Roshan Chiragh - Article No. 1500

Roshan Chiragh

روشن چراغ - تحریر نمبر 1500

فضلو دونوں ٹانگوں سے معذور تھا جس کی وجہ سے وہ زمین پر گھسیٹ گھسیٹ کر چلتا تھا

منگل 19 ستمبر 2017

روشن چراغ :
فضلو دونوں ٹانگوں سے معذور تھا جس کی وجہ سے وہ زمین پر گھسیٹ گھسیٹ کر چلتا تھا۔ اس محلے میں وہ بچپن سے رہ رہا تھا پتہ نہیں وہ کسی کی اولادتھا اور کہاں سے آیا تھا؟ اپنی شناخت کے لئے اس نے محلے کے معمر آدمی چچا اشفاق سے پوچھا لیکن وہ اس کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تسلی بخش جواب نہ دے سکے ۔ وہ یہی کہتے تھے کہ جب تم دوسال کے تھے تو کوئی آدمی تمہیں یہاں چھوڑ گیا تھا پھر اس محلے کی تنور پر روٹیاں پکانے والی مائی نے تمہیں پالا پوسا تین سال کے تھے جب پولیو کے حملے سے دوچار ہوئے اور اس سے تمہاری دونوں ٹانگیں معذور ہوگئیں۔
بس چچا اشفاق اس بارے میں اتنا ہی جانتے تھے۔ اس کے بعد جب وہ شعور کی منزلیں چھونے لگا تو دائی اماں چلی گئی ۔

(جاری ہے)

اس کے بعد وہ اس محلے کے ٹکڑوں پر پل رہا تھاسونے کے لئے دینو چائے والے نے اپنے چائے کے کھوکھے کے پاس خالی جگہ میں ایک چھپڑ ڈال دیا تھا وہیں پڑکے سو جاتا یہ اس کی زندگی کا روزانہ کا معمول تھا۔ صبح نکلتا پورے محلے کا گھسیٹ گھسیٹ کر چکر لگاتا اہل محلہ کا حال پوچھتا گھڑی دو گھڑی سب کے ساتھ ملتا اور جو کچھ کھانے کو مل جاتا کھالیتا اور خدا کا شکر ادا کرتا۔

ایک روز وہ حسب معمول صبح کو پیٹ کے کارن بھرنے اور محلے والوں کا حال پتہ معلوم کرنے کے لئے نکلا۔ دوپہر کو اپنی کھولی میں آرام کرنے کی غرض سے آیا تو اس نے دیکھا کے اس کا ٹوٹا پھوٹا سامان ادھر ادھر بکھرا پڑا ہے اور کھولی کا نام ونشان تک نہیں ہے اور وہاں پر اس محلے کے ایک امیر آدمی کا لڑکا سلیم اور اس کے دوست کھڑے ہیں۔ فضلو کو آتے دیکھ کر انہوں نے قہقے لگانے شروع کردیئے جب فضلو نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ کھولی کیوں توڑی گئی؟ تو سلیم نے اپنی جوتی کی نوک سے فضلو کو اتنے زور سے ٹھوکر ماری کہ وہ درد کی شدت سے بلبلا اٹھا۔
اپنا کہیں اور بندوبست کر میں یہاں اپنا ڈیرہ بناؤں گا۔ سلیم نے آگے بڑھ کر اس کو ایک اور ٹھوکر لگاتے ہوئے کہا۔ فضلو نے تکلیف کی شدت کو ضبط کرتے ہوئے رحم طلب نظروں سے سلیم کو دیکھا، شاید اس میں ابھی مار کھانے کی ہمت تھی اس لئے اس نے پھر پوچھا کہ میں کہاں جاؤں؟ یہ سن کر سلیم غصے سے آگ بگولا ہوگیا، یہ اسے کیسے گواراتھا کہ اس کے سامنے کوئی بولے چنانچہ اس نے فضلو کو روئی کی طرح دھن ڈالا اور اس کے معذور لوتھڑے کو سامنے پڑے ہوئے گندگی کے ڈھیر پر یوں پھینکا جیسے ایک گنوار عورت گھر کا کوڑا گھر کے دروازے کے سامنے پھینک دیتی ہے۔
دینو چائے والا فضلو کی یہ حالت دیکھ کر رہ نہ سکا اور آگے بڑھ کر فضلو کو اٹھایا اور اس سے کہا اس سے مت ٹکرلے تو میرے کھوکھے میں رات کو سو جایا کرنا۔ سلیم جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا چڑھتی جوانی تھی کھاتے پیتے باپ کا بیٹا تھا۔ اس لئے کام کرنے کی کوئی فکر نہیں تھی، سارا سارا دن آوارہ گردی کرتا غریب محلے میں ایک امیر بات کا بیٹا محلے کے لئے زحمت تھا۔
جب چاہتا محلے کو باپ کی جاگیر سمجھ کر محلے والوں کو تنگ کرتا جوکہ نہایت غریب تھے۔ اس سرمایہ دار کے بیٹے سے ٹکر لے سکتے تھے۔ اس لئے سلیم کے ہر فعل پر خاموش رہتے جس سے وہ اور بھی شیر ہوگیا تھا اور اس طرح فضلو کی کھولی توڑنے اور اسے مارنے پرانہوں نے حسب معمول کوئی توجہ نہ دی حالانہ دل ان کے اس ظلم پر کڑھ رہے تھے اور یوں یہ معاملہ سرد پڑگیا۔
اور سلیم نے کھولی کی جگہ اپنا ڈیرہ بنالیا۔دن رات اوباش دوستو کے ساتھ جوا، تاش کھیلتا رہتا۔ رات گئے وہ زور زور سے باتیں کرتے رہتے۔ قہقے لگانے میں جس سے ساتھ والے کھوکھے میں پڑے فضلو کو نیند نہ آتی وہ ساری ساری رات کروٹیں بدلتا رہتا۔ اسی دوران الیکشن کا زمانہ آگیا کتنی مدت کے بعد یہ الیکشن ہورہے تھے۔ ہر کوئی اس میں زور وشور سے حصہ لے رہا تھا اس محلے میں بھی دوپارٹیاں تھیں جن میں ایک سلیم کا والد تھا اور دوسرا بھی اس سے کم نہ تھا۔
دونوں محلے والوں کے لئے عارضی طور پر خیرخواہ بن گئے تھے۔ سادہ لوح محلے والے جب ان سرمایہ داروں کو اپنے آگے جھکتا دیکھتے تو خود ہی شرمندہ ہوجاتے اور ہمدردی کے دو بول سن کر جان ان پر نچھاور کرنے کو تیار ہوگئے تھے۔ پلڑا دونوں کی طرف سے بھاری تھا۔ سلیم کے ڈیرے پر خاص رونق ہوگئی تھی۔ سارا سارا دن اور ات کو سلیم اور اس کے دوست الیکشن کے لئے کام کرتے ہر کسی کی پر آج کل الیکشن کا ذکر تھا تو فضلو بھی کھولی میں جا کر سلیم اور اس کے دوستوں کی باتیں سنتا۔
اسے ان باتوں سے دلچسپی پیدا ہوگئی آخر وہ بھی اس معاشرے کا ایک فرد تھا خواہ اسی معاشرے کا جہاں غربت اورپھر اس کے اوپر معذوری کی کوئی قدر نہیں تھی لیکن مجبوری یہ تھی کہ وہ ایک انسان تھا دل اس کا بھی دھڑکتا تھا۔ اس لئے نئی نئی باتیں سن کر دلچسپی اس کے دم میں بھی پیداہوئی تھی لیکن اس کا تذکرہ اس معاشرے کے کسی فرد سے نہیں کرتا تھا وہ خوفزدہ تھا کہ شاید اس کو اس قسم کی باتوں میں دلچسپی لینے سے سزانہ مل جائے لیکن جب اس کو دینو نے بتایا کہ وہ بھی ووٹ ڈالے گا تو زندگی میں پہلی بار اس کو اپنے وجود کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور اپنے آپ کو کارآمد سمجھنے لگا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی رضا مندی سے ووٹ ڈالے گا لیکن یہ خوشی اس وقت خام خیال ہوگئی۔
جب سلیم نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ووٹ ہماری طرف داری میں ڈالنا نہیں تو ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ پھر اس نے اپنے ضمیر اور دل پر یوں سلیم کا قبضہ ہوتے دیکھا تو خوفزدہ ہوگیا۔ آخر کار الیکشن کا دن آپہنچا زبردست مقابلے کے بعد سلیم کا والد جیت گیا اپنے باپ کی جیت کی خوشی میں سلیم کے ڈیرے پر آج زیادہ رونق آگئی تھی فتح کا جشن منا نے کے لئے آج سلیم نے بہت زیادہ اہتمام کیا تھا رات گئے تک سلیم اور اس کے دوست ہلاگلا کرتے رہے۔
رات کے دوجے کے بعد سلیم کے دوستوں نے جانا شروع کی اب اس کے چند دوست رہ گئے جو کہ اس کے جگری یار تھے۔ سلیم ان کے ساتھ تاش کی بازی کھیلنے لگا۔ ادھر فضلو کو بھی نیند آنے لگی کیونکہ شور شرابہ ختم ہوگیا تھا ابھی اسے تھوڑی سی غنودگی آئی تھی کہ کھولی کے دائیں طرف اسے کھسر پھسر کی آواز سنائی دی تو وہ تجسس کے مارے کھسک کر کھوکھے کی درزوں سے اس نے باہر دیکھنے کی کوشش کی تو اسے دو سائے نظر آئے جن کے ہاتھوں میں بندوق تھی ایک سایہ دوسرے سائے کو کہہ رہا تھا کہ پچھلی طرف سے جاکر وہاں سے چھپ کر گولی چلا دینا جو کہ ٹھیک سلیم کو لگے گی یہ سن کر فضلو کے کان کھڑے ہوگئے جس طرح بھرے بازار میں سلیم نے اس ذلیل کیا تھا آج سلیم کی موت کے بارے میں سن کر اس کوخوش ہونا چاہیے تھا کہ خدا اس کو ناحق ظلم کی سزا دے رہا تھا لیکن اس کے سامنے ایک دم سلیم کا کڑیل خوبصورت جوان جسم آگیا وہ ایک شعلہ تھا جو گریبوں پر ظلم کرتا قہقے لگاتا کاش کہ یہ دھرتی کے لئے ایک چین ہوتا سکون ہوتا محلے والوں کے لئے راحت ہوتا اس کے دل سے ایک آہ نکلی ایک لمحے کے لئے اس نے سوچا کہ وہ سو جائے لیکن پھر ہمدردی کے جذبات امڈ آئے یہی تو مصیبت تھی کہ امیر آدمی تو ہر قسم کے جذبات رکھتا ہے وہ ہر موقع پر اس کی مناسبت سے استعمال میں لاتا ہے جبکہ غریب کے پاس سوائے ہمدردی کے جذبات کے اور کوئی جذبہ پرورش نہیں پاتا ہے پھر اس نے تو پوری زندگی میں دشمنی کونا تو سکھی نہیں تھی اس کے پاس ہمدردی اور رحم کے جذبات ہی تھے جو بے تحاشہ امڈ آئے تو وہ خود ہی بڑبڑانے لگا کہ میں ہرگز سلیم کو نہیں مرنے دوں گا اور بجلی کی سی تیزی کے ساتھ وہ کھولی سے نکلا اور گھسیٹتا ہوا سلیم کے ڈیرے میں جا پہنچا سلیم اس کو بے وقت آتے دیکھ کر کڑوا منہ بناتے ہوئے بولا کیوں بے لنگڑے نیند نہیں آرہی جو تو اس ٹائم منحوس صورت دکھانے چلا آیا ہے۔
جا دفعہ ہوجا۔ کہاں سے ٹپک پڑ ا لیکن فضلو آگے بڑھتا گیا اور سلیم کے بائیں طرف آگیا یاریہ تو پاگل ہوگیا ہے سلیم کے ایک دوست نے سلیم کو کہادفعہ ہوتا ہے کہ نہیں ورنہ ایک تھپڑ ایسا جڑوں گا کہ ماں یاد آجائے گی۔ سلیم یہ کہ کر تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا لیکن فضلو کی آنکھیں تو اس سوراخ پر لگی ہوئی تھیں جہاں اسے بندوق کی نالی نظر آرہی تھی تب پلک جھپکتے گولی نکلی لیکن فضلو سلیم کے اوپر پوری قوت سے گرا اور گولی ٹھیک فضلو کے دل میں لگی اور ایک منٹ میں فضلو ٹھنڈا ہوگیا ۔
سلیم اور اس کے دوستوں کو سکتہ سا ہوگیا تھا جب ہوش آیا سلیم کے دوست پستول لے کر حملہ آوروں کے پیچھے بھاگے تھوڑی دیر میں ان کو پکڑ لیا وہ مخالف ہارنے والے گروپ کے آدمی تھے۔ الیکشن ہارنے کے بعد اپنی ہار کا بدلہ سلیم کی صورت میں لینا چاہتے تھے۔ ادھر سلیم کے دل میں پہلی بار ہمدردی کا جذبہ اٹھا اس نے فضلو کا سر اپنی گود میں لے لیا اس نے عظیم انسان کا ماتھا چومتے ہوئے اپنی بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ فضلو مجھے معاف کردینا میں نے تمہیں بہت دکھ دیئے ہیں۔
اس حادثے کے بعد سلیم کی دنیا بدل گئی جو پہلے غریبوں کے لئے قہر تھا اب ان کے دلوں کا سکون بن گیاتھا۔ اپنی پرانی روش چھوڑ کر وہ انسانیت کی خدمت میں لگ گیا۔ ایک معذور شخص نے اپنی جان دے کر ایک چراغ کو انسانیت کی بھلائی کے لئے روشن کردیا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles