Sookhay Keekar - Article No. 1047

Sookhay Keekar

سوکھے کیکر - تحریر نمبر 1047

میں سکاٹ لینڈ کے خوبصورت شہر گلاسگو میں چاچا حکم دین کے بیٹے کے ہمراہ ان کے گھر کے سامنے کھڑا تھا،

جمعرات 28 اپریل 2016

طلعت شبیر:
میں سکاٹ لینڈ کے خوبصورت شہر گلاسگو میں چاچا حکم دین کے بیٹے کے ہمراہ ان کے گھر کے سامنے کھڑا تھا، گھنٹی بجانے پر سفید شلوار قمیض اور گہرے آسمانی رنگ کی سویٹر میں ملبوس ایک بزرگ شخصیت سے نے دروازہ کھولا مجھے بغور دیکھا گلے لگایا اور پھر آگے چلتے ہوئے کہا‘ تم میرے گاؤں سے آئے ہو، نہیں پُتر! تم میرے گاؤں کے رہنے والے ہو! میں نہیں مانتا، میں چاچا حکم دین کے استقبال جملے سے سٹپٹا گیا اور حیران ہو کر ان کو دیکھنے لگا۔

برابر میں کھڑے چاچا حکم دین کے بیٹے نے میری حیرانی کو بھانپتے ہوئے کہا شاید ڈیڈنے آپ کے مغربی لباس کی وجہ سے ایسے کہا‘ میں کالے رنگ کے پینٹ اور کوٹ میں ملبوس تھا جو کہ سکاٹ لینڈ کے اعتبارسے مناسب لباس تھا لیکن چاچا حکم دین نے شاید اپنے گاؤں سے آئے ہوئے شخص کو اس لباس میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے یا پھر ان کے ذہن میں گاؤں سے آئے شخص کا چالیس سال پرانا خاکہ تھا اور میں اس کی تصویر ہر گزپیش نہیں کررہاتھا۔

(جاری ہے)

