Suno Tum Khwaab Mat Hona - Article No. 1475

Suno Tum Khwaab Mat Hona

سنو تم خواب مت ہونا - تحریر نمبر 1475

غلام قوموں کا مقدر بھی عجیب ہوتا ہے ادھوری باتیں، ادھوری کہانیاں، ادھورے لفظ اور ادھورے خواب۔ ان قوموں کا معیار بھی الگ ہوتا ہے شریف کو نادان، مکار کو سمجھدار، قاتل کو بہادر اور دولت مند کو بڑا آدمی سمجھنے لگتے ہیں

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی منگل 5 ستمبر 2017

غلام قوموں کا مقدر بھی عجیب ہوتا ہے ادھوری باتیں، ادھوری کہانیاں، ادھورے لفظ اور ادھورے خواب۔ ان قوموں کا معیار بھی الگ ہوتا ہے شریف کو نادان، مکار کو سمجھدار، قاتل کو بہادر اور دولت مند کو بڑا آدمی سمجھنے لگتے ہیں۔ استاد کے ساتھ تعلق کو چھپاتے اور کوتوال کے ساتھ رشتے کو فخریہ انداز میں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ رائی کو پہاڑ سمجھ کر اسے سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

دولت کو منزل سمجھ کر عمر بھی اس کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ شیشے کا مقدر لئے پتھر کے شہر میں رہتے ہیں۔ رقص کا ان کی زندگیوں سے گہرا تعلق ہوتا ہے، مہذب لوگ آقاﺅں کے اشاروں پر اور غیر مہذب تڑپتی لاشوں پر رقص کرتے ہیں۔ ان قوموں کی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ بابا کہتے ہیں پہچان کی ضرورت تو قبروں کو بھی ہوتی ہے تم ملک کی بات کرتے ہو۔

(جاری ہے)

قومیں طرزِ فکر سے بنتی ہیں، اسلحے اور بارود کے انبار جمع کرنے سے نہیں۔

غلام ماضی کی گود میں سر رکھ کر سوئے رہتے ہیں، میرا باپ میرے سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتا تھا۔ پچھلی یوم آزادی پر مجھے مبارکباد دینے کے بعد بولے بیٹا جاﺅ پاکستان بناﺅ میں مسکرا دیا۔ بابا پاکستان تو بابائے قوم نے 1947ء میں بنا دیا ہے۔ بابا بولے بیٹا حضرت قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے ایک ملک کو آزاد کروایا تھا پاکستان تو ہم سب نے مل کر بنانا ہے۔
بیٹا تم میرے پاکستان ہو۔
میں، میری ماں اور میرا باپ ایک مثلث کی طرح تھے میں تمام عمر یہی سوچتا رہا کہ مجھ سے زیادہ محبت کون کرتا ہے، میری ماں یا میرا باپ، ایک طرف محبت کا ہمالیہ تھا اور دوسری طرف شفقت کا ایک گہرا سمندر جس کے اندر کئی ہمالیہ سرنگوں تھے، کبھی کبھی بابا مسکراتے اور کہتے پُتر میری اور تیری محبت میں تیری ماں میری سب سے بڑی رقیب ہے۔

جب میں بہت چھوٹا تھا تو میں بابا کی باتیں بڑے غور سے سنتا تھا۔ بابا کی ہر گفتگو میں رب کا ذکر اور پاکستان کا حوالہ ضرور ملتا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے باپ، پاکستان اور پروردگار عالم کا آپس میں کوئی پراسرار اور گہرا تعلق ضرور ہے۔ میرا باپ ایک بڑا انسان تھا، وہ کہا کرتے تھے باپ کو ہمیشہ صاحب کردار اور آئیڈیل ہونا چاہئے وگرنہ اس کے بچے یتیم کہلائیں گے۔
اس کے کمرے میں بابائے قوم کی ایک بڑی تصویر لگی تھی جسے اس نے کبھی بے وضو نہیں دیکھا تھا۔ جب میں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پاکستان کے حالات کو دیکھ کر افسردہ ہو جاتا پھر میں بابا سے سوال کرتا بابا پاکستان کے حالات کب بدلیں گے؟ مجھے تو دور دور تک روشنی نظر نہیں آتی۔ بابا میرے ہونٹوں پر انگلی رکھ دیتے اور کہتے پُتر تو گھر کی کھڑکی سے پاکستان کو دیکھ رہا ہے، میں ہمالیہ کی چوٹی سے پاکستان کو دیکھتا ہوں تم کچھ باتوں کو نہیں سمجھ سکتے، رب کی حکمتوں پر غور کیا کر پھر تمہیں بصیرت حاصل ہوگی۔
بصیرت اس وقت ملتی ہے جب ان باتوں پر شکر کیا جائے جن باتوں پر صبر کرنا بھی مشکل ہو۔ پاکستان صبر اور شکر کے ذریعے اپنی منزل حاصل کرے گا۔ شعبِ ابی طالب کی مشقت اور ریاضت اور فتح مکہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے ایک دن انہوں نے عجیب بات کی، کہنے لگے پُتر میں تمہیں ایک عجیب بات سناتا ہوں، بیٹا ہمارے گاﺅں میں جب کسی کو اپنے دشمن سے اپنی حفاظت یا جان کا خطرہ ہوتا تھا تو وہ کوئی چھوٹا موٹا جرم کر کے حوالات چلا جایا کرتا تھا، باقی جب تمہیں بصیرت حاصل ہوگی تو اس بات کی بھی سمجھ آجائیگی۔

بابا جتنی عزت میری کرتے تھے اس سے کہیں بڑھ کر وہ میرے دوستوں کا خیال کرتے تھے، بس ایک ہی نصیحت کرتے تھے پُتر کبھی ایسا دوست نہ بنانا جس کے دل میں دماغ رہتا ہو۔
مجھے ایک دن انہوں نے رات کو الگ سے اپنے کمرے میں بلایا، اس دن وہ بہت پریشان دکھائی دے رہے تھے، کہنے لگے کل جو تم گھر پیسے لائے تھے وہ کہاں سے آئے تھے؟ میں سٹپٹا گیا۔
بابا دراصل وہ آفس کا ایک فنڈ تھا جو استعمال نہیں ہوا تھا، وہ کشیئر نے مجھے دے دیئے تھے۔ مگر بیٹا یہ پیسے تمہارے تو نہیں اس قلندر دیس کے ہیں بیٹا یہ تو ناجائز اور حرام ہے۔
میں نے سر جھکالیا ہاں بابا مجھ سے غلطی ہو گئی ہے، کل میں یہ پیسے واپس جمع کروا دوں گا۔ مگر بابا آپ کو یہ کیسے پتہ چلا۔
بابا کی آواز رُندھ گئی۔ بولے
بیٹا پھول بے رنگ ہو جائیں یا ان پر کوئی زہر پھینک دے اس کا غم تتلیاں ہی جانتی ہیں۔
ہم صادق اور امین کی امت میں سے ہیں، پاکستان بھی ایک امانت ہے اور اشرف المخلوقات کا منصب اور اعزاز بھی ایک امانت ہے، ہمیں اشرف المخلوقات کے مقام اور منصب کا خیال کرنا چاہئے۔ میں سمجھا نہیں بابا میں نے حیرانی سے کہا۔
پُتر کل سے تمہارے کُتے نے کھانا نہیں کھایا
جاﺅ آئندہ اپنے منصب اور دی گئی امانت کا خیال رکھنا، اس وقت میرا دل چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاﺅں۔
کچھ عرصہ بعد میرے ذہن میں ایک عجیب خبط سما گیا۔ مجھے اپنے بہتر مستقبل کے لئے اور پیسہ کمانے کے لئے باہر جانا چاہئے۔ میں نے لندن جانے کا پروگرام بنالیا۔ بابا نے مجھے ہر ممکن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹا ہجرت صرف بڑے مقصد کے لئے کرتے ہیں، تم دنیا کمانے کے لئے ہجرت کرنا چاہتے ہو جس کی قیمت مچھر کے ٹوٹے ہوئے پر کے برابر بھی نہیں، پتر اپنی پہچان چھوڑ کر مت جاﺅ، پاکستان ہماری پہچان ہے، درخت بھی ہمیشہ اپنے پتے تبدیل کرتا ہے جڑیں نہیں۔
مگر میں نہ مانا ۔ ایئر پورٹ پر مجھے رخصت کرتے ہوئے بابا بولے بیٹا اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں، بڑھاپا جسم کی جلاوطنی کا نام ہے۔ پُتر بڑھاپے کی زندگی اور دیوار پر لکھے نعروں میں کوئی فرق نہیں ہوتا، ان کو مٹانے کے لئے ایک ہی بارش کافی ہوتی ہے۔
پھر ضبط کا مضبوط حصار توڑ کر کچھ آنسو میرے باپ کی آنکھوں سے بہہ نکلے۔ بولے بیٹا پچھتاوہ بقیہ عمر ضائع کر دیا کرتا ہے اور پھر آدمی کو خشک سمندر کی لہروں کا شور عمر بھر سونے نہیں دیتا اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولے
سنو تم خواب ہو میرے
سنو تم خواب مت ہونا
اور پھر مجھے گلے سے لگا کر میری طرف دیکھے بغیر ایئرپورٹ سے باہر نکل گئے۔
اور پھر میں یہاں لندن میں دنیا کی دلدل میں گم ہوگیا، ایک گوری سے شادی کے بعد مجھے یہاں کی Nationality بھی مل گئی تھی۔ کئی سال تک بابا سے رابطہ نہ ہوسکا، سال پہلے ان کا خط آیا تھا، لکھا تھا: بیٹا! اب تم پاکستان آئے بھی تو مجھے دیکھ کر تمہیں مایوسی ہوگی۔
اب تم میرے چہرے کو دیکھ کر ڈر جاﺅ گے کیونکہ اب اس پہ سرسوں کی پیلی رُت اتر چکی ہے۔

