Qehqaha - Article No. 1034

Qehqaha

قہقہہ - تحریر نمبر 1034

دوستی پرانی ہوجائے تو گفتگو کی ضرورت نہیں رہتی۔ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس ہی کافی ہوتا ہے۔ حال چال پوچھنا، گھر بار کی خیریت دریافت کرنا، مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آنے کا وعدہ کرنا،

جمعرات 31 مارچ 2016

عمار مسعود:
دوستی پرانی ہوجائے تو گفتگو کی ضرورت نہیں رہتی۔ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس ہی کافی ہوتا ہے۔ حال چال پوچھنا، گھر بار کی خیریت دریافت کرنا، مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آنے کا وعدہ کرنا،عید کارڈ بھیجنا اور سالگرہ پر فون کرنا یہ سب کچھ عرصے کے بعد فروعی سا لگتا ہے۔ ساتھ ہونے کااحساس ہی کافی ہوتا ہے۔
میں ان باتوں کو سمجھتا ہوں مگر سلیم نہیں سمجھتا تھا۔
میں اور سلیم بچپن کے دوست تھے۔ ایک ہی محلے میں رہتے تھے،ایک ہی سکول میں گئے، کالج میں بھی ساتھ ساتھ رہے اور اب دونوں ایک ہی کالج میں استاد تھے۔ہماری دوستی کو اتنے برس گزر گئے کہ اب جب ہم ساتھ نہیں ہوتے تھے تو بھی ساتھ ہونے کا احساس ضرو ر ہوتا تھا۔ہم ایک دوسرے کے رنج، خوشیاں بنا کہے جان لیتے تھے۔

(جاری ہے)

