Saira - Article No. 1318

Saira

سائرہ - تحریر نمبر 1318

سائرہ روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی اوراپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہوئے بولی ۔ ” آپ دونوں مجھے اس طرح اکیلا تنہا کیوں چھوڑ گے میرا تو کوئی ہے بھی نہیں تھا آپ کے سوا پھر کیوں کیوں ۔۔۔ سائرہ روتی چلی گئی اور روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی وہ زمین پر ہی سو گئی۔

پیر 15 مئی 2017

عثمان ملک:
سائرہ ایک بہت ہی غریب گھر سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی جس کی قسمت ابھی اُس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔ سائرہ کے والدین کی موت اک حادثہ (روڈ ایکسیڈنٹ) میں ہوئی ۔ابھی وہ اس غم میں مبتلا تھی کہ اس کے چچا اسے اپنے گھر لے گئے ۔اسے دیکھ کر اُس کی چچی بولی :تم اس مصیبت کو گھر کیوں لے آئے ہو ۔سائرہ چچا کے کمرہ کے باہر کھڑی یہ ساری باتیں سن رہی تھی۔
اُس کی آنکھوں میں غم تھا اور آنسو زاروقطار نکل رہے تھے۔چچا جان چچی کو سمجھا رہے تھے کہ ” یہ تم کیا کہہ رہی ہو یہ میرے بھائی کی آخری نشانی ہے بیچاری کا میرے علاوہ اور ہے ہی کون “ ۔ چچی بات کاٹتے ہوئے بولی :”اگر کوئی نہیں ہے تو اس کا مطلب تم کسی بھی یتیم کو اپنے گھر لے آوٴ گے ۔ چچا غصے سے ” چپ کرو یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا فیصلہ ہے سائرہ اسی گھر میں رہے گی“ ۔

(جاری ہے)

چچی کمرے سے نکلی تو اس کی نظر سائرہ پر پڑی ۔ سائرہ کو دیکھتے ہوئے بولی : میں تمہارا ”منحوس سایہ“ اس گھر پر نہیں پڑنے دوں گی ۔
سائرہ روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی اوراپنے ماں باپ کو یاد کرتے ہوئے بولی ۔ ” آپ دونوں مجھے اس طرح تنہا کیوں چھوڑ گئے میرا تو آپ کے سوا کوئی تھا بھی نہیں پھر کیوں کیوں ۔۔۔ سائرہ روتی چلی گئی اور روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ زمین پر ہی سو گئی۔

کچھ دیر بعد اُس کے کانوں سے آواز ٹکڑائی ۔ سائرہ ۔ سائرہ دروازہ کھولو ۔۔ سائرہ ۔۔
سائرہ اُٹھی تو دیکھا اُس کے چچا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے اُس نے جلدی جلدی دروازہ کھولا ۔ چچا بولے کہاں تھی تم بیٹا ۔۔(سائرہ) کہیں نہیں چچا جان بس آنکھ لگ گئی ۔ چچا اُس کی سرخ اور نم آنکھیں دیکھ کر بولے ۔ بیٹاتم اپنی چچی کی باتوں کا بُرا نہ مناو ۔
سب ٹھیک ہو جائے گا اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا ۔ چلو بیٹا اُٹھو منہ ہاتھ دھو لو آج میں اپنے بیٹی کے ساتھ کھانا کھاوٴں گا ۔ سائرہ بولی ۔ ” چچا جان مجھے ابھی بھوک نہیں ہے آپ کھا لیں۔ (چچا جان) نہیں اس طرح بھوکے رہنے سے تم بیمار پڑ جاوٴ گی ۔ چلو اُٹھو شاباش ۔” چچا بہت پیار سے اُسے کھانے کی میز پر لے گئے “ ۔ سائرہ کی چچی اور کزن بھی کھانے کے میز پر موجود تھے۔
چچی اسد (اپنے بیٹے) سے مخاطب ہو کر بولیں ناشتہ کرو آفیس سے دیر ہو رہی ہے ۔ رابعہ(بیٹی) تم نے کالج نہیں جانا آج ؟ رابعہ بولی نہیں آج کچھ خاص کام نہیں ہے اور میری (دوست) فرینڈز نے بھی نہیں آنا آج ۔ چچی بولی۔ اچھا ناشتہ کرو جلدی گھر کے بہت سے کام پڑے ہیں ۔آج میرے ساتھ مل کر سارے کام ختم کرو ۔ رابعہ بولی ۔ ” ماما آج تو (ریسٹ) آرام کرنے دیں اتنی دیر بعد تو آج چھٹی کی ہے کالج سے ۔اتنے میں سائر بولی ” چچی میں کروا دوں کام آپ کے ساتھ ۔(چچی) غصے سے بولیں نہیں تم رہنے دو مجھے آتا ہے کام کرنا ۔
چچا جان بولے سائرہ بیٹی تم ناشتہ کرو ۔
سائرہ نے ناشتہ کیا اور(Garden) باغیچے میں چلی گئی۔ جہاں وہ اپنی یادوں میں کھو گئی

Browse More Urdu Literature Articles