Tawaan - Article No. 1504

Tawaan

تاوان - تحریر نمبر 1504

زندگی قربانی مانگتی ہے، اگر قربانی نہیں دو گے تو تاوان ادا کرنا پڑے گا اور زندگی کا تاوان دنیا اور آخرت کی ناکامی ہے۔

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی جمعہ 22 ستمبر 2017

اس دن یونیورسٹی میں ہمارا پہلا دن تھا، تمام کلاس فیلوز اپنا اپنا تعارف کروا رہے تھے۔ اپنی باری پر میں اٹھا اور بولا سر میرا نام دائم علی شاہ ہے، یونیورسٹی میں پڑھنا میرا شوق تھا، ہم سر سندھ کے وڈیرے ہیں، ہماری سینکڑوں ایکڑ زمین ہے، مزارعوں، خادموں اور ہاریوں کی ایک فوج ہمارے گرد موجود رہتی ہے، سر ہمارے کتے بھی عام انسانوں سے زیادہ اچھی خوراک کھاتے ہیں، ہمارے مزارعے ان کتوں کی دن رات خدمت کرتے ہیں،اگر مالک ان سے ناراض ہو جائے تو اسے انہیں کتوں کے آگے ڈال دیا جاتا ہے اور پھر یہی کتے ان کو چیر پھاڑ دیتے ہیں کیونکہ تمام کتوں کے آبا و اجداد بھیڑیے تھے۔


کلاس میں کچھ لوگوں نے قہقہے لگائے اور کچھ نے Shame Shame کے نعرے بھی لگائے۔ آخر میں وجیہہ نے اپنا تعارف کروایا۔

(جاری ہے)


سر میرا نام وجیہہ ہے۔ سر میں امریکہ سے آئی ہوں، گریجویشن میں نے امریکہ ہی سے کی ہے۔ میرے ماں باپ کراچی ہی سے ہیں۔ میرے والد کی شدید خواہش تھی کہ میں اب مزید تعلیم پاکستان ہی سے حاصل کروں۔ پھر میں نے والد صاحب کی خواہش کے احترام میں یہاں داخلہ لیا ہے۔

سر شاید یہاں کوئی بھی نہ جانتا ہو کہ دنیا میں سب سے زیادہ وٹامنز باپ کی دعا میں ہوتے ہیں۔ پروفیسر باجوہ سمیت کلاس میں تمام لوگ حیرت زدہ ہو کر اسے دیکھنے لگے۔ سر میں تھوڑا سا وقت لینا چاہوں گی۔ میرے بھائیو اور بہنو! میری آپ سے درخواست ہے زندگی میں ہمیشہ مثبت سوچ اپنایئے، ہمیشہ زندگی کی خوبصورتیوں پر نظر رکھیے۔ محبتوں کو ہمیشہ اپنے فرائض میں شمار کریں۔
گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ ہماری منفی سوچیں ہیں۔ جب میں امریکہ میں پانچویں کلاس کی طالبہ تھی تو ہمارے کچھ بچوں کی ڈیوٹی تھی کہ سکول کے بعد ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ کچھ وقت گزاریں۔ جب میں ہسپتال گئی تو میں نے دیکھا ایک مریض جو کئی ہفتوں سے بے ہوش تھا اس کو آکسیجن لگی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ کئی مشینیں لگی ہوئی تھیں، میں روز جاتی اور اس بے ہوش مریض کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ جاتی اور کہتی اے محترم انسان میرے انکل اٹھو دنیا اور دنیا کی خوبصورتی آپ کا انتظار کر رہی ہے۔
آپ کے پیاروں کی آنکھیں آپ کو صحت مند اور چلتا پھرتا دیکھنا چاہتی ہیں۔ آپ جب سے ہسپتال آئے ہیں رب العزت نے بہت سی نئی خوبصورتیاں پیدا کر دی ہیں۔ جو پہلے خوبصورتیاں تھیں ان کو اور بھی زیادہ دلکش بنا دیا ہے۔ اٹھو اور دیکھو چاندنی راتیں اور معصوم بچوں کے قہقہے کتنے خوبصورت لگتے ہیں۔ تاریک راتوں کے کاغذوں پر جگنوؤں کی ٹمٹماتی روشنی کیسے اجالے لکھتی ہے، موسم بہار میں مسکراتے پھولوں پر رقص کرتی نازک تتلیوں کے پروں پر خوبصورت رنگوں سے بنے انتہائی دلفریب نقش و نگار کتنے بھلے لگتے ہیں۔
سورج کے طلوع اور غروب ہونے کا منظر سحر طاری کر دیتا ہے، وقت سحر سبزے اور پھولوں کو چومتی موتیوں جیسی شبنم باد صبا سے سرگوشیاں کرتی کتنی بھلی معلوم ہوتی ہے، کوئل کی کوک انسان کو ٹرانس میں لے جاتی ہے اور وجد طاری کر دیتی ہے۔ اللہ کا ذکر کرتے پرندوں کی چہچہاہٹ سماعتوں کو کتنی بھلی لگتی ہے۔ اے فرشتے اٹھو اور فطرت کی خوبصورتیوں اور نعمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر اپنی روح کو مالامال کرلو۔
رم جھم کے بعد آسمان کی بلندیوں پر مسکراتی قوسِ قزح کے شوخ رنگ وارفتگی پیدا کر دیتے ہیں۔ اٹھو اور ان خوبصورت رنگوں کے خزانوں سے روح کو سیراب کرلو۔
سر میں تقریباً دو ماہ تک ہسپتال جاتی رہی اور اس بے ہوش مریض کا ہاتھ پکڑ کر روزانہ کم و بیش یہی الفاظ دہراتی رہی، پھر مجھے سکول میں چھٹیاں ہوگئیں۔
چھٹیوں کے بعد جب میں سکول گئی تو چھٹی کے بعد ہسپتال بھی گئی تو دیکھا وہ بیڈ خالی تھا، اس کے دو ہی مطلب تھے یا تو وہ مریض صحت یاب ہو کر گھر چلا گیا ہے یا خدانخواستہ سفر آخرت پر روانہ ہو چکا ہے۔
مجھے کسی سے پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی کیونکہ اس مریض کی موت کا دکھ میرے لئے ناقابل برداشت ہوتا۔
کچھ سالوں کے بعد جب میں اپنے والدین کے ساتھ دوسرے شہر پہنچی تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ وہی شخص ایک پٹرول پمپ پر بیٹھا ہوا ہے۔ اسے دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں نے فرطِ جذبات سے اس کا ہاتھ چوم لیا، بے اختیار میرے منہ سے نکلا اے زندگی عطا کرنے والے تیرا شکر ہے، تو نے اسے زندگی اور صحت سے نوازا۔