اس کی ایک وجہ تو اتنے برس کا ساتھ تھا اور دوسری وجہ روزانہ کالج میں ملاقات۔ہمارے گھر والوں کی بھی آپس میں خوب بنتی تھی۔ میری بیوی اپنے سارے دکھڑے سلیم کی بیوی سے کہتی تھی اور سلیم کے بچے میرے بچوں کے بہت اچھے دوست تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود میری اور سلیم کی طبیعت میں بہت فرق تھا۔
سلیم اردو پڑھاتا تھا اورمیں معاشیات۔ ہم دونوں میں اتنا ہی فرق تھا جتنا ان دو مضامین میں۔
سلیم گفتگو ہی گفتگو تھااور میں چُپ ہی چُپ۔ وہ خواب پر یقین رکھتا تھا میں حقیقت کی دُنیا میں رہتاتھا۔وہ غالب# اور فیض# کا دیوانہ تھا اور میں ایڈم سمتھ اور کارل مارکس کا پرستارتھا۔ وہ چیزوں کے وقتی جنون میں مبتلا ہوجاتا، میں دعوے اور دلیل سے کم بات نہیں کرتا تھا۔ مگر پھر بھی ہم دونوں کی شخصیت کا اختلاف تصادم نہیں تھا۔
سلیم دراصل اسلامیات میں ایم اے کرنا چاہتا تھا مگر داخلہ اُردو میں ہوگیا۔
میں معاشیات پڑھنا چاہتا تھا اور میں نے معاشیات میں ہی ایم اے کیا۔سلیم کے ذہن کا ایک گوشہ اب بھی اسلامیات کی کلاس میں رہتا تھا۔ وہ مذہب کے تمام دقیق نکتوں پر بحث کرنے کے لیے ضروری علم اوراہلیت رکھتا تھا۔ اس معاملے میں اُس کی معلومات حیران کردینے والی تھیں۔ اولیاء اور صوفیائے کرام سے وہ خصوصی عقیدت رکھتا تھا۔صوفیاء کی بیان کی ہوئی حکایات اور تصوف کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھا۔
بزرگوں کے مزار وں سے بھی اُس کوخصوصی دلچسپی تھی۔ میں اس کے برعکس ان معاملات سے بہت دُور تھا۔ واجبی سا مسلمان تو ضرور تھا مگر ضعیف الاعتقادی سے دُور بھاگتا تھا۔ میں ہر شے کو ناپ تول کے اصول پر پرکھتا، تجزیہ کرتا اور پھر اُن سے نتائج اخذ کرتا تھا۔جو چیزیں وجود نہ رکھتیں اُن کی اطاعت میرے لیے بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ غیر مرئی قوتیں اور مافوق الفطرت واقعات میرے لیے صرف اتفاقات اور حادثات تھے۔
انہیں کسی کی کرامت ماننا میرے بس کی بات نہیں تھی۔
اختلاف کے اس بنیادی نقطے کے باوجودمیری اور سلیم کی دوستی برسوں سے اسی طرح چل رہی تھی۔ وہ ہمیشہ مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتا تو میں اُسے دلیل سے سمجھاتا، گھمسان کارَن پڑتا، عقل اور عشق باہم دست و گریباں ہوتے مگر اس بحث کا کبھی کوئی نتیجہ نہ نکلتا۔ آج تک نہ وہ مجھے قائل کرسکا نہ کبھی میں اُسے اپنا نقطہٴ نظر سمجھا سکا۔
ہم کالج میں کی ہوئی ساری بحث کو سگریٹوں کے دھوئیں میں اُڑاتے اور وقت کو ایش ٹرے میں ڈال کر اپنے اپنے گھر کی راہ پکڑتے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے سلیم نے ایک نیا جھنجٹ پال لیا تھا۔ اُ س کے مذہبی رجحانات اس کو ایک ایسے مقام پر لے گئے جہاں اُس نے ایک پیر صاحب کی بیعت کرلی تھی۔سلیم کے ماضی کو اچھی طرح جانتے ہوئے میں اس سب کو وقتی جنون سمجھتا رہا۔
مگر کچھ ہی عرصے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس دفعہ معاملہ سنجیدہ ہے۔ اس ایک پیر کی بیعت نے سلیم کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کو بالکل بدل ڈالاتھا۔ وہی کلین شیو سلیم جو کبھی اچھے سوٹ یا صاف ستھرے شلوار قمیض میں نظرآتا تھا اب اس نے ایک عجب بے مہارسی داڑھی رکھ لی تھی۔ سفید ٹوپی لباس کا لازمی جزو بن گئی تھی۔ آنکھوں میں سُرمہ اور ٹخنوں سے اونچی شلوار، ہاتھ میں تسبیح، کندھے پر پیر صاحب کا عطا کردہ رومال اور زبان پر ہمیشہ ”مرشد“ کا پڑھایا ہوا کوئی ورد رہتا تھا۔