تھوک کے خون سے یقینا تمہیں نفرت ہو گی مگر اب یہ طبیب کے بس میں نہیں رہا۔
اب تم مجھ سے ٹوٹ کر پیار نہیں کرسکو اور یقینا اپنے بیوی بچوں کے پاس پلٹ جاﺅ گے۔ بیٹا مجھے تیری جدائی نے مار دیا ہے وگرنہ میں اپنے مرنے تک جینا چاہتا تھا۔ بیٹا میری آنکھوں کا دریا سوکھ گیا ہے۔
افسوس میرے پاس اتنا بھی وقت نہی تھا کہ دو جملوں کا سا ہی سہی خط کا جواب دے دیتا۔

میں ایک دن اپنے گھر میں بیٹھا اپنی بے حساب دولت کا حساب کر رہا تھا، میرا ایک پرانا دوست مجھ سے ملنے آگیا۔
پوچھنے لگا، کب سے پاکستان نہیں گئے!
میں نے کہا: گیارہ برس بیت گئے ہیں۔ وقت ہی نہیں مل سکا پاکستان جانے کا، سوچ رہا ہوں اگلے برس جاﺅں گا۔ بابا سے بھی ملنا ہے۔
اس نے حیرانی سے میری طرف دیکھا، کہنے لگا کیا تم پاگل ہو ،کیا تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں ، کیا تم اپنے باپ کے مرنے پر بھی پاکستان نہیں گئے۔

یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟
آہ ....بابا مر گئے۔ میری چیخیں نکل گئیں۔ مگر مجھے کسی نے بتایا کیوں نہیں۔
ان کی وصیت تھی میرے بیٹے کو اطلاع مت دینا، اسے آنے میں تکلیف ہوگی۔
اور پھر مجھے یوں لگا جیسے بازی پلٹ گئی ہے اور میں اپنا وجود بھی ہار گیا ہوں، بابا کے الفاظ پگھلے ہوئے سیسے کی طرح میرے کانوں میں گونجنے لگے۔ بیٹا مجھے تیری جدائی نے مار دیا ہے وگرنہ میں اپنے مرنے تک جینا چاہتا تھا۔

بیٹا! پچھتاوہ بقیہ عمر ضائع کر دیا کرتا ہے اور پھر آدمی کو خشک سمندر کی لہروں کا شور عمر بھر سونے نہیں دیتا:
سنو تم خواب ہو میرے
سنو تم خواب مت ہونا
میں نے اپنی Nationality اور پاسپورٹ اور کچھ ضروری سامان اٹھایا اور بیوی بچوں کو بتائے بغیر ایئرپورٹ پہنچا اور پہلی فلائٹ سے لاہور پہنچا اور وہاں سے سیدھا اعوان ٹاﺅن قبرستان پہنچا، میں نے بابا کی قبر کو بہت تلاش کیا مگر مجھے نہ ملی میں دوڑ کر گورکن علم دین کے پاس پہنچا اور میں نے اس سے پوچھا بابا کی قبر کہاں ہے، علم دین میرے ساتھ چلا آیا، اس نے بھی بہت تلاش کیا مگر قبر نہ ملی، علم دین نے مجھ سے پوچھا قبر کی پہچان کیا ہے؟ مجھے بابا کی بات یاد آگئی بیٹا پہچان کی ضرورت تو قبروں کو بھی ہوتی ہے تم ملک کی بات کرتے ہو۔
میں نے علم دین سے کہا علم دین میں آج پہلی بار آیا ہوں مجھے نہیں معلوم میرے باپ کی قبر کیسی ہے۔ علم دین پھر تلاش میں نکل گیا۔ میں نے وہیں قبرستان میں ایک گڑھا کھودا اور اپنی غیر ملکی شہریت اور اپنا پاسپورٹ اس میں دفن کر دیا اور اس پر مٹی ڈال دی۔ پھر میں نے غور سے دیکھا اس گڑھے کے ساتھ ہی میرے باپ کی قبر ابھر آئی تھی۔ میں نے کتبہ دیکھا لکھا تھا۔

محمد بخش خان نظامی
تاریخ پیدائش 20 فروری 1928ء
تاریخ وفات........
علم دین چکر لگا کر واپس آگیا تھا، میں نے کہا یہ ہے قبر میرے باپ کی مگر علم دین اس پر تاریخ وفات کیوں نہیں لکھی؟
علم دین نے قبر کی طرف دیکھا اور پھر افسوس اور نفرت سے میری طرف دیکھا اور خاموش رہا۔
پھر کچھ ہی دیر بعد وہ بولا مجھے تاریخ تو یاد نہیں غالباً چار مہینے پہلے کی بات ہے جب میں نے یہ قبر بنائی تھی مگر اس پر کتبہ نہیں تھا ۔
پھر ایک رات میں جب رات کو چکر لگانے آیا تو انتہائی خوبصورت انسان جس کا چہرہ نور سے چمک رہا تھا اس قبر پر کتبہ نصب کر رہا تھا۔ وہ کوئی انسان نہ تھا شاید کوئی فرشتہ تھا۔ یہی سوال میں نے بھی اس سے کیا تھا اے اجنبی اس کتبے پر تاریخ وفات کیوں نہیں لکھی وہ اجنبی بولا ایسے لوگ مرتے نہیں صرف انتقال کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پیاروں کے انتظار میں زندہ رہتے ہیں۔
ابھی صاحبِ مزار کے بیٹے نے باہر سے آنا ہے جس دن وہ آئے گا اسی دن صاحبِ مزار کا انتقال ہوگا۔ تاریخ وفات اسی دن کی لکھی جائے گی۔ اور پھر میں نے تاریخ وفات کے آگے لکھا :
20 اکتوبر 1994ء
اور پھر میں ساری رات قبر پہ بیٹھا روتا معافی مانگتا رہا مگر
قبر سے صرف ایک ہی آواز آتی رہی۔
بیٹا مجھے تیری جدائی نے مار دیا ہے وگرنہ میں اپنے مرنے تک جینا چاہتا تھا ۔

جدائی اور موت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، ہجر کا دکھ دیکھنا ہو تو حضرت یعقوبؑ کی آنکھوں کی طرف دیکھو اور ہجر ایک ایسی اذیت ناک موت ہے جس میں جان سے جاتے جاتے بھی عمر لگ جاتی ہے۔
اور سنو تم خواب ہو میرے
سنو تم خواب مت ہونا
لاہور کی گلیوں میں جہاں کبھی میلی چادر اوڑھے ساغر بھرتا تھا اب وہاں ایک ملنگ بے تحاشا بڑھے ہوئے بالوں اور میلی چادر لئے پھرتا نظر آتا ہے، رات ہوتی تو ساغر کی طرح کسی بھی فٹ پاتھ پہ لیٹ جاتا ہے مگر آج تک اسے کسی نے سوئے ہوئے نہیں دیکھا، صبح ہوتے ہی بازار میں چلنا شروع کر دیتا ہے، جہاں کہیں بوڑھا نظر آتا ہے اس کو روک کر سلام کرتا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر چومتا ہے اور کہتا ہے اپنے مرنے تک ضرور زندہ رہنا اور اپنے بیٹے کو باہر مت جانے دینا، اُس کا پاسپورٹ پھاڑ دینا۔
اور سسکتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے اور پھر کرب ناک لہجے میں گانے لگتا ہے۔
سنو تم خواب ہو میرے
سنو تم خواب مت ہونا

Browse More Urdu Literature Articles