اس شخص نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور بولا سوری بیٹا میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ اوہ، میرے منہ سے نکلا۔ دراصل انکل جب آپ ہسپتال میں بے ہوش تھے تو میں سکول سے آپ کے پاس آتی تھی۔ پھر مجھے سکول سے چھٹیاں ہوگئیں۔ چھٹیوں کے بعد جب میں دوبارہ گئی تو آپ وہاں نہیں تھے، اس کے بعد آج آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے، میں روزانہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر دنیا کی خوبصورتیوں کا ذکر کرکے آپ کو واپس لوٹ آنے کا کہتی تھی اور اللہ نے میری دعا سن لی، وہ میری باتیں سن کر رونے لگ گیا۔
اچھا تم ہی وہ فرشتہ ہو جس کی وجہ سے میں واپس لوٹا ہوں۔ بیٹا یہ سچ ہے جو میں بتا رہا ہوں، میں ایک دن اسی پمپ پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک میرے اندر بلیک آﺅٹ ہوگیا، میں کئی ہفتے بے ہوش رہا، پھر مجھے لگا روز ایک فرشتہ آتا ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کہتا ہے اے محترم انسان اٹھو دنیا آپ کا انتظار کر رہی ہے، آپ کے پیاروں کی آنکھیں آپ کو تندرست اور چلتا پھرتا دیکھنا چاہتی ہیں۔
آپ جب سے ہسپتال آئے ہیں اللہ نے بہت سی نئی خوبصورتیاں پیدا کر دی ہیں۔ جو پہلے خوبصورتیاں تھیں ان کو اور بھی زیادہ دلکش بنا دیا ہے اور پھر اس نے وہی الفاظ دہرائے جو میں اسے روز کہتی تھی۔ کہنے لگا پھر میرے اندر ایک شدید خواہش پیدا ہو گئی کہ میں زندگی کی طرف دوبارہ لوٹوں اور اس جہاں کی خوبصورتیوں سے اپنی روح کو مالا مال کروں، پھر میں ہر لمحہ رب سے التجا کرتا تھا مجھے اپنی خوبصورت دنیا میں واپس بھیج دے تاکہ میں سوہنے رب اور خوبصورتی کو پسند کرنے والے اور محبت کرنے والے پروردگار کا شکر ادا کرسکوں اور پھر ایک دن ڈاکٹر حیران رہ گئے، میرے اعضاء نے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا، پھر آہستہ آہستہ مجھے ہوش آنا شروع ہوگیا اور آج میں آپ کے سامنے موجود ہوں، مجھے معلوم نہ تھا کہ جو فرشتہ میرے پاس آتا تھا اور کائنات کی خوبصورتیوں کا ذکر کرکے مجھے دوبارہ اس خوبصورت دنیا میں واپس لانا چاہتا تھا وہ فرشتہ تم ہو۔