اُس کی ہیئت کذائی پر مجھے ہنسی بھی آتی تھی اور ترس بھی۔ مجھے کبھی اُن پیر صاحب سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر سلیم کی حالت دیکھ دیکھ کر مجھے اُس نادیدہ شخص پر غصہ ضرور آتا تھا۔
سلیم جب بھی اُس پیر کا نام لیتا تو گفتگو کا آغاز ”پیر صاحب قبلہ نے ارشاد فرمایاہے “ سے کرتا ”پیرصاحب قبلہ “ اُس کے ذہن پر اِس بری طرح قابض تھے کہ اب زندگی کے روزمرہ اُمور، ملازمت کے جھنجھٹ اور دنیاوی طور طریقے اُس کو کریہہ اور تعفّن آمیز لگنے لگے تھے۔
ہر تیسرے دن اُ س کے گلے میں ایک نیا تعویذ ہوتا یا پھر ہاتھ میں کسی خاص چلّے کانسخہ۔جو اُس کو تصوف کی سیڑھی پر ایک اور قدم بڑھانے کے وعدے کے ساتھ ”پیرصاحب قبلہ “ کی طرف سے عطا ہوتا تھا۔ سلیم کی یہ حالت میرے لیے ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ چیزوں کے وقتی جنون میں مبتلا ہونے کاوصف رکھتا ہے۔مگر اس دفعہ معاملہ کچھ اور لگتا تھا۔
میرا دوست مجھ سے جُدا ہورہا تھا۔پھر اُس دن تو بات حد سے بڑھ گئی جب سلیم کی بیوی میرے گھر آکر پہروں روتی رہی۔وہ مجھ سے مدد چاہتی تھی کہ میں کسی طرح سلیم کو جنون کے اس مرحلے سے باہر نکال لوں۔ اُس کا گھر برباد ہونے سے بچا لوں۔یہ وہ پہلا موقع تھا جب میں نے ” پیرصاحب قبلہ “ کی زیارت کا فیصلہ کیا۔
میں اور سلیم جب پیر صاحب کے آستانے کی جانب چلے تو تمام رستے اُس کی پور پور عقیدت میں کچھ اس طرح ڈوبی رہی کہ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ رستے کے ہر ِذرے کو چومتا چلے۔
اس نے جوتے اتار کر تھیلے میں اس خیال سے رکھ لیے کہ سفر میں جوتے پہن کر چلنا کہیں بے ادبی ہی نہ ہو۔ تمام وقت وہ ”حضور والا“ کی شان میں کچھ اس طرح رطب اللسان رہا کہ مجھے چِڑ سی ہونے لگی۔ بقول اس کے پیر صاحب ”بااختیار“ تھے۔وہ بے نواؤں کو نوا، بے اولادوں کو اولاد، مفلسوں کو دولت اور بیماروں کو شفا دینے کے مختار تھے۔ یہ سارا علاقہ اُن کے اختیار میں تھا۔
اُس نے مجھے کچھ ایسے محیرالعقول قصے سنائے کہ مجھے اس شعبدہ گر پر اور غصہ آنے لگا۔ میری طبیعت کو جانتے ہوئے وہ مجھے بار بار تاکید کرتا رہا کہ کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے ” حضور“ کی شان میں بے ادبی ہوورنہ صاحب ِ کمال کو جلال آجائے تو پہاڑ ٹکرا جاتے ہیں، عذاب نازل ہوتا ہے۔
میں نے اس طرح کے جعلی پیروں کے بہت قصے سنے ہوئے تھے۔ ان کی طاقت کا اصل سبب وہ ضعیف الاعتقاد لوگ ہوتے ہیں جو ان پرآنکھیں بند کرکے ایمان لے آتے ہیں۔
نفسیات کے بنیادی اصولوں سے واقف کوئی بھی شخص ان معصوم لوگوں کو گمراہ کرسکتا تھا۔ عقیدت کے جوش میں ڈوبے لوگ ایک خاص نفسیاتی اثر کے تحت ان کا ہر حکم بجا لاتے۔ اپنا گھر بار، بیوی بچے،مال و دولت سب ان پر وار دیتے۔ یہ نادیدہ پیر بھی مجھے اسی قبیل کا معلوم ہوتا تھا۔
” پیرصاحب قبلہ “ کے وسیع وعریض آستانے کے باہر سینکڑوں مریدوں کا ہجوم تھا۔
آستانے کے باہر ہر رنگ، ماڈل اور قیمت کی گاڑیوں کی ایک طویل قطار تھی۔ایک طرف دُور سے آئے ہوئے زائرین کے لیے لنگر کا انتظام تھا، آستانے کے دروازے میں داخل ہونا تو دُور کی بات قریب پہنچنا ہی امرِ محال تھا۔اس موقع پر سلیم کی عقیدت مندی رنگ لائی اور کسی نہ کسی طرح ہم حضور کے حجرے میں داخل ہوہی گئے جہاں ” پیرصاحب قبلہ “ تمام دنیاوی مسائل کا حل آسمانی قوتوں کی مدد سے بتارہے تھے۔

بڑے سے آراستہ کمرے میں سنہری تخت پر سفید لباس میں ملبوس بزرگ شخص ہی ”پیرصاحب قبلہ “ تھے۔ جناب کے گلے میں کئی مالائیں اور سر پر سبز پگڑی تھی۔ سلیم نے بھاگ کر اُن کے قدموں کو ہاتھ لگایا اور دست مبارک کو بوسہ دیا۔ مجھے بھی اُس نے ایسا ہی کرنے کو کہا مگر میں صرف قریب جاکر بیٹھ گیا۔ کمرے میں بے شمار عقیدت مندقریب قریب سجدے کی حالت میں تھے۔
چاروں طرف عنبرولوبان کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ نورانی سا یہ ماحول وقتی طور پر کسی بھی شخص کو اپنی گرفت میں لے سکتا تھا۔جب عقید ت بھری اس خاموشی میں اچانک سلیم نے دھیمی سی آواز میں کہا ” حضور یہ میرے دوست ہیں بیعت کے لیے حاضر ہوئے ہیں“ میں بھونچکا سا رہ گیا۔ میرا ایسا قطعاً کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں تو اپنے دوست کو اس شخص کے چنگل سے چھڑانے کے لیے آیا تھا۔
میری نگاہیں پیرصاحب کے چہرے کا تفتیشی انداز میں طواف کررہی تھیں۔ یہ بات پیرصاحب کی جہاں دیدہ نگاہوں نے محسوس کرلی۔ اچانک پیر صاحب کی آواز گرجی ”تمہارا دوست ہمارادوست نہیں ہوسکتا اس کے دل میں وسوسے پل رہے ہیں اور صراط مستقیم پر پلٹنے کے لیے اب اس کے پاس وقت بھی نہیں مگر ہم اس کے لیے پھر بھی دُعاکریں گے“۔ مجھے پیر صاحب کی جانب سے اس اچانک حملے کی توقع نہیں تھی۔
پھر بھی میں ہمت کرکے بولا ”کتنی مہلت ہے میرے پاس“۔ میری آواز میں طنز اور غصے کی کاٹ کو کمرے میں موجود ہر شخص نے محسوس کیا۔لوگ اس بے ادبی پر خوفزدہ ہوکر سہم گئے اور حضور کے جلال سے گھبرا کرکونے کھدروں میں دیکھنے لگے۔ پیر صاحب نے آنکھیں بند کیں اور بڑے وثوق سے اعلان کیا” ہم تیری زندگی کو تین جمعراتوں کی مہلت اور دیتے ہیں اس کے بعد اگلے جہان میں تو ہمارا دوست ہوسکتا ہے۔
چل اُٹھ اب یہاں سے“۔میری جوان موت کے اس اعلان پر بہت سے عقیدت مند رونے لگے۔ سلیم نے کانپتے ہاتھوں سے مجھے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا۔
اُس دن کے بعد سلیم جب بھی مجھے ملا ایسے ملا جیسے میرے جنازے کو کاندھا دے رہا ہو۔ جانے پیرصاحب کے اس فرمان کاکس طرح میرے اہلِ خانہ، کالج والوں اور محلے داروں کو علم ہوگیا۔ ہر شخص مجھ سے میری ہی تعزیت کرنے آپہنچا۔
میری بیوی مجھ سے چھپ چھپ کر روتی اور سلیم کی بیوی کو کوستی کہ جس کی وجہ سے میری عین جوانی میں موت واقع ہونے والی تھی۔اچانک میرے ارد گرد کے لوگ مجھ سے اچھا سلوک کرنے لگے۔ وہ مجھے بہانے بہانے سے استغفار کی اہمیت اور قبر کے عذاب سے بچنے کے وظیفے بتاتے۔نزع کے وقت سورہ یٰسین پڑھنے کی اہمیت سے آگاہ کرتے۔میں اِن لوگوں پر ہنستا اور قہقہے لگاتا مگر کوئی چیز مجھے اندر ہی اندر سے خوف زدہ ضرور کردیتی تھی۔