بہرحال میں چاچا حکم دین کے پیچھے چلتا ہوا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا اور ایک صوفے پربیٹھ گیا، چاچا حکم دین مجھ سے پہلے ہی مخالف سمت والے صوفے پر بیٹھ چکے تھے۔
”پتر کیسا لگا ہے ولایت تمہیں؟ چاچا اگر وطن میں بدنصیبی سے دال روٹی بھی نہ چل رہی ہو تو پھر ٹھیک ہے، میں نے پتہ نہیں کیوں ایسے کہہ دیا، میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا’ پھر اپنا اپنا سوچنے کاانداز ہے مجھے تو کوئی سونے کے طشت میں بھی ادھر لائے تو میں نہ آؤں انجانے میں جب دوسرا جملہ بھی میری زبان سے پھسل گیا تو مجھے احساس ہوا کہ میزبان کہیں براہی نہ مان جائیں۔
اتنے میں چاچا حکم دین سامنے والے صوفے سے اٹھ کر میرے برابر آکر بیٹھ گئے اور مجھے احساس ہوا کہ میں نے انجانے میں وہی کہہ دیاہے جو چاچا حکم دین سننا چاہتے ہیں اور مجھے یوں لگا جیسے جو تاثر آتے ہی میرے مغربی لباس سے پیدا ہوا وہ میری زبان کی پھسلن سے زائل ہونا شروع ہوگیا۔ میں اور چاچا حکم دین جہاں بیٹھے تھے ایک بڑی کھڑکی سامنے کی طرف کھل رہی تھی اور دور دور تک ہر چیز برف میں ڈھکی ہوئی کھڑی تھی۔
لمبی سڑک پر گاڑیاں ایک قطار میں کھڑی اور برف سے ڈھکی ہوئی تھیں اور سڑک پرسفید فام لمبے لمبے اوور کوٹ پہنے ادھر اُدھر گھوم پھر رہے تھے۔
ڈرائنگ روم میں سنٹرل ہیٹنگ کی وجہ سے ہلکی ہلکی گرمی کااحساس ہورہاتھا۔ چاچا حکم دین میرے والد کی خیریت دریافت کرنے کے بعد گاؤں کے بارے میں پوچھنا شروع ہوگئے۔ پھر باتوں سے باتیں نکلنا شروع ہوگئیں۔
آٹا پیسنے کی مشین اور اس کی تک تک آواز کوئل کبوتر اصیل مرغے اور بیٹر، کتوں کی لڑائی، سادن اور ندی نالوں کی طغیانی، طوفانی برساتیں اور کچے گھروں کی چھتوں کا ٹپکنا، ساون کی جھڑیوں میں کچے پتھروں کی دیواروں کا گھڑگھڑ کرنا اور پھر بارس میں بھیگتے بھیگتے دیواروں کومل کربنانا، ساری ساری رات لمبی لمبی کہانیاں سننا اور سنانا، چوپال میں بیٹھ کرایوب خان کے دورحکومت پر بے لاگ تبصرے اور حکومتی پالیسی پر کڑی، تنقید، ماسی نوراں جیراں پھلاں، رہٹ کنوئیں، بیری، ٹاہلیاں اور گاؤں کے میٹھے پانی کے کنویں کے ساتھ ملحقہ چاچے پالے کے گھر کے عقب میں دو سوکھے کیکر!!!!
چاچا حکم دین رک گئے اور مجھے یوں جیسے برسوں پرانی کسی طغیانی نے نہہں جھنجھو ڑا اور ان کی آنکھوں کو بھگو کر گزر گئی۔
اتنے میں ان کی ڈچ اہلیہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں اور آتے ہی مجھ سے ہاتھ ملایا اور میرے برابر ہی بیٹھ گئیں اور یوں چاچا حکم دین کی یادوں کے سلسلے دوسوکھے کیکروں پر ان کو روہانسا کرتے ہوئے ٹھہر گئے اور ہم ایک بار پھر سات سمندر کے فاصلے پر واقع اپنے گاؤں جو اس وقت صرف میرا اور چاچاحکم دین کا گاؤں تھا۔ سے سکاٹ لینڈ گلاسکولوٹ آئے‘ چاچا حکم دین کی اہلیہ سے رسمی گفتگو شروع ہوگئی۔
کیسا لگا یوکے، انگلینڈ اچھا ے یاسکاٹ لینڈ ، کیا کیا شاپنگ کی، کون کون سے شہر میں گئے؟ یورپ کیسا ہے؟ نائٹ لائف دیکھی؟ فیشن، ٹرینڈز آزادی اور پتہ نہیں کیاکیا؟ میں اور چاچا حکم دین کی اہلیہ جتنی دیر باتوں میں مصروف رہے چاچا حکم دین مسلسل سامنے کھڑے پر پڑی ایش ٹرے کے ساتھ کھیلتے رہے۔ میں بھی کافی دیر سے سوچ رہاتھا کہ چا چا حکم دین نے چاچے ہالے کے گھر کے عقب میں موجود ہرے بھرے کیکروں کو سوکھا کیوں کہا؟ کیونکہ میں بھی ساری عمر گاؤں میں رہا اور مجھے بھی ان کیکروں کا بخوبی علم تھا۔