جب وجیہہ نے اپنا تعارف مکمل کیا تو پوری کلاس پروفیسر سمیت کھڑی ہوگئی اور کمرہ تالیوں سے گونج اٹھا۔
وجیہہ اس کلاس کی روحِ رواں تھی، وہ عجیب باتیں کرتی تھی، اس کے سوالات بھی پراسرار ہوتے تھے اور جوابات بھی الگ ہوتے تھے، میں نے ہمیشہ اسے پرانے کپڑوں مگر نئی کتابوں کے ساتھ دیکھا، کہتی تھی انسان کو چاہئے وہ کتابوں کی طرف لوٹ آئے وگرنہ انسان انسان کو کھانے لگے گا۔
وہ کہتی تھی آدمی کو محبت کے معاملے میں خانہ بندوش ہونا چاہئے، جس کسی نے بھی پیار سے پکارا اپنا گھر بار اٹھا کر چلے آئے۔ کہتی تھی کتنی بدقسمتی ہے کہ آدمی میں تکبر آجائے، متکبر آدمی گولڈ فش کی طرح ہوتا ہے جس کی یادداشت صرف تین سیکنڈ ہوتی ہے اور آدمی بھی تین سیکنڈ میں رب کو بھول کر سٹار فش کی طرح ہو جاتا ہے جس کا دماغ نہیں ہوتا۔ کہتی ہے کسی ملک کو تباہ کرنے کے لئے اسلحے کی ضرورت نہیں اس کی معاشرت تباہ کر دو ملک ٹوٹ جائے گا، کسی بھی ملک کی معاشرت کو تباہ کرنا ہو تو اس کے مکان کے نیچے دکان لے آﺅ، بازاروں میں رہنے والے فطرت سے دور ہو جاتے ہیں، رب کو فطرت سے بے حد پیار ہے یہاں تک کہ معجزہ تک بھی غیر فطری نہیں ہوتا، صرف زمانے سے آگے ہوتا ہے، کہتی تھی نماز بندگی نہیں اظہار بندگی ہے، بندگی تو اطاعت سے شروع ہوتی ہے اور جس سے توبہ چھن گئی اس سے شرفِ انسانیت چھن گیا اور ولی اللہ کے پاس تزکیہ نفس کی فرنچائز ہوتی ہے، وہ حاجت روا نہیں ہوتا، حسن سوال میں ہے جواب میں نہیں، جب تک چاند سوال رہا اس کا رومانس دلوں پر حاوی رہا، جب پانی، آکسیجن کے بغیر اور کھائیوں والی زمین چاند ہے کا جواب ملا اس کا سارا رومانس ختم ہوگیا۔
کہتی ہے انسان صرف انہی سے زندگی کی دوڑ ہارتا ہے جن کے پاﺅں کا وہ کانٹا نکالتا ہے اور انا کے مقابلے میں ہارنے والا جیت جاتا ہے۔
اس دن مجھے اپنے وجود کی بساط پر سب سے بڑی مات ہوئی، مجھے اس دن پتہ چلا کہ میں اپنے بدن کی قبر میں گڑھا ہوا ہوں مگر مجھ میں خودکشی کا اعتراف کرنے کا حوصلہ نہ تھا۔ جب میں نے اسے اپنا ہم سفر بنانا چاہا، تو بولی تمہارا مذہب اژدھے کا مذہب ہے اسی لئے تو تمہیں کمزور کو نگلنے کا حق حاصل ہے۔
تمہاری طبیعت سانپ کی مانند ہے جس کے لئے کوئی بھی قابل احترام نہیں ہوتا۔ تمہاری شریعت میں تمہاری دستار دوسروں کے خون سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ سنو بھیڑ اور بھیڑیا صرف اسی صورت میں اکٹھے رہ سکتے ہیں جب بھیڑ بھیڑیے کے پیٹ میں سما جائے، اگر تمہیں زیورات کا شوق ہے تو تمہیں کان میں سوراخ کروانا پڑے گا۔ میری دعا ہے تمہاری زندگی کی جوگن کو ساون میں کوئی سانپ ڈس جائے۔
سنو کینچلی بدلنے سے زہر کم نہیں ہوا کرتا۔ جینا چاہتے تو اپنی ذات کی قید سے باہر نکلو جہاں پہنچ کر عشق اس قابل ہوتا ہے کہ وہ حصارِ ذات کو توڑ کر زندگی کی ایک نئی سطح دریافت کرتا ہے۔ اور زندانِ ذات سے نکلنے کا واحد راستہ عشق ہے، اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر شکر ادا کیا کرو، شکر کرنے والے کو حفاظت میں لے لیا جاتا ہے، اگر شکر ادا نہیں کرو گے تو تاوان ادا کرنا پڑے گا۔
میری اس بات پر غور ضرور کرنا، یہ بات زندگی کا نصاب تبدیل کرنے والی چیز ہے کہ ”خنزیر کی جسمانی ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی بھر آسمان کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔“