اُنہی دنوں جانے کیسے مجھے اپنے بہت سے رُکے ہوئے کام نپٹانے کا خیال آگیا۔جانے کیوں میں نے اپنا خریدا ہوا واحد پلاٹ اپنی بیوی کے نام کردیا۔ خواہ مخواہ ہی چیک بُک پر بہت سے دستخط کرکے رکھ چھوڑے۔جن سے ناراضی تھی اُن سے معافی مانگ لی۔ کچھ لوگوں کا قرض تھا جو فوراً ادا کردیا۔میں اُس پیر کی کسی بات پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ مگر یہ کام تو پھر بھی کرنے تھے۔
اپنے ارد گرد کے تعزیتی ماحول سے گھبرا کر میں ایک دن گاؤں والدین کے پاس چلا گیا۔ وہاں میرے متوقع انتقال کی خبر مجھ سے پہلے پہنچ چکی تھی۔ میری ماں مجھ سے لپٹ کر اس طرح روئی کہ جیسے میری جوان موت برداشت نہ کرپارہی ہو۔
روز بروز میری حالت بھی کچھ تبدیل ہوتی جارہی تھی۔ جانے کیوں میرا دل کمزور پڑتا جارہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے مجھ پر رقّت طاری ہوجاتی اور کچھ دنوں سے بدن میں نقاہت سی رہنے لگی تھی۔
چلتا تو جلدی تھک جاتا، اشتہا ختم ہوچکی تھی۔ مجھے اب لباس کا خیال نہیں رہتا تھا۔ شیو بھی بڑھ چکی تھی۔ ہر جمعرات تیسری جمعرات کو قریب لا رہی تھی۔ میرے اندر کا عاقل شخص روزبروز کمزور پڑتا جارہا تھا۔ معمولی معمولی واقعات سے مجھے بھیانک اندیشے ہونے لگے تھے۔میرے لیے ہر جگہ دُعائیں ہونے لگیں۔
مہلت ختم ہونے میں اب صرف چند گھنٹے رہ گئے تھے۔
گھر میں آیت کریمہ کا ختم ہورہا تھا۔ دُور دراز سے رشتہ دار مختلف بہانوں سے میرے گھر پر آگئے تھے۔ قریبی مسجد کے امام میر ی مغفرت کے لیے دم کیا ہوا پانی لے آئے تھے۔ میں نے خوف کے مارے اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرلیا اور گھڑی کے سامنے سیکنڈ گننے لگا۔ ہر اگلے سیکنڈ میں میرا دل دھڑکنے لگتا۔ میرا ضبط ٹوٹنے لگتا۔ میں اچانک بے چارگی کے عالم میں گھڑی کے سامنے زار زار رو پڑا۔
اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگا۔خود اپنی موت پر آنسو بہانے لگا۔ اچانک کمرے میں موجود ٹیلیفون بجا۔ میں خوف کے مارے اچھل پڑا۔ میں فون اٹھانا نہیں چاہتا تھا۔ موت سے پہلے یہ قطعی غیر ضروری کام تھا۔ مگر مسلسل بجتی گھنٹی مجھے سکون سے مرنے بھی نہیں دے رہی تھی۔ میں نے لرزتے ہاتھوں سے فون اُٹھایا دوسری طرف سلیم تھا۔ اُس نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا ” کچھ دیر پہلے ”پیرصاحب قبلہ“ رحلت فرما گئے ہیں۔ انہوں نے ہم گنہگاروں سے پردہ کرلیا ہے۔
کسی کی موت پر ہنسنا بہت بُری بات ہے۔ مگر میں ”پیر صاحب قبلہ“ کی رحلت کی اس خبر پر باوجود کوشش کے اپنا قہقہہ ضبط نہ کرسکا۔

Browse More Urdu Literature Articles