایک قصہ سناتا ہوں۔ شہر میں ایک لڑکی لڑکے نے فیصلہ کیا شادی کا مگر دونوں کے ماں باپ نے انکار کر دیا۔ دونوں نے ہر ممکن کوشش کی مگر کوئی بھی اپنے ماں باپ کو راضی نہ کر سکا۔
دونوں شہر چھوڑ کر دوسرے شہر چلے گئے اور شادی کرلی۔ دونوں ایک کالج میں پڑھانے لگے، دس سال گزر گئے اس دوران ان کے ہاں تین بیٹے پیدا ہوئے۔ ایک طالب علم جو ان کے پرانے شہر سے آیا تھا اس نے دونوں کے والدین کو بتا دیا کہ وہ ہمارے استاد ہیں اور فلاں جگہ اُن کا گھر ہے۔ لڑکے کا والد اپنے بیٹے سے ملنے دوسرے شہر اس کے گھر پہنچا اور دستک دی۔ لڑکے نے سوراخ سے دیکھا تو اس کا والد تھا۔
اس نے بیوی کو بتایا، لڑکی بولی تم دروازہ نہیں کھولو گے کیونکہ ہمارے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا کہ کوئی بھی اپنے ماں باپ کو نہیں ملے گا۔ لڑکے نے دروازہ نہ کھولا اور باپ واپس لوٹ گیا۔ پھر ایک دن دروازے پر دستک ہوئی، لڑکے نے سوراخ سے دیکھا، وہ لڑکی کا والد تھا۔ لڑکی نے کہا: دروازہ کھول دو، لڑکے نے کہا: ہمارے درمیان معاہدہ ہوا تھا ہم اپنے اپنے ماں باپ کو نہیں ملیں گے۔
لڑکی نے بڑی منتیں کیں مگر لڑکا نہ مانا، لڑکی رونے لگ گئی اور بھاگ کر جا کر دروازہ کھول دیا۔
تین سال کے بعد دونوں کے گھر میں بیٹی پیدا ہوئی۔ باپ نے بے حد خوشی منائی اور ایک بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا۔ دوستوں نے پوچھا: تمہارے گھر تین بیٹے پیدا ہوئے تمہیں اس سے پہلے کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا اور نہ تم نے اتنی خوشی منائی، اب کیا وجہ ہے؟
لڑکے نے خوشی سے کہا:
آج میرے گھر ”دروازہ کھولنے والی پیدا ہوگئی ہے۔

نانا نانی سے اجازت لے کر میں گھر چلا آیا، عائزہ بھی موجود تھی۔ جب میں گھر سے رخصت ہورہا تھا تو باپ بولا: بیٹا! رحمان کا ایک نام مُنتقم بھی ہے، جب کوئی خود غرض ہو کر اپنوں کی چاہت سے لاتعلق ہو جاتا ہے تو قدرت اس سے عجیب انتقام لیتی ہے، جب سب کچھ اس کی پہنچ میں ہو جاتا ہے تو پھر وہ طلب میں نہیں رہتا“ یاد رکھنا دلدل کو صرف ایک ہی قدم درکار ہوتا ہے۔

ماں نے میرا ماتھا چوما اور آنکھوں میں لرزتے رقص کرتے آنسوﺅں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اس نے عائزہ کی طرف دیکھا جس کے ہاتھوں میں پکڑے نرگس کے پھول اپنی چپ کی زبان میں انتظار کا گیت گا رہے تھے۔ پھر ماں نے زمین پر بچھی سونا اگلتی دھرتی اور میری طرف دیکھا اور آہستہ سے بولی: دل کے معاملوں میں زبان معتبر نہیں ہوتی، نظر سے نظر کا کہا ہی کافی ہوتا ہے۔
اللہ تمہاری حفاظت کرے، اللہ کو پرندے اچھے لگتے ہیں جو شام کو گھر لوٹ آیا کرتے ہیں، یہ در اب کبھی بند نہیں ہوگا، بس خیال رکھنا، محبتوں کی قضا نہیں ہوتی۔
پھر میں اور میرا دوست لندن جانے کے لیے ایئر پورٹ روانہ ہوگئے۔ گاڑی راوی کنارے سڑک پر چل رہی تھی، آج 23 مارچ تھا، آج کے دن منٹو پارک جہاں آج کل مینارِ پاکستان کا ہمالیہ ہے قرار داداِ پاکستان پاس ہوئی تھی، میں اطراف میں لگے بورڈ اور بینرز پڑھتا جارہا تھا جو 23 مارچ کے حوالے سے لگے ہوئے تھے۔
”دھرتی تجھے سلام“، ”دھرتی میرا ایمان“، ”قائد تجھے سلام“، ”اقبال کا خواب پاکستان“، ”دھرتی اور ماں رب کے حسین تحفے“، ”میرا ایمان پاکستان“
ماں، میرا باپ، گاﺅں کا سرسبز جنگل، ماں کی آنکھوں میں لرزتے آنسو، باپ کا دُکھی چہرہ، بہن کی شکوہ کرتی آنکھیں، نرگس کے پھول اور عائزہ کی بہت کچھ کہتی آنکھیں سب کچھ میرے اندر فلم کی طرح گھوم رہا تھا۔
میں اتنا خود غرض کیوں ہوں؟ کیا مٹی سے بنا انسان اپنی مٹی کو چھوڑ کر خوش رہ سکتا ہے؟ کیا خود غرض انسان سکون کی خوشبو کو بھی چھو سکتا ہے؟ میرے اندر سوالوں کی برسات شروع ہوگئی۔ اچانک مجھے لگا میں اپنے ہی گھر کے فٹ پاتھ پر سویا ہوا انسان ہوں، مجھے لگا میری زندگی کی نماز قضا ہورہی ہے۔ میں نے دوست کو گاڑی روکنے کو کہا اور پھر گاڑی سے اتر کر اپنا پاسپورٹ اور ٹکٹ راوی کی رقص کرتی ہوئی لہروں کے حوالے کر دیئے، پھر مجھے لگا: موجوں کا شور دب گیا ہو اور راوی پر سکون بہنے لگا ہو۔
میرا دوست حیرانی سے چیخا: کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟ نہیں میں پاگل پن سے نکل آیا ہوں، میں نے اطمینان سے جواب دیا۔
گھر میں داخل ہوکر میں نے دیکھا: میرا باپ سر پکڑے بیٹھا سسک رہا تھا، مجھے وہ اس پرندے کی طرح لگا جو آندھیوں سے گرے ہوئے شجر کی ٹہنیوں میں اپنا گھونسلہ تلاش کررہا ہو جس میں اس کے دانے کے منتظر اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں۔ عائزہ کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں اور نرگس کے پھول زمین پر گرے ہوئے تھے۔
میری ماں کی آنکھیں گلاب بن چکی تھیں، اس کا سارا آنچل برسات بن چکا تھا۔ اس کا سر عائزہ کی گود میں تھا، ماں نے مجھے دیکھا اور تڑپ کر ننگے پاﺅں دوڑتی ہوئی میری طرف آئی، مجھے چوما، میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور تڑپ کر بولی: تو ٹھیک تو ہے نہ بیٹا! تو گیا کیوں نہیں، تو واپس کیوں آگیا، تیری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں بیٹا، میری جان تو بولتا کیوں نہیں؟ میں نے زمین سے نرگس کے پھولوں کو اٹھایا اور اپنا سر ماں کی گود میں رکھ دیا اور سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان بمشکل اتنا ہی کہہ پایا:
ماں جی! ”محبتوں کی قضا نہیں ہوتی“۔

Browse More Urdu Literature Articles