اس دن یونیورسٹی سے گھر آکر میں بہت رویا تھا۔ میری سسکیاں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں، مجھے اس کی یہ بات کھا گئی تھی کہ ”خنزیر کی جسمانی ساخت ایسی ہے کہ وہ عمر بھر آسمان کی طرف نہیں دیکھ سکتا“ میں نے بھی تو عمر بھر نہ آسمان کی طرف دیکھا تھا اور نہ آسمانوں کے مالک کی طرف، میں نے اپنے اعمال تک کو دعاﺅں کے سہارے سے محروم رکھا تھا، میں نے تو تمام عمر کبھی آسمان کی طرف رجوع ہی نہیں کیا تھا۔
ایک لمحے کو مجھے خیال آیا کہیں ایسا تو نہیں جنہوں نے زندگی بھر آسمان اور آسمان والے کی طرف نہ دیکھا ہو انہیں اگلے جنم میں خنزیر بنا دیا گیا ہو اور پھر میں نے اس خیال کو فوراً جھٹک دیا، میں ساری رات آسمان کی طرف دیکھ کر روتا رہا۔ رب سے معافی کی التجا کرتا رہا، مجھے اس دن معلوم ہوا مخلوق خدا سے محبت کرنے والوں اور قربانی دینے والوں سے رات کو آسمان باتیں کرتا ہے۔
کہتے ہیں جب چور کی قسمت جاگتی ہے تو کتے کو نیند آجاتی ہے اور اس رات میرے اندر کے چور کی بھی قسمت جاگ اٹھی، اس رات میرے نفس کے کتے کو نیند آگئی، پھر میں نے اپنے اندر ہی نقب لگائی اور اندر کا خزانہ چرا کر بھاگ آیا۔ صبح کے سورج نے دیکھا ایک نئے دائم علی شاہ نے جنم لے لیا تھا۔ پھریونیورسٹی میں میری اور وجیہہ کی کبھی بات چیت نہ ہوسکی، ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر راستہ بدل جاتے تھے۔
مگر وہ ایک نئے دائم علی شاہ کو دیکھ کر حیرت زدہ تھی۔
اس دن یونیورسٹی میں ہمارا آخری دن تھا، میں اپنے گاﺅں روانہ ہو رہا تھا، میں کبھی اتنا بھی بدل سکتا ہوں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنا سامان اٹھایا، وہ ایک شجر کے نیچے تنہا بیٹھی تھی، میں نے اس کے پاس جا کر کہا وجیہہ میں تم سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ وہ اداس آنکھوں سے مسکرا دی اور بولی مجھے افسوس ہے مگر یہ ضروری تھا وگرنہ تم عمر بھر آسمان کی طرف نہ دیکھ پاتے۔
میری زندگی کا نصاب بدلنے پر آپ کا مشکور ہوں، پلیز مجھے صرف دو سوالوں کا جواب چاہیے۔ میں نے بیگ کو کندھے پر رکھ کر کہا:
جی پوچھو، وہ بولی!
میں عمر بھر اتنی محنت کے باوجود ناکام کیوں رہا؟ کامیابی کیسے ملتی ہے؟ اور دو دن کے بعد عید قربان ہے، فلسفہ قربانی کیا ہے؟
وجیہہ سر جھکائے کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی، پھر بولی، سنو ہر جگہ کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور کامیاب وہی ہوتا ہے جو اس جگہ اور موقع کی مناسبت اور مزاج کے مطابق چلے، اس کائنات کا بھی ایک مزاج ہے، جو بھی اس کے مزاج کے مطابق چلے گا کائنات کی ہر چیز اس کے لئے مسخر کر دی جائے گی، کائنات میں موجود ہر چیز رب کی حمد و ثنا بیان کر رہی ہے اور اس کائنات کا مزاج اللہ کی عبادت، فرمانبرداری اور پیروی رسول ہے۔
اس کائنات کا حسن قربانی ہے، غور کرو، درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتا، نہ وہ اپنے سایے میں بیٹھتا ہے، دریا اپنا پانی خود نہیں پیتے، پہاڑ اپنے اندر چھپے معدنیات کے خزانے خود استعمال نہیں کرتے، بادل کے آنسو صحرا کی پیاس کے لئے ہیں، زندگی قربانی مانگتی ہے، اگر قربانی نہیں دو گے تو تاوان ادا کرنا پڑے گا اور زندگی کا تاوان دنیا اور آخرت کی ناکامی ہے۔
وہ مجھے بلک بلک کر روتا دیکھ کر خود بھی رو پڑی اور سر جھکا کر آہستہ سے بولی سنو میں تمہارا انتظار کروں گی۔

Browse More Urdu Literature Articles