اور وہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی ہرے بھرے کیکر ہیں،چاچا حکم دین اہلیہ نے اٹھتے ہی ہمیں بھی لنچ کے لئے چلنے کو کہا۔ لنچ پر چاچا حکم دین کے دو بیٹے، ایک بیٹی اور ان کی ڈچ اہلیہ موجود تھے۔ لنچ کے دوران ادھراُدھرکی باتیں ہوتی رہیں۔
لنچ کے بعد میں انتظار میں تھا کہ چاچا حکم دین کی یادوں کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے جڑے،چاچا حکم دین مجھے لے کر دوبارہ ڈرائنگ روم کی طرف آگئے۔
آپ سوکھے کیکروں کا ذکر کررہے تھے‘ میں نے دوبارہ بات شروع کرتے ہوئے کہا، چاچا حکم دین نے تقریباََ صوفے پر خود کراتے ہوئے پھر کہانی شروع کی’ پتر جی، یہ میری جوانی کی کہانی ہے۔ جب گوروں کو اپنے ملک میں لوگوں کی ضرورت تھی اور ہمیں اس ملک میں آنے شوق بہت سارے لوگوں نے سوہوے (سرخ) پاسپورٹ بنوائے اور ولایت کی تیاریاں شروع کردیں بالے کے گھر کے پیچھے موجود دو کیکر کی چھاؤں گھیری نہیں ہوتی، چاچا حکم دین نے دوبارہ بات شروع کی۔
کیکر کی چھاؤں بالکل پردیس کی طرح ہوتی ہے جس میں دھوپ شکر دوپہروں کی طرح چھن چھن کر آتی ہے، پھر ایسی ہی ایک شکر دوپہر میں کیکر کی برائے نام چھاؤں میں ہاجرہ میرے پاس آبیٹھی۔ وہ میرے مامے کی بیٹی تھی اور میں اسے جانتا بھی تھا، وہ خوبصورت تو تھی لیکن مجھے کبھی اس کا احساس نہ ہوا، وہ عموماََ مجھے عام سی لڑکی ہی لگتی تھی ، لیکن اس دوپہر جب وہ میرے پاس آبیٹھی، لیکن اس دوپہر جب وہ میرے پاس آبیٹھی تو میرے دل کے پاسپورٹ پرپکاویزا لگوا کر ہی اٹھی، پھر کیا تھا پتر اٹھتے بیٹھے چلتے پھرتے سوتے جاگتے وہ میرے اعصاب پر چھا گئی۔
مجھے ولایت بھول گیا، مجھے پتہ نہیں کیا ہو گیا۔ میں دیوانوں کی طرح گاؤں کی گلیوں اور پگڈنڈیوں میں پھرتا، پاگلوں کی طرح کیکروں سے باتیں کرتا، آئینے سے اوٹ پٹانگ سوال کرتا، ایک ایک گھنٹہ مانگ نکالنے میں لگا دیتا بارشوں میں بھیگتا، دھوپ میں چلتا، پہروں کیکروں کی برائے نام چھاؤں میں ہاجرہ کے ساتھ کی گھنی چھاؤں میں زندگی کے عجیب تانے بانے بنتا رہتا، میں ہاجرہ کے ساتھ مستقبل کی عجیب عجیب منصوبہ بندی بھی کرتا۔
میرے اس معاملے کاکسی کو علم نہیں تھا سوائے سخی محمد کے اور سخی محمد بھی میرے ساتھ ولایت آنے کے لئے ویزے کا انتظار کرتا تھا، اور پھر ایک دن مجھے گاؤں سے چلنا تھا․․․․․میں نے اور ہاجرہ نے دوپہر کو کیکروں کی چھاؤں میں ملنے کا پروگرام بنایاجو ملنے کے لئے مناسب ترین وقت تھا۔
ان دونوں گاؤں سے ایک ہی بس روالپنڈی کے لئے چلتی تھی اور میری بدقسمتی کہ ایک توبس اپنے وقت سے پہلے آگئی اور دوسرے پورا گاؤں مجھے بس پربٹھانے کے لئے امڈآیا، اور یہ وقت عین وہی وقت تھا۔
جب میں نے ہاجرہ سے ملنا تھا۔ پتر میں اگرآج کا نوجوان ہوتا تو میں کبھی بھی ایسے نہ کرتا جیسے میں نے کیا۔ آج سے چالیس سال پہلے اس گاؤں میں یہ اظہار کرنا کہ مجھے اپنی ہاجرہ سے ملنا ہے، پتہ نہیں کیوں مشکل تھا۔ اور دوسرے مجھے لگتا تھا کہ شاید میں روالپنڈی سے واپس آجاؤں اور ولایت جانے سے پہلے گاؤں کا ایک اور چکر لگ جائے ۔ ایسا بہرحال نہ ہوا اور میں ہاجرہ کو ملے بغیر راولپنڈی پہنچا اور وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ میری سیٹ بھی ہوچکی ہے اور مجھے رات کو ہی کراچی اور پھر ولایت جانا ہے اور میں یہاں چلا آیا۔
یہاں آکر بھی میں نے دل کو تسلیاں دیں کہ کچھ عرصے کی تو بات ہے ہاجرہ کو بیاہ کر یہاں لے کر آؤں گا۔
ہاجرہ ولایت میں بھی میرے دل ودماغ پر چھائی رہی، لیکن قدرت کوکچھ اور ہی منظور تھا، کچھ دنوں کے بعد سخی محمد یہاں پہنچا توا س نے میرے سر سے آسمان کھینچ لیا اور میرے پاؤں سے زمین نکال دی۔ اس نے بتایا کہ جس دن میں گاؤں سے راولپنڈی کے لئے روانہ ہوا اسی دن شام کو بالے کے گھر کے عقب میں موجود کیکروں کے پاس ہاجرہ کی لاش ملی، چاچا حکم دین خاموش ہوگئے اور ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا ۔
اور میں بھی چاچا حکم دین کہانی کے اچانک کلائمکس پردم بخودرہ کیا، میں اس کے بعد کبھی بھی گاؤں نہیں گیا اور شاید اگرہاجرہ کی موت کیکروں کے پاس واقع نہ ہوتی تو میں یہ غم بھول جاتا۔ اور تمہیں نہیں لگتا کہ ہاجرہ کی ایسے ہونے والی موت کے غم کا بوجھ میرے دل ودماغ پہ رہنا چاہئے۔ چاچا حکم دین نے قہر زدہ خاموشی کے بعد بات شروع کی، میرے دل ودماغ پر بالے کے گھر کے عقب میں موجود کیکروں کی چھاؤں آج چالیس سال بعد بھی سایہ کئے ہے، میں لوٹ کر گاؤں نہیں گیا اور نہ ہی چالیس سال تک یہ راز کسی کو بتایا۔
اب یہاں کسی کو کیا پتہ کیکرہوتے ہیں اور کیکروں کی چھاؤں کیاہوتی ہے۔ شکر دوپہروں کیا ہوتیں ہیں، اور رشکر دوپہروں کے عہدو پیمان کیا ہوتے ہیں۔
چاچا حکم دین کی بیوی اور بچے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ وہ اس بات سے قطعاََ بے خبر تھے کہ ان کاباپ چالیس سال تک وطن اس لئے نہیں کیا کہ کیکروں کی چھایا، اس کو شکر دوپہروں کے عہد وپیمان یاد دلائے گی۔
شاپنگ، یورپ، نائٹ لائف، فیشن، ٹرینڈز، آزادی کی باتیں کرنے والوں کو چاچا حکم دین کے کیکروں کی نہ تو فکر تھی اور نہ ہی برائے نام چھاؤں کی بحث میں پڑنے کی ضرورت ! گھر کے باہر برف باری شروع ہوچکی تھی، برف روئی کے گالوں کی طرح کر رہی تھی، اور سڑک پراکا دکا راہ گیر نظرآرہے تھے ۔ ماحول میں پراسراریت چھا چکی تھی، اب نہ تومیرے پاس کوئی سوال تھا اور نہ ہی مجھ میں کچھ پوچھنے کی ہمت تھی اور نہ ہی شاید چاچا حکم دین کے پاس اور کچھ بتانے کو تھا۔
وہ سکاٹ لینڈ میں میرا آخری دن تھا، اگلے دن میں نے پاکستان کے لئے فلائٹ لینی تھی، مجھے خبر نہیں تھی کہ میرا یہ دورہ اداسی پر منتج ہوگا۔ اگلے دن میں نے فلائٹ پکڑی اور اسلام آیاد پہنچ گیا، میرا چھوٹا بھائی مجھے لینے ائیرپورٹ پر موجود تھا۔ہم دونوں گاڑی پر بیٹھ کر گھر کی طرف چارہے تھے ابو نہیں آئے‘ میں نے بھائی سے پوچھا۔ وہ ہسپتال گئے ہیں‘ میں چانکا‘ کیوں‘ وہ چاچے پالے کے بیٹے منظور کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں اور وہ سنٹر ہسپتال میں ہے “ کیسے ٹوٹی ہیں ٹانگیں۔
میں نے ایسے ہی پوچھا” ان کے گھر کے عقب میں دو کیکر کے پرانے درخت تھے وہ پرسوں طوفانی بارش میں اکھڑے اور ان کی چھت پر گرگئے۔ منظور چھت پر مٹی ڈال رہاتھا وہ نیچے آگیا“ بھائی کے لئے وہ کیکر کے دوپرانے درخت تھے لیکن میں جانتا تھا کہ و ہ کیکر چاچا حکم دین کی پیار کہانی کے تین کرداروں میں سے اک انتہائی اہم کردارتھے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں چاچا حکم دین کو فوراََ فون کرکے بتاؤں کہ اب نہ تو ان کے کیکر ہیں اور نہ ہی کیکرکی برائے نام چھاؤں اور انہیں کہوں کہ وہ وطن لوٹ آئیں کیوں کہ اب شکر دوپہروں میں چھاؤں کرنے والے کیکر اس طو فان کی نذر ہوگئے جس کو معلوم نہ تھا کہ محبت کتنی دہائیاں زندہ رہ سکتی ہے۔

بیاض(جنوری 2007ء )

Browse More Urdu Literature